حکمرانو..!کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کے مکین پانی کو ترس رہے ہیں اور تم

نیاانکشاف82فیصدمُلکی آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں کیوں..؟

آج بھی اِس میں کوئی شک نہیں کہ اَزل سے ہی پانی جو اِنسان اور اِنسانیت کے لئے جِلابخشنے کا واحد سستااور آسانی سے ملنے والا قدرتی ذریعہ رہاہے مگرآج افسوس ہے کہ ہمارے مُلک میں حکمرانوں اور اِن کے کارندوں سمیت ہائیڈرینٹ اور ٹینکر مافیا والوں نے دیدہ دانستہ اِنسان کی پانی جیسی اِس اہم ترین ضرورت کا حصول بھی عوام کے لئے مشکل سے مشکل تربنادیاہے آج جس کے پاس پیسہ ہے تو وہ ہی اِسے بے دریغ خرید کر پی اور استعمال کرسکتاہے مگر جس کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہے وہ پانی جیسی اِس قدرتی دولت سے بھی محروم ہے آج یہ سلسلہ کراچی سمیت میرے سارے مُلک میں ہنوزجاری ہے مگراپنی نام نہادجمہوریت بچانے والے حکمرانوں کو اتنی بھی فرصت نہیں ہے کہ یہ عوام کے اِس درپیش مسئلے کے فوری حل کی جانب اپنی خصوصی توجہ ہی دے دیں اور اِس معاملے کے فوری حل کے خاطرسر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور اِس کا کوئی دیرپاحل ہی نکال سکیں۔

آج یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک روزمجھے کراچی کے اورنگی ٹاؤن سے محی الدین نامی ایک شخص کا فون آیااور اِس نے مجھے بتایاکہ کافی عرصے سے ہمارے علاقے اورنگی ٹاؤن گیارہ اور ساڑھے گیارہ اقبال مارکیٹ سے متصل کئی علاقے کے مکین پانی کے حصول سے محروم ہیں پورے ہفتے میں صرف ایک صرف ایک گھنٹے کے لئے پانی آتاہے اِس کے بعد پانی بندہوجاتاہے،ہمیں میٹھا پانی خریدکر پینا پڑرہاہے آج پچھلے کئی ماہ سے کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کے کئی علاقوں کے مکین صاف اور پینے کے پانی کی ایک ایک بوندکو ترس رہے ہیں کیا آج اِن کا پرسانِ حال کوئی نہیں ہے...؟؟ ´آج حکمرانوں کواِس جانب بھی فوری توجہ دینے کی اَشد ضرورت ہے یہاں بسنے والے بھی تمہاری طرح کے اِنسان ہیں غریب ہیں تو کیا ہوا...؟مگر یہ بھی تو تمہاری طرح اللہ کے بندے ہیں فرق صرف اتناہے کہ تمہارے ہاتھ میںاقتدارکا ڈنڈاہے اور یہ اِس کے آگے بے بس ہیں..حکمرانو..!تمہیںیہ بھی یادرہے کہ اِنہوں نے ہی تمہیں ایوانوں تک پہنچایاہے اور اپنے ووٹوں سے تمہارے سروں پر حکمرانی کا تاج سجایاہے کیا تم اِنہیں پیاسامرنے کے لئے چھوڑدوگے...؟ یاپانی کی ایک آدھ بوند کو ترستے اورنگی ٹاؤن کے علاقوں کے مکینوں کے خشک حلق میں پانی کی دوچار بوندیں ہی ٹپکانے کا انتظام بھی کردوگے...؟؟آج اورنگی ٹاؤن کے مکین صدر ممنون حُسین، وزیراعظم نوازشریف،سابق صدر آصف علی زرداری، گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العبادخان وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے اعلی ٰ و ادنیٰ حکام سے بھی پُروزوراپیل کرتے ہیں کہ خدارااورنگی ٹاؤن کراچی کے پانی کے ترسے مکینوں کو پانی مہیاکرکے اپنی جمہوریت سے پہلے مرتی ہوئی اِنسانیت کو بچائیں پھر د یگر اُمورِ مملکت پر توجہ دیں۔

اگرچہ اِس سے بھی انکارنہیں ہے کہ کراچی کے اورنگی ٹاؤن سمیت میرے سارے مُلک کا ہی یہ حال ہے کہ میرے مُلک کے اکثروبیشترصوبوں اور اِن میں بسنے والے لوگ صاف پینے کے پانی سے بھی اَب تک محروم ہیں جس کا برملااعتراف گزشتہ دِنوں پانی کے حوالے سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کودی جانے والے بریفنگ میں کرلیا گیا ہے اور اَب تو اِس کے بعد سے تو ایسالگ رہاہے کہ جیسے ماضی اور حال کے میرے حکمرانوں کو اپنی حکمرانی کے سِواعوامی مسائل اور مشکلات کا کبھی خیال ہی نہیں رہااور اگرآج بھی اِن کی ایسی ہی بے حسی رہی تو پھر میرے مُلک اور اِس کے لگ بھگ 20کروڑ عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے، آج خالص دودھ اور ملاوٹ سے پاک خوراک ،اچھے و سستے علاج و معالجہ اور اچھی و سستی معیاری تعلیم اور پُرآشائش سفری سہولتوں سمیت بجلی و گیس کے حصول کارونارونے والی قوم کا یہ حال ہوگیاہے کہ آج میری پاکستانی قوم کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے ۔

جبکہ یہاں یہ امر انتہائی افسو س ناک ہے کہ ایسے میں میرے حکمرانوں کو( اپنی نام نہاد اور جعلی )ایک ایسی جمہوریت بچانے کی فکرلاحق ہے جس کا اِنہیں تو فائدہ ہے مگر عوام کا اِس سے ایک رتی کا بھی فائدہ نہیں ہے، آج افسوس اور حیرت کا مقام یہ ہے کہ اپنے کئے پر کسی آمر کے بوٹوں کی آوازسے خوفزدہ کو کرجس طرح میرے حکمران (نوازوزرداری عوام کے نزدیک نام نہاد اور بے فائدہ )اپنی جمہوریت کو بچانے کے لئے گھنٹوں ملاقاتیں کررہے ہیں اور قومی خزانے سے مختلف اقسام کے پانی اور کھانے کھاپی رہے ہیں اگر یہی میرے .....مندحکمران اِسی طرح مسائل میں گھری اور پینے کے صاف پانی سے محروم اپنی قوم کے لئے بھی اپنے سرجوڑ اور پھوڑ کر کسی لمحے بیٹھ جاتے تو میرے مُلک کے عوام کو کچھ نہیں تو کم ازکم پینے کا صاف پانی تو ضرورمیسر آجاتامگر آج تک میرے موجودہ اور پچھلے حکمرانوں نے سوائے اپنے فائدے کے مُلک اور عوام کے لئے کچھ نہیں سوچاہے آج جس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن اور لانڈھی وکورنگی سے لے کر کشمور تک سرزمین پاکستان پر بسنے والے لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے ایسے میں پاکستانیوں کے لئے دیگر اِنسانی ضروریات کی اشیاءکا حصول تو دور کی بات ہے پاکستانیوں کو تو پینے کا پانی تک میسر نہیں ہے ایساکیوں ہے...؟ کیا اِس کا جواب میرے بالخصوص موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے پاس ہے...؟؟؟؟جو سامنے آئیں اور عوام کو یہ بتاسکیں کہ اُنہوں نے قوم کو پینے کے صاف پانی تک سے کس لئے محروم رکھاہے ...؟اور یہ ایسا کب تک کرتے رہیں گے ..؟یقینامیرے اِن سوالات کے جوابات میرے اِن .....مندحکمرانوںکے پاس نہیں ہوگااور کیوں ہوگا...؟؟اِس لئے کہ اِنہوںنے کبھی چاہناتو درکنار اُنہوں نے عوام کو صاف پینے کے پانی کی سہولت باہم پہنچانے سے متعلق کبھی سوچاتک نہیں ہے۔

اَب ایسے میں کتری ہوئی پیاز پر لیمونچوڑ ے ترش پن کی حقیقت کی طرح کوئی اِس سچ کوبھی جھٹلاسکتاہے تو اِسے بھی جھٹلاکر دیکھائے کہ پچھلے دِنوں قائمہ کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ میں بتایاگیاہے کہ82فیصدمُلکی آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے اوراَب اِس کے بعد اِس سے بھی کسی کو انکار نہ ہوکہ دنیا میں ہر بیماری کی دواتوممکن ہے لیکن جب کوئی مریض اپنے تمام تر وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دیدہ ودانستہ تنگ دستی میں مبتلارہے اوراپنی اِسی حالتِ پریشانی میں مبتلارہ کراپنے اُوپر سستی بھی غالب کرلے تو پھر یقینی طور پر کسی بھی مہلک مرض کی دواموت کے سِوااور کچھ نہیں ہے اور آج ہمیں خود کو اِس مریض کے خانے میں رکھ کریہ ضرور دیکھناچاہئے اگروہ مریض چاہتاتو اپنے وسائل کو استعمال کرتااور ہر قسم کے حالت سے مقابلہ کرتااور اپنی بیماری سے نجات حاصل کرلیتامگر اِس نے ایسانہ کیا جیسااِسے کرناچاہئے تھااور بالآخر سُستی اور کاہلی اِس کی موت کی سبب بنی اور اِس طرح وہ وہاں پہنچ گیااَب جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔

بریان پچھلے زمانے کا ایک دانشورگزراہے اِس موقع پر مجھے اِس کا ایک قول یادآگیاوہ کہناہے کہ” حقائق ایسی حقیقت ہوتے ہیں کہ اِنہیں تسلیم کرلیناہی دانش مندی ہوتی ہے“ یوں آج میری پاکستانی قوم کو بھی یہ انکشاف من و عن تسلیم کرتے ہوئے اپنے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے احتساب کے لئے کمربستہ ہوجاناچاہئے اور اُن سے یہ پوچھناچاہئے کہ اُنہوں نے قوم کو66سالوں سے کیا دیاہے ...؟آج اگرموجودہ حالات واقعات کے تناظر میں دیکھاجائے تو ہمیں یہ صاف ظاہرہوگاکہ ہمارے پچھلے اور موجودہ حکمرانوں نے قوم کے لئے کچھ بھی بہترنہیں کیا ہے اور اگر یہی لو گ اُلٹ پلٹ کرہی آتے رہے تو اُمیدہے کہ شایدآگے بھی قوم کو پینے کے صاف پانی سمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم درمحروم رکھیں گے کیوں کہ جس طرح ہمارے پچھلوں میں مُلک و قوم کو کچھ دینے کی صلاحیت تھی اور نہ ہی ہمارے موجودہ حکمرانوں کی بھی اتنی اہلیت ہے کہ وہ اپنے جیتے جی مُلک و قوم کو مسائل کی دلدل سے نکال کر اِسے اِس کے بنیادی حقوق دے سکیں اور اِسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال دے۔

یقینایہ پچھلے دِنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا ایک انتہائی اہم اجلاس کمیٹی کے چیئرمین چوہدری طارق بشیر چیمہ کی زیرصدارت پینے کے صاف پانی کے حوالے سے منعقد ہواجس میں وفاقی وزیرزاہدحامد اور وفاقی سیکرٹری کامران عالی قریشی نے جس طرح پی سی آر دبلیو آر کی پینے کے پانی کے حوالے سے رپورٹس کے بارے میں بتایا یہ لمحہ تو ہمارے حکمرانو ں کے چّلو پھر پانی میں ڈوب مرنے کا تھا مگر افسوس کے اِنہوں نے ایسانہیں کیا جو کوئی غیرت مند چّلو بھر پانی سے کیا کرتاہے یہ یقینا حکمرانوں سمیت ہم سب پاکستانیوں کے لئے بھی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا مُلک دینا کا آٹھواں ایٹمی مُلک ہونے کے باوجود بھی اپنے عوام کو پینے کے صاف پانی جیسی قدرتی اور سستی ترین آسانی سے دستیاب ہوجانے والی انمول ضرورت ِزندگی سے بھی محروم رکھے ہوئے ہے قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کو دوران ِ بریفنگ بتایاگیاکہ ” آج بھی مُلک کی 82فیصدآبادی کو پینے کا صاف پانی میسرنہیں ہے،مُلک میں پینے کے صاف پانی کے حوالے سے صُورت حال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے، منرل واٹر کا معیار بھی زیادہ اچھانہیں ہے،مُلک میں متحرک رہنے والی 68منرل واٹرکمپنیوں میں سے 17برانڈزکاپانی انتہائی آلودہ پایاگیاہے اِنہی رپورٹس کے حوالے ایک نئے انکشاف کے ساتھ یہ بھی بتایاگیاکہ”مُلک بھر کے 95اضلاع سے پانی کے نمونے حاصل کرنے کے بعد جب اِن کا لیبارٹری ٹیسٹ کیاگیاتو پتہ یہ چلاکہ مجموعی طور پر مُلک کی صرف18فیصدآبادی کو ہی پینے کا صاف پانی میسرہے،اور انکشافات کے ساتھ یہ بھی بتایاگیاہے کہ صوبہ بلوچستان کی 99فیصدآبادی آلودہ پانی استعمال کررہی ہے ، خیبرپختوانخواہ کی 93فیصد، صوبہ سندھ کی72فیصد، پنجاب کی 79فیصد جبکہ وفاقی دارالحکومت کی 59فیصدآبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے اور اِسی طرح وفاقی وزیرنے انکشافات کے ساتھ یہ بھی بتایاکہ ہمارے یہاں تو منرل واٹر کا معیار بھی زیادہ اچھانہیں ہے،68میں سے 17برانڈزکا پانی آلودہ پایاگیاہے ،“اَب کیا ایسے میں یہ کہاجائے کہ میرے مُلک میں قوم کو پانی سمیت کچھ بھی میسر نہیں ہے جس پر یہ خداکا شکراداکرسکے،اور اَب کیا یہ میرے مُلک حکمرانوںکے لئے غیرت کا مقام نہیں ہے کہ یہ کچھ نہیں تو کم ازکم قوم کو پینے کے صاف پانی کا ہی بندوبست کرکے دے دیں تاکہ کراچی (کے علاقوں اورنگی ٹاؤن سمیت لانڈھی وکورنگی اور کیماڑی و لیاری )سے لے کرکشمورتک ہر پانی کو جلدپینے کا صاف پانی میسر آسکے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 890217 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.