سعودیہ کی 100سالہ فقیرنی اوردس لاکھ ڈالرز

جب بھیک مانگنے کی عادت پڑجائے توکیاعزت کیا ذلت...؟؟
کہیں سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرزکاعطیہ نوازاور مشرف کی صلہ کے لئے تو .....؟

اَب عادت ا چھی ہوکہ بُری دونوں ہی جان کا روگ بن جایاکرتی ہیں،اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ پاکستان کو اِس کی اقتصادی بحالی کے لئے سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالرز عطیے کے طورپر جو دیئے ہیں ، اِسے سعودی عرب نے یہ رقم کوئی یوںہی تو نہیں دے دی ہے بلکہ یقینا اتنی بڑی رقم خود پاکستان نے عطیے کی مددمیں مانگی ہوگی جس پرسعودی عرب نے دے دی ہے جس کا گزشتہ دنوں اظہارخودپاکستان نے بھی آئی ایم ایف سے کردیاہے، اَب اِس پر کسی کو کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئے مگربس یہ سوچناچاہئے کہ پاکستان دنیا کا ایک ایٹمی مُلک ہونے کے باوجودبھی امدادوں اور عطیوں پر ہی کیوں چل رہاہے...؟جبکہ بحیثیت ایک ایٹمی مُلک اِسے اپنی ضروریات خود پوری کرنی چاہئے تھیں،مگراَب اگر یہ ابھی امدادوں اور عطیوں پر ہی پل رہاہے تو پھر ایساکرنااور کرانااِس کی ایک نہ چھٹنے والی عادت ہے اور اَب جو اِس کی مجبوری بن چکی ہے، اَب یہ لاکھ کچھ بھی کرلے مگر اَب یہ اِس کی عادتاََ ہی صحیح عطیات اور امداد مانگنا اوراِن پر چلنا پاکستان کی خصلت کا حصہ بن چکے ہیں۔

جبکہ ایک عام خیال یہی جارہاہے کہ سعودی عرب چونکہ ہماراایک اچھادوست ہے اور ہمارایک بڑااسلامی اور قابلِ احترام برادر ملک بھی ہے ، اِس نے ہمیشہ ہر بڑے وقت میں ہماری مدد کی ہے خواہ دورِمشرف میں میاں نوازشریف کو بچاناہویا آج دورِ نوازمیں پرویزمشرف کو بھی نوازشریف کی طرح سیف سائیڈدلانامقصودہو،دونوں ہی صورتوں میں سعودی عرب کا ایک اہم کردارنظرآنالازمی امرہے کوئی لاکھ کچھ بھی کہے مگر درحقیقت یہی ممکن نظرآتاہے کہ جیسے آج سعودی عرب نے پاکستان کو جو ڈیڑھ ارب ڈالرزکی مدد عطیے کی مدمیں کی ہے اِ س کے پسِ پردہ عوامل میں یہ بھی توہوسکتاہے کہ جس طرح ماضی میں راتوں رات مشرف ہاتھوں نوازشریف کو بچایاگیاتھاآج اِسی طرح ایک مرتبہ پھر کہیں سعودی عرب نوازشریف کے ہاتھوں مشرف کو بھی توبچاکر نہیں لے جاناچاہتاہے جس کے لئے سعودی عرب نے پاکستان کو عطیے کی مدمیں ڈیڑھ ارب ڈالرزکی رقم دے دی ہے ۔

بہر حال ...! دنیا کی اکثریت اِس پر متفق ہے کہ بد عادات اپناناآسان ، نِباہنا مشکل اور چھوڑناناممکن ہے ،ہرزمانے کے اہل دانش کا عادت سے متعلق اپنے اپنے مشاہدات اور تجربات کے بعد کچھ ایسا ہی کہنا رہاجیسا کہ جانسن کا قول ہے کہ” عادت کی زنجیریں دیکھنے میں معمولی نظرآتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ تمام زندگی تُوڑے نہیں ٹوٹتیں“اور اِسی طرح سینٹ آگسٹائن کا بھی عادت کے بارے میں یہ کہنابجامعلوم دیتاہے کہ”عادت پر اگرکنٹرول نہ کیاجائے تو یہ بہت جلد ضرورت میں تبدیل ہوجاتی ہے“اور جس اِنسان نے غربت اُم الخبائث کے باعث بُری عادت اپنالی اِس کی نہ تو دنیا بچی اور نہ آخرت ہی ٹھیک رہے گی خواہ اِس عادت کے باعث وہ دنیا کا ارب پتی اور کھرب پتی اِنسان ہی کیوں نہ بن جائے مگر اِس کی بُری عادت اِس کے وجود کے ساتھ قبرکی آغوش میں جاکر بھی کبھی ختم نہیں ہوسکتی ہے اورہمیشہ دنیا اِسے اِس کی عادت واطوار سے ہی جانے گی اور رہتی دنیاتک اِسے اِس کی بُری عادت سے پہنچانتی رہے گی۔

آج میں عادت کا تذکرہ کرتے ہوئے سعودی عرب کے شہر جدہ سے تعلق رکھنے والی ایشانامی اُس 100سالہ فقیرنی کا حوالہ دیناچاہوں گاجس نے سعودی عرب کے شہرجدہ کی سڑکوں، بازاروں، محلوںاورگلی کوچوں میں لگ بھگ کوئی 50برس تک بھیک مانگی اور اِس سارے عرصے کے دوران اِس سو سالہ فقیرنی نے تقریباََ دس لاکھ ڈالرز(تیس لاکھ ریال) جمع کئے اور ساتھ ہی دس لاکھ ریال مالیت کے زیورات اور سونے کے سکے چھوڑکر انتقال کرگئی،اَب یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ اِسے اتنی رقم رکھنے کے باوجود بھیک مانگنے کی کیا ضرورت تھی...؟ تو بات پھر وہی عادت کی آجاتی ہے کہ بھیک مانگنااِس کی ضرورت نہیں بلکہ اِس کی عادت بن چکی تھی سویہ مرتے دم تک اپنی عادت پر قائم رہی اور بھیک مانگتے مانگتے ہی دنیا سے مرگئی۔

سعودی عرب کے شہر جدہ سے خبریہ آئی ہے کہ سعودی عرب کے شہر جدہ کے ایک علاقے البلدمیں گزشتہ پچاس برس سے بھیک نانگ کر گزارہ کرنے والی ایک سو برس کی خاتون انتقال کرگئیں لیکن اِس خاتون کے مرنے کے بعد اِس خاتون کی اِس بات سے سعودی عرب کے بادشاہ و گدااورعام شہری سمیت دنیابھر کے بھی اِنسان محوحیرت ہیں کہ اِس بھیک مانگنے والی سو سالہ ایشانامی خاتون نے اپنے مرنے کے بعدتقریباَدس لاکھ ڈالرز(تیس لاکھ ریال)اور دس لاکھ ریال مالیت کے زیوارت اور سونے کے سکے چھوڑے ہیں ،اِس کے ساتھ ہی خبریہ بھی ہے کہ ایشانامی سو برس خاتون اپنے ہی گھرکے غسل خانے میں مردہ پائی گئی تو اِس کے پڑوسیوں کو اِس کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہ تھاکہ اِس کے پاس اتنی رقم ہوسکتی ہے وہ تو اِسے محض ایک فقیرنی سمجھتے تھے او ریہی سمجھ کر اِس سے ہمدردی بھی کیاکرتے تھے مگر جب اِنہیں یہ معلوم ہواکہ یہ تو پچاس برس سے جدہ کی گلی کوچوں میں بھیک مانگ مانگ کر اِن سے بھی زیادہ امیرترین ہے تو وہ بھی حیران اور پریشان ہوکر خودکو اِس کے سامنے فقیراور بے کس تصورکرکے اپنی ہی نظرمیں خودہی گرتاہوامحسوس کرنے لگے۔ایسے میں اَب جب ایشاکی بات چلے اور اِسے بچپن سے پہنچانے والے شخص احمدالسعیدی کا تذکرہ نہ ہوتوبھی زیاتی ہوگی ،یہ احمدالسعیدی نامی وہ شخص ہیں جو ایشاکو بچپن سے پہنچانتے ہیں اُنہوں نے صحافیوں کو بتایاکہ ایشاکا کوئی رشتہ دارنہیں تھا،صرف ایک بہن اور ایک والدہ تھے جو بھیک مانگ کر ہی اپناگزربسرکرتے تھے،احمدالسعیدی نے بتایاکہ ایشاکی ولدہ اور بہن کے انتقال کے بعد بھی ایشانے بھیک مانگنے کا سلسلہ جاری رکھااور اِنہیں بھیک دینے والوں کی اکثریت غیرملکی افرادہواکرتے تھے،السعیدی اُن افرادمیں سے ایک تھے جنہیں ایشاکی دولت کا علم تھا،صحافیوں نے جب السعیدی سے استفسارکیا کہ کیااُنہوں نے اِس بارے میں ایشاسے ذکرکیاتھاتو اُنہوں نے کہا کہ متعددمرتبہ اُنہوںنے خاتون کو سمجھانے کی بہت کوششیں کیں کہ اتنی دولت جمع ہونے کے بعد اَب وہ بھیک مانگنے کا سلسلہ بندکردے لیکن ایشانے اِن کی ایک نہ سُنی ...اور ایشانے بھیک مانگنے کا سلسلہ جاری رکھا،بھیک مانگناایشاکی ضرورت نہیں عادت بن چکی تھی اُسے بھیک مانگ کر دلی اور دماغی سکون ملتاتھا،اَب اِسے کوئی سروکار نہ تھاکہ کون اِس کو بھیک دیتاہے اور کون نہیں..اِس کا کام تو بس روزانہ ہر فرد کے سامنے ہاتھ پھیلاکر بھیک مانگنااور اپنے اِس عمل سے اپنی تسکین کرنارہ گیاتھاہاں البتہ ...!اِس کی یہ سوچ بن گئی تھی کہ بس وہ بھیک مانگ کراپنے کسی مشکل اوقات کے لئے رقم جمع کرناجاری رکھے گی ،اِس کے اِس مشن میں خواہ اِس کی موت ہی کیوں نہ آجائے،مگراَب وہ بھیک مانگناکبھی بھی نہیں چھوڑے گی اور یوں ایشااپنی اِسی عادت جو بعد میں اِس کا مِشن بن چکی تھی اِسی حالت میں مرگئی ، اَب ایسے میں ہمیں یہ سوچناہوگاکہ بھیک مانگنے کی عادت ایشاکی ہویاپاکستان جیسے دنیاکے ایٹمی مُلک کی دونوں کے لئے ہی بھیک مانگناباعث شرم ہے اِس عادت میں پڑنے والوں کو توبہ کرنی چاہئے اِس سے وقارمجروح ہوتاہے۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 891176 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.