جشنِ آزادی

ہر سال چودہ اگست کو ہم جشن آزادی مناتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم ایک آزاد ملک میں جی رہے ہیں اور اپنی ایک شناخت قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں ،آزادی ایک بڑی نعمت ہے اور اس کی قدر کی جانی چاہئے،غلامی کے خاتمے میں جن لوگوں نے طویل جد وجہد اور عظیم قربانیاں دیں انہیں بھی اس موقع پر یاد کیا جاتا اور خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، اس موقع پر پورے ملک میں جگہ جگہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ،پرچم کشائی کی رسم ادا ہوتی ہے، سربراہان مملکت خطاب بھی کرتے ہیں ، آگے بڑھنے کا عزم کیا جاتا ہے اور عوام کو متحد رہنے کی ہدایت دی جاتی ہے ۔

یہ دن حقیقتاً جشن آزادی منانے کے ساتھ جائزہ لینے کا دن بھی ہے کہ آزادی کے بعد ملک میں عوام کو اس آزادی کا کچھ فائدہ پہنچا یا نہیں ؟ دیکھا جائے تو ہم لوگ جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں صرف چہرے بدل گئے ہیں بلکہ ان اپنے چہروں کے پیچھے وہ گھناؤنی صورتیں بر سر اقتدار آگئی ہیں کہ خوشی منانے کی بجائے ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے،کیا ہمیں برابری کا درجہ حاصل ہے؟کیا ہم اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں یا دوسروں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں؟اور یہ صرف مسلم ممالک کا حال ہی نہیں ہے دوسرے کئی آزاد اور خود مختار ممالک کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے وہاں کے فیصلے بھی کہیں اور ہوتے ہیں پالیسیاں کسی اور کی نافذ کی جاتی ہیں ،کہنے کو تو ہم ایک آزاد و خود مختار ملک ہیں تاہم اپنا فیصلہ آپ کرنے کے مجاز نہیں ،ہم اپنے معاملات دوسروں کے حضور پیش کرنے پر آج بھی مجبور ہیں اس کی سب سے بڑی مثال کشمیر کا مسئلہ ہے جہاں کہیں صورت حال بگڑتی ہے ہمارے حکمران کو امریکا اور برطانیہ یاد آتے ہیں پھر وہاں سے ڈور ہلائی جاتی ہے ،ملکی سلامتی جیسے نازک اور حساس معاملے میں بھی ہدایات وہیں سے ملتی ہیں ،حالات اس قدر کشیدہ کر دئے گئے ہیں کہ سرکاری محکمے آپس میں دست وگریباں ہیں ایک ہی وزارت کے اہل کار مختلف بولیاں بول رہے ہیں ،ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے آپس میں ہی بحث و مباحثہ میں مشغول ہیں اور سب سے اہم بات کہ کسی کو نہیں معلوم وہ کس سمت جا رہا ہے؟

کتنی شرم کی بات ہے کہ کہنے کو تو ملک آزاد اور جمہوریت کا دور ہے لیکن عوام کے منتخب نمائندوں کو اپنی ذمہ داریوں کا قطعاً احساس نہیں ،انہیں ہر موڑ ہر قدم پر احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ جمہوریت نہیں ،یہ آزادی نہیں، یہ انسانیت نہیں ،یہ انصاف نہیں ،یہ سراسر جھوٹ اور بے ایمانی ،بد عنوانی کا پلندہ ہے جس کی چکی میں غریب عوام پس رہی ہے،لیکن کسی کے سر سے جوں نہیں رینگتی۔

عوام کے مسائل صرف اس لئے حل نہیں ہو پاتے کہ جن کو وہ منتخب کر کے پارلیمنٹ ،اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان کے مسائل حل کریں انکی نمائندگی کریں ،اپنی اپنی سیٹیں لینے کے بعد یہ رہنما اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف اپنی ترقی و بہبود کی فکر کرنے لگتے ہیں ،مشکل وقت یا گھڑی عوام کے لئے وہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ ناہل ، غیر ذمہ دار اور احسان فراموش نمائندوں کو قبل از الیکشن تبدیل کر سکیں اور اس بات کا بھی یہ طوطا چشم نمائندے فائدہ اٹھاتے ہیں ،دوسری طرف عوام بھی اتنی بھولی اور یاداشت کی کمزور ہوتی ہے کہ جب الیکشن ہوتا ہے تو وہی نمائندہ جس نے دھوکا دیا پھر سبز باغ دکھاتا ہے ووٹ حاصل کرتا ہے اور پھر رہنما بن جاتا ہے،تئیس مارچ ، چودہ اگست ، چھ ستمبر ،پچیس دسمبر یا کوئی بھی دینی تہوار ہو یہ رہنما عوام کو بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔یقینا یہ دن خوشیاں منانے کا ہے کہ ہم آج آزاد قوم ہیں کسی کے غلام نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس آزادی کو ایک جشن آزادی سمجھ کر منانا چاہئے یا محض ایک چھٹی کا دن سمجھ کر دن سوتے یا سیر و تفریح کرکے گزار دینا چاہئے ،ہم میں سے کتنے لوگ اس دن سے واقفیت رکھتے ہیں کیا ہم سب جانتے ہیں کہ چودہ اگست کا کیا مطلب ہے ؟

بچوں کے ہاتھوں میں قومی پرچم تھما دینے یا تمام دن ٹی وی پر ملی نغمے نشر کرنے سے آزادی کا مقصد پورا نہیں ہوتا،ہم لوگ انگریزوں کی غلامی سے تو آزاد ہوگئے لیکن اب ہمیں اپنے ہی لوگوں نے غلام بنا لیا ہے،انگریز تو شاید ہمارے ہاتھ پاؤں نہ کاٹتا اور نہ ہی خواتین کا استحصال کرتا یا بچوں سے مزدوری لی جاتی جبکہ آج ہم اپنے آزاد ملک میں اپنے ہی لوگوں کے ظلم وستم کا شکار ہیں کوئی ہمارے ہاتھ پاؤں کاٹتا ہے تو کوئی ہماری ماں بہن بیٹی کی عزت سڑک پر اچھال رہا ہے تو کوئی ہمارے بچوں کو یرغمال بنا رہا ہے ایسی آزادی سے تو انگریز کی غلامی ہی بہتر تھی۔آزادی کی یہ سالگرہ اگر کوئی سبق دیتی ہے تو وہ یہی ہے کہ عوام ملک کے سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی کے خواہاں ہیں ان کیلئے کسی کا بھی خطاب ، پیغام یا نصیحت کو ئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اب دروغ گوئی نے کان کے پردے پھاڑ دئے ہیں ،وہ ان فضول باتوں سے اکتا گئے ہیں کیونکہ ایک عام انسان کو الفاظ و جذبات کی نہیں عمل کی ضرورت ہے ،پریڈوں کی سلامی ،ثقافتی جھلکیوں یا سیاسی پینترے بازیوں اور مختلف نمود و نمائش کی انہیں کوئی ضرورت نہیں رہی ۔

حکمرانوں نے تاریخ اور ثقافت کی رو سے ریاستی یگانگت اور رفاقت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہوتا ، نشر و اشاعت کے تمام میسر وسائل سے کام لے کر تنگ نظری ، جہالت ،بد عنوانی اور حرص کے نقصانات پر قابو پایا ہوتا ،عوامی تعلیم و تربیت کے پہلو کو جشن آزادی کے ہر گوشہ میں پیش رکھا ہوتا تو انیس سو سینتالیس سے لے کر آج تک کتنا کام ہو گیا ہوتا ،کیا حکمرانوں کے پاس کوئی جواب ہے؟

ملک کے معماروں کو سلو پوائزن دے کر اور جلسوں میں گولیوں سے بھون دئے جانے پرجتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے نہ کہ آج جس حالت میں ملک اور قوم ہیں جشن آزادی منایا جائے۔

یہ کیسی جشن آزادی ہے کہ سارا ملک ایک عجیب سی ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے کہ چودہ اگست کو نہ جانے کیا ہوگا ؟کیا پولیس عوام پر پھر گولی چلائے گی؟کیا سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز کو گرفتار کیا جائے گا ؟ کیا جمہوریت پھر اپنا چغہ اتارے کی ؟کیا پھر کسی جنرل کے لئے راستہ ہموار ہو گا؟ سوچنا یہ ہے کہ آخر کب تک عوام اس سرکس نما جمہوریت کو جھیل پائیں گے ؟ کیا اٹھارہ کروڑ لوگوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنے مفادات کی بجائے ملک و قوم کے بارے میں سنجیدگی سے ترقی اور خوشحالی کا سوچے؟
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 229226 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.