اگر پاکستان نہ بنتا؟

اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا ہم دینی ‘اخلاقی‘سیاسی‘معاشی طور پر آج سے بہتر ہوتے‘ہم دل جلوں کو یہ سوال سن کر شدید دکھ ہوتا ہے۔یہ سوال بر عظیم پاک و ہند اور خصوصاً پاکستان کے عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا‘وہ بیچارے تو سیدھے سادے مسلمان ہیں اور پاکستان کو اسلام کا گھر بلکہ ملجا وماویٰ جانتے ہیں۔ان سادہ لوگوں کے نزدیک پاکستان اﷲ تعا لیٰ کا بیش بہا عطیہ ہے۔اﷲ تعالیٰ جل شانہ وہ رحیم ذات ہیں جس نے ماہِ رمضان میں قرآن الفرقان نازل فرمایا‘اسی خدائے ر حیم و رحمان نے ماہِ رمضان مبارک کی ستائیسویں رات کوپاکستان جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا۔

’’اگر پاکستان نہ بنتا؟‘‘ یہ الفاظ ہمارکلیجہ جلا دیتے ہیں۔یہ سوال کوئی بھی صاحبِ ایمان بآسانی نہیں سن سکتا اور وہ بھی اس عالم میں کہ پاکستان وجود میں آچکا‘دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑا ہو چکا۔ باسٹھ سال ہونے کو ہیں‘پھر ایسا سوال کیوں؟کیا پاکستان کے وجودِ مسعود کو مشکوک کرنے کیلئے؟جب تحریکِ پاکستان جاری تھی تو خدا پر ایمان رکھنے والا عام فرد مسلمان جس کے پاس سارا علم کلمہ طیبہ تک محدود تھا ‘وہ پورے یقین کے ساتھ اس تحریک کو دینی تحریک سمجھتا تھا اور نعرہ زن تھا’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘اور ’’پاکستان کا مطلب کیا ‘لا الہ الا اﷲ۔‘‘ہاں ان سادہ دل مگر قوی الایمان عام مسلمانوں کے مقابل لغت ہائے حجازی کے ہزاروں قارون اپنے علم کلام اور اپنی منطق کے پیچ و خم میں الجھے ہوئے ‘تماشائے لبِ بام کے اسیر اور رہین تھے‘ان کے دماغ روشن تھے‘انہیں قرآن حفظ تھے‘ان میں سینکڑوں حفاظ بخاری و مسلم بھی تھے مگر ان کے قلب مقفل تھے ورنہ حقیقت کو کیوں نہ پا جاتے؟ان علمائے عظام میں مٹھی بھر وہ بھی تھے جن کا دین ان کے قلوب میں جا گزیں تھا‘جن کے دلوں کے پٹ کھلے تھے‘یہ تھے وہ خوش قسمت علماء امت جو بر اعظم پاک و ہند کے عظیم ترین جہاد میں کود گئے اور سپاہیانہ لڑے مگر علماء کی اکثریت محروم رہی۔یہ سوال کہ پاکستان کا بننا بہتر ہے یا مضر‘یہ انہی علمائے کرام کا سوال تھا جن کا دین ان کے دماغ کی متاع تھا‘جن کا دین ان کے قلب کا سرمایہ نہ تھا۔قلب تو مقفل تھے‘ قرآن الفرقان کا ارشاد گرامی ہے کہ’’ آنکھیں اندھی نہیں ہو جاتی‘وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں‘‘۔دوسرا گروہ روشن خیال متعلقین کا وہ طبقہ تھا جو خود کو اعلیٰ رتبہ ادب و شعر پر فائز سمجھتا تھا‘تیسرا گروہ وہ کیمونسٹ حضرات کا تھا اور ان کا ایک معتدبہ حصہ ادباء و شعراء میں شامل تھامگر علماء کے سوا ان دونوں گروہوں کی مسلمانوں کے یہاں کوئی عوامی حیثیت نہیں تھی۔

اگر ماضی اور حال کے روابط عقیدت کے بندھن سے آزاد ہو کر سوچیں کہ آخر یہ کیا ہوا کہ ہمارے علماء مکرمین امت سے کٹ کر اور ہٹ کرکھڑے ہوگئے اور کھڑے کھڑے شور مچاتے رہے کہ مسلمانوں کا فائدہ متحدہ برعظیم میں ہندو غلبے کے تحت ہے نہ کہ ایک آزاد مسلم مملکت میں‘جس کے باعث برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی دو تہائی آبادی ہندو کی محکومیت کے عذابِ الیم سے بچ سکتی تھی اور کچھ بھی نہ ہوا سہی‘کیا اﷲ کا یہ احسان کم ہے کہ کروڑوں کی مسلم آبادی کو ان کا آزاد وطن میسر آ گیا؟وہ علماء اس زمانے میں یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی حکومت کے زیرِ سایہ اسلام کا نفاذ زیادہ مشکل ہو گا ‘اس کے بر عکس متحدہ ہندوستان میں اسلام کا نفاذ آسان تر ہوگایعنی حکومت الہیہ اور نظامِ مصطفیٰ کا قیام حضرت امیر المومنین و المومنات‘امیر الاحیا و الاموات گاندھی خوش صفات کے زیرِ اقتدار اور ان کے بت پرست دیگر ورثاء کے زیرِ حکومت بہتر طریق پر عمل میں آسکتا ہے۔گاندھی جی کے ذریعے نظامِ اسلام کا نفاذ سہل تر جاننے والے کون لوگ تھے؟وہ علماء اکابر تھے جن کے نزدیک ہندو لیڈر وں کی ہر بات حق تھی‘مسلمان قائدین کی ہر بات باطل ۔اگر ذرا غور کر لیں تو ایمان کی خاطر جنگ اور جہاد کرنے والے عام مسلمان تھے جن کا علم دین محدود تھا‘ان کے مد مقابل سیکولر روش کے طالب‘لغت ہائے حجازی کے قارون تھے‘شیوخ القرآن ‘شیوخ الحدیث‘خطبائے اسلام‘ائمہ دین متین‘حد ہو گئی علماء سیکولر‘غیر علماء مسلمان بنیاد پرست‘اسلام کے غلبے پر بھرپور ایمان کے مالک!

آج اسلامی بنیاد پرستی کے معنی تو یہی ہے نا ں کہ مسلمان کو اسلام کی حقیقت پر یقین ہو۔اس کا مطلب اسلام کا فراواں علم حتماً نہیں‘اگر کوئی عالم بھی صاحبِ تصدیق ہو تو الحمد ﷲ‘مگر عموماً جو دیکھا جارہا ہے وہ متوسط طبقہ ہی مراد ہے۔اہلِ دین اور اہلِ ایمان کا متوسط طبقہ وہ امت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اس لئے کہ وہ غیرت والے ہیں۔اس متوسط طبقے کو قوم کی اکثریت کثیرہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے‘خدا کے فضل سے پاکستانی عوام کا ایمان نہیں ڈولتا‘وہ پاکستان کو اﷲ کی عظیم نعمت جانتے ہیں اور پاکستان کے پروانے ہیں۔مجھے اچانک ایک کتاب یاد آ گئی ہے جس کا نام(Indian Destiny)(تقدیرِ ہند)‘مصنف کا نام تھا سرل مودک‘مصنف عقیدے کی رو سے ہندو تھا۔اس نے اپنی کتاب میں متحدہ قومیت کے مخالفوں کی خوب کھال کھینچی ہے اور اس نظریے کے حامیوں کو خوب خوب اچھالا ہے۔ماضی کے بہت سے اکابر میں شہزادہ دارا شکوہ کی بے حد تعریف کی ہے۔وہی داراشکوہ جس کے بارے میں حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔
تخم الحادے کہ اکبر پرورید
بار دیگر در دل دارا ومید

(الحاد کا بیج جو اکبر نے بویا تھا وہ دوبارہ شہزادہ داراشکوہ کے دل میں پھوٹ پڑا) اور آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ مسٹر سرل مودک نے اس کتاب میں یہ بھی تحریر کر دیا کہ داراشکوہ کے مقابل ایک تنگ دل اور متعصب شخص اورنگ زیب تھا اور ہمارے دور میں داراشکوہ کا جانشین ابوالکلام ہے اور اورنگ زیب کا جانشین مسٹرجناح۔یعنی اس کتاب میں سیکولر ذہن کا جانشین جس شخص کو بتایا گیا تھا وہ امام الہند‘خطیب الہند۔ ’’اور متعصب تنگ دل مسلمان بتایا گیا مسٹر جناح کو‘‘۔ اور اورنگ زیب اور قائد اعظم کے تعصب اور تشدد کو جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اس کا مطلب مہذب محاورے کے مطابق بنیاد پرست ہے۔ آپ سوچ لیں کہ یہ بیان ایک ہندو اسکالر کا ہے اور ساتھ ہی یہ یاد رکھیں کہ حضرت علامہ شبیر عثمانی نے قائد اعظم کے جنازے کے موقع پر جو کلمات ارشاد فرمائے ان میں یہ الفاظ بھی تھے کہ قائد اعظمؒ محمد علی جناح حضرت اورنگزیب عالمگیر کے بعد برعظیم کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔ ایمان و ایقان کا تعلق دل سے ہے ۔کلمہ طیبہ کے عربی حروف وہ مشرکین مکہ نہ سمجھ سکے جو ابو جہلی گروپ سے تعلق رکھتے تھے ‘کیا ان کو عربی نہیں آتی تھی؟ان کو عربی آتی تھی اس کے باوجود کلمہ طیبہ کے الفاظ ان کیلئے غیر زبان کے اجنبی الفاظ تھے‘بقول حضرت علامہ اقبال ‘
تو عرب ہو یا عجم ہو‘ ترا لا ا لہ الا! لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی

ایمان کا مسئلہ قلب سے تعلق رکھتا ہے اور کفر کا بھی قلب سے ۔باقی رہا تعقل تو وہ میان غیاب وحضور سراب یا اعراف‘ وہ تیسری دنیا ہے مذکر اور مونث کے مابین ایک تیسری دنیا‘کبھی امریکہ اور روس کے مابین ایک تیسری دنیا تھی۔وہ افراد جو لغت ہائے حجازی کے قارون تھے وہ ایمان کی منطق کی میزان پر تولتے رہے‘حضرت علامہ اقبال نے فرمایا!
عشق فرمودہ قاصد سے سبک کام عمل عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ا بھی

یہ منطق باز اور تعقل طراز طبقہ اس وقت بھی لبِ بام تھا‘آج بھی لبِ بام ہے‘لہندا یہ حضرات اس وقت بھی پورے بر عظیم میں مسلمانوں کی محکومی کو مسلمانوں کے حق میں اﷲ کی نعمت جانتے تھے اور مسلمانوں کی ممکنہ آزادی کو‘ان کے آزاد وطن کو‘ان کے اپنے آزاد جھنڈے کو‘ان کے اپنے ٹینکوں ‘اپنی توپوں اور اپنے سکوں کو اور ان کے اپنے اقتدار و اختیار کو پرخطر جانتے تھے‘حیف جب وقتِ جہاد آیا تو وہ جن کو ائمہ مجاہدین بننا تھا ان کیلئے گویا آیاتِ جہاد منسوخ ہو گئی تھیں۔حضرت علامہ اقبال ؒ نے بجا ہی تو کہا تھا ‘
یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر! یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا

دسمبر ۱۹۴۶ء میں انگلستان سے لوٹتے وقت حضرت قائد اعظم مصر میں چند روز کیلئے رک گئے تھے‘لیاقت علی خان بھی ہمراہ تھے۔مصر میں وہ موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کرنے اور مصر کے اہلِ سیاست و اہلِ صحافت کو تحریکِ پاکستان کے مطالب‘مقاصداور مفادات سے آگاہ کرنے کیلئے گئے تھے۔جناب زیڈ اے شیخ اور محمد رؤف کی انگریزی تصنیف ’’قائد اعظم اور اسلامی دنیا‘‘میں کچھ کلمات درج ہیں جو قائد اعظم نے مصر کے اکابرکی خدمت میں ارشاد فرمائے تھے۔قائد اعظم نے وزیراعظم مصر نقراشی پاشا اور سابق وزیراعظم اور وفد پارٹی کے قائد نحاش پاشا کی ضیافتوں میں شرکت کی اور اہلِ صحافت کی دعوتوں میں بھی۔اے کاش قائد اعظم کے وہ سارے بیانات کوئی اکھٹے کر سکتا جو عربی اور انگریزی اخبارات میں ان دنوں شائع ہوئے۔دسمبر کے نصف آخر کے مصری انگلستانی اخبارات اور ہندوستان کے خصوصاً ڈان اخبار کے تراشے ملاحظہ فرمائیں جو آج بھی برٹش لائبریری میں محفوظ ہیں۔

والپرٹ اور زیڈ اے شیخ وغیرہ نے جو لکھا اس میں قائد اعظمؒ کا اس امر پر زور تھا کہ’’ تم مصر والے بلکہ سارے مشرقِ وسطیٰ والے اس بات سے واقف نہیں ہو کہ کہ انگریز کے جانے کے بعد جو مملکت انگریزی استعمار کی وارث بنے گی وہ کتنی بڑی اور طاقتور ہو گی،تم لوگ ایک نئی مصیبت میں مبتلا ہو جاؤ گے‘تمہاری نہر سویز آج انگریز کے اشارہً ابرو پر کھلتی اور بند ہوتی ہے تو کل ہندو مملکت کا حکم نافذ ہو گا‘ہاں! اگر ہم وہاں پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ہندو مملکت کی توجہ کا مرکز ہم ہونگے ‘تم عیش کرنا ۔اس لئے یہ امر ذہن نشین رہے کہ ہم ہندوستان میں فقط وہیں کے مسلمانوں کی جنگِ آزادی نہیں لڑ رہے ہیں۔ہم ہندو کی اجتماعی نفسیات کو سمجھتے اور جانتے ہیں‘وہ غیر ہندو عناصر کو اپنے معاشرے میں زندہ نہیں رہنے دیتے‘ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم وہاں ہار گئے تو ہم نہ صرف ازروئے تمدن مٹا دیئے جائیں گے بلکہ ازروئے دین بھی نابود ہو جائیں گے‘ اور اگر ہم وہاں مٹ گئے تو ہمارے ارد گرد کے مسلمان ممالک بھی مشرقِ وسطیٰ سمیت برباد ہو جائیں گے۔آپ صفحہ ہستی سے محو ہو جائیں گے‘لہندا یاد رکھیں کہ اگر ہم ڈوبیں گے تو اکھٹے‘تیریں گے تو اکھٹے۔‘‘

قائد اعظمؒ جو ہماری جغادری علماء اور دین کے قیادت کاروں کے نزدیک روحِ دین سے بے بہرہ تھے‘محض صاحب بہادر تھے بلکہ فاسق و فاجر تھے‘وہ تو سارے عالمِ اسلام کے باب میں پاکستان کی اہمیت سمجھتے تھے اور اس اہمیت کو اہلِ مصر کے ذریعے سارے عالمِ عرب کے ذہن نشین کروارہے تھے مگر خود ہندوستان میں بیٹھے علماء اکابر اس بیچارے کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھے اس لئے کہ وہ ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے زمرہ شیوخ‘ائمہ اور خطباء و صلحاء میں شامل نظر نہیں آتے تھے اور نہ گاندھی کی طرح لنگوٹی باندھتے تھے۔ظاہر بین حضرات کے نشہ خود بینی اور مرض خود فروشی نے قائد اعظمؒ کے قلب کا عالمِ اخلاص و نور نہ دیکھا۔مرزا غالب نے کیا خوب کہا‘
قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ! اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے؟

قمری کا رنگ خاکستری‘بلبل خوشنما رنگوں کا مجموعہ(بلبل برعظیم کے باشندوں نے دیکھا ہی نہیں‘وہ سرسبز اور سرد منطقوں میں پایا جانے والا خوبصورت پرندہ ہے)قمری بھی عاشق زار اور بلبل بھی جگر فگار‘پھر کون سا لباس عشق کی نشانی ہے؟غالب یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ عشق کا تعلق جان و دل سے ہے لباس سے نہیں‘عاشق کا لباس عاشقی ہے۔(باقی اگلی قسط میں)
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350287 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.