غداری کیس:سابق آمر تنہا رہ گئے....؟

سابق آمر پرویز مشرف کا معاملہ طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سابق آمر پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے غداری کیس کا انجام مبہم ہوتا جارہا ہے،ان پر فرد جرم عاید ہوچکی ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ ان کو سزا ہوپائے گی یا نہیں۔ معاملہ مزید الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ منگل کے روز سابق آمر پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے خصوصی عدالت سے مطالبہ کیا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے 3 نومبر کے نوٹیفکیشن میں سابق صدرکی معاونت کرنے والے ان کے جن ساتھیوں کا ذکر ہے، انہیں نوٹس جاری کر کے ٹرائل میں باقاعدہ شامل کیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کرنے والے تمام ملزمان کا ٹرائل 1956ءسے شروع کیا جائے اور 3 نومبر 2007ءکے اقدامات میں پرویز مشرف کے ساتھ شریک دیگر شخصیات کو بھی شامل تفتیش کیا جائے، کیونکہ صرف ایک شخص کا ٹرائل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سے 1956ءسے غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست مسترد کر دی۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے وکیل صفائی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ خصوصی عدالت کا قیام صرف اس مقدمہ کے ٹرائل کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ ہمارا اختیار سماعت صرف موجودہ غداری کیس تک محدود ہے۔ 1956ءسے آئین شکنی کے مقدمات نہیں کھول سکتے۔ جبکہ پراسیکوٹراکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ دیگر افراد کے خلاف مقدمے کے حوالے سے عدالت 7 مارچ کو فیصلہ دے چکی ہے۔ اب کیس میں مزید متفرق درخواستوں کی گنجائش نہیں رہی، یہ غیر ضروری بات ہے کہ 100 لوگوں کو شامل کیا جائے یا 200 لوگوں کو شامل کیا جائے۔ شریک ملزموں سے متعلق مشرف کی درخواست کارروائی کو الجھانے کی کوشش ہے۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صرف پرویز مشرف کے خلاف ثبوت ملے ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے مشاورت یا ایڈوائس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، ایمرجنسی کا مشورہ دینے والوں کی نشاندہی صرف پرویز مشرف ہی کر سکتے ہیں، وہی بتا سکتے ہیں کہ ان کے مشیر کون کون لوگ تھے۔ ایمرجنسی کے فرمان میں جن افراد کا تذکرہ ہے ان کے خلاف شواہد پیش کرنا مشرف کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ ایمرجنسی آرڈر میں پرویز مشرف کے دستخط موجود ہیں۔ اس مقدمے میں اب تک جتنی بھی تفتیش ہوئی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سابق فوجی صدر نے ملک میں 3 نومبر 2007ءمیں ملک میں ایمرجنسی لگانے کا اقدام ذاتی حیثیت میں کیا تھا۔ خیال رہے کہ 7مارچ 2014ءکے اپنے ایک فیصلے میں خصوصی عدالت اس معاملے کو پہلے سے سلجھا چکی ہے۔ خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ملزم کے خلاف جو مواد ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، وہ اس بات کے لیے ناکافی ہے کہ ملزم نے ایمرجنسی کے نفاذکے لیے دیگر ریاستی اداروں سے مشاورت کی تھی۔

واضح رہے کہ پرویز مشرف کے مطابق انھوں نے 3 نومبر کو ایمرجنسی سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائس پر لگائی تھی، اقدام سول اور فوجی حکام کے مشورے سے بھی کیا تھا۔ جبکہ دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت کے صدر مملکت اور وزیراعظم کے اہم گورنر، اٹارنی جنرل، اہم وفاقی سیکرٹریز اور سینئر اسٹاف ممبران سمیت 14 میں سے کسی بھی اہم گواہ نے ایف آئی اے کی انکوائری ٹیم کے روبرو جنرل پرویز مشرف کے اس دعوے کی توثیق نہیں کی کہ ان کا 3نومبر2007ءکا اقدام سینئر فوجی اور سویلین قیادت کے ساتھ مشاورت کا نتیجہ تھا۔ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی وجہ بننے والی ایف آئی اے کی خفیہ انکوائری رپورٹ میں اس وقت کے وزیراعظم، کابینہ یا پھر حکومت کے کسی بھی رکن کے اس اقدام میں معاون ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ اس وقت کے سیکرٹری کابینہ، سیکرٹری برائے صدر مملکت (پرویز مشرف)، پرنسپل سیکرٹری لا، سیکرٹری داخلہ وغیرہ سب ہی نے دوٹوک انداز میں اس وقت کے وزیراعظم، کابینہ یا سرکاری عہدیداروں کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ایمرجنسی کے نفاذ کا حکم نامہ تیار کیا تھا۔ پرویز مشرف کے دعویٰ کہ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز، کابینہ، گورنر صاحبان، فوجی کمانڈرز وغیرہ سے3 نومبر 2007کا اقدام کرنے سے قبل مشورہ کیا گیا تھا، کا ایک بھی گواہ حتیٰ کہ مشرف کے اس وقت کے اپنے ہی سیکرٹری اور اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول تک نے بھی توثیق نہیں کی۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے پرویز مشرف کو مشورہ نہیں دیا تھا کہ وہ 3 نومبر کا ماورائے آئین حکم نامہ جاری کریں۔ انہیں تو ایمرجنسی کے نفاذ کے آرڈر کا علم ہی نہیں تھا۔ شوکت عزیز کے پرنسپل سیکرٹری خالد سعید نے بھی ایف آئی اے کو یہ بتایا کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی ایک بیان میں انکار کرچکے ہیں کہ انہوں نے ایمرجنسی کے نفاذ کی کوئی تجویز دی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سلسلے میں ان سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا تھا۔

دوسری جانب ایک فوجداری اپیل میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی توجہ سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمے میں مبینہ بیرونی مداخلت پر دلائی گئی ہے۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کا ایک خارجی مددگار عدالت سے باہر فریقین میں سمجھوتے کے لیے کوشاں ہے اور خصوصی عدالت کی کارروائی اسی کے نسخے پر چل رہی ہے۔ سابق صدر گزشتہ کئی برس سے اپنے مددگار کے ساتھ سیاسی سودے بازی میں ملوث رہے ہیں اور سیاسی اتار چڑھاو ¿ کے باوجود انہیں اس مددگار کی مسلسل تائید و حمایت حاصل رہی ہے۔ صدارت سے استعفے کے بعد ان کے مابین بدستور رابطہ رہا ہے۔ اس مددگار کی منشاءکے مطابق جاری مقدمہ سزائے موت کی بجائے عمر قید پر منتج ہوگا، البتہ دکھاوے کی سزا بھی صدارتی معافی کے آرٹیکل 45 کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ وفاقی حکومت اعلانیہ کہہ رہی ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے گا، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ جنرل مشرف کی بریت کے خلاف اپیل سے گریز کیا جائے گا۔ پرویز مشرف کی بریت قوم سے ایک مہنگا مذاق ہوگا، کیونکہ وفاق اب تک ان کے حفاظتی اقدامات پر 20 کروڑ سے زاید رقم صرف کرچکا ہے۔ درخواست گزار شاہد اورکزئی نے زور دے کر کہا کہ خصوصی عدالت کی تمام تر کارروائی کی اصل قانونی ذمہ داری اسلام آباد ہائیکورٹ پر ہی آئے گی، کیونکہ جب تک ہائیکورٹ سزائے موت پر مہر نہیں لگاتی، اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہیں ہوسکتی۔ اپیل پرویز مشرف کے خلاف فرد جرم میں ترمیم کے لیے دائر کی گئی، تاکہ قومی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے پر سابق صدر پر گرفت کی جائے۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے بقلم خود درخواست اس بنا پر رد کردی کہ درخواست گزار فریق مقدمہ نہیں ہے۔ غداری کے مقدمے کا اصل مقصد تو آئین کا دفاع ہے، جبکہ خصوصی عدالت وفاقی کی سہولت پر عمل پیرا ہے۔ لہٰذا اسے فرد جرم میں بڑے جرم کے اضافے اور اس الزام کی پراسیکیوشن کی ہدایت کی جائے، تاکہ عدالتی کارروائی معطل رکھی جائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ غداری کیس میں مشرف کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی قوتیں سرگرم ہیں، حکومت پر مشرف کیس کے حوالے سے کافی زیادہ دباﺅ ہے،اس تمام تر دباﺅ کے باجود پرویز مشرف تنہا ہوتے جارہے ہیں، کیونکہ اب ان کے تمام ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور بیرونی مداخلت کے خلاف بھی درخواست دی جاچکی ہے۔ تجزیہ کار وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی پی رہنما آصف زرداری کی ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.