آؤ بچو سیر کراؤں تم کو پاکستان کی

بچوں تم سب آ تو گئے ہو لیکن کاش تم نہ آتے۔ دیکھو سلمان امریکہ سے آیا ، ہارون کینڈا اور ثانیہ فرانس سے آئی ہے۔ یہ سب بچے پاکستان یعنی اپنے آباو اجداد کا ملک دیکھنے آئے ہیں۔ اور میں یہاں کی مجبوری کی باسی ان سب کو اب یہاں کی سیر کروارہی ہوں۔

چلو پہلے اپنے ہی شہر پشاور چلتے ہیں۔ پشاور پاکستان کے دو بڑے تاریخی شہروں میں سے ایک ہے۔ اس لئے اس کو دیکھ کر اگر بیس سالہ جوان کے چہرے پر بھی “ پرانا پن” یا تھکاوٹ کے آثار نظر آئے تو اسکو اس آثار قدیمہ کا عکس سمجھ لینا۔ آگے دیکھئے۔ کچھ لاشیں بکھری پڑی ہے لیکن لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ نہیں یہ اپنے آپ کو بچانے نہیں بھاگ رہے۔ انکے گھر بچے کھانے کا انتظار کرہے ہیں توکوئی کام کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ ان سب کی اس بھاگ دوڑ میں دن میں ایک آدھ دھماکہ ہوجاتا ہے۔ لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دھماکے کرنے والے اپنے ہی لوگ ہیں۔ ہم ان سے بات کررے ہیں۔ تب تک تم کو اس آدمی کی کہانی سناتی ہوں جو سڑک کے کنارے پڑا بھیک مانگ رہا ہے۔ اسکی شکل کو غور سے دیکھو۔ کیا اسکی شکل پاکستان سے نہیں ملتی۔ ہر وقت بس مانگتا ہی رہتا ہے۔

اس شہر کی سب سے خاص بات مہمان نوازی ہے۔ اس نے ہر مہمان کو سر انکھوں پر بٹھایا۔ کچھ مہمانوں نے تو ایبٹ آباد کی بہتر سیکورٹی انتظامات کیوجہ سے وہاں کچھ سال آرام سے گزارے۔ہم نے انکا بہت خیال رکھا۔

اس شہر کو ماشاللہ سب نے لوٹا ہے۔ اسکے اپنوں غیروں سب نے اچھی طرح سے لوٹا ہے۔

چلو اب چلتے ہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی۔ یہاں ہر مزار قائد ہے۔ وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ ورنہ بہت سارے سوال ہیں اور مزار بات نہیں کرتے۔ کراچی کو کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ اور اب موت کا شہر کہلاتا ہے۔ سنا ہے یہاں پر مارنے سے پہلے اپکا شناختی کارڈ ضرور دیکھا جاتا ہے۔ اگر اپکو اپکے اللہ نے کسی خاص قومیت کا پیدا کیا ہے تو پھر اپکو اسی سمے اللہ کے پاس لوٹنا ہوگا۔

کراچی کی کہانی مختصر ہے۔ یہاں کے قاتلوں سے بات چیت نہیں ہوتی۔ انکو بڑے بڑے عہدے دیے جاتے ہیں۔

آجاؤ اب کوئٹہ کی باری ہے۔ اس شہر کی کہانی بھی پشاور اور کراچی سے مختلف نہیں۔ کوئٹہ جس صوبہ میں واقعہ ہے۔ اس صوبے کیساتھ ایک لفظ وابستہ ہوگیا ہے اور وہ لفظ ہے “ مسخ شدہ” ۔۔ یہاں مسخ شدہ لاشیں ملنے کیوجہ سے کچھ لوگوں کو تو بالکل کوئی مسلہ ہی نہیں۔ جیسے لاشیں نہیں کوئی خزانہ مل رہا ہو۔ کویٹہ میں بھی بم دھماکے ہونا روز کا معمول ہے۔ لیکن بچو، میں نے کہا تھا ناں۔ ہم دھماکے کرنے والوں سے بات چیت کررہے ہیں، وہ پاکستان کے دشمن تھوڑی ہے ؟ اپنے ہی بھائی ہیں۔ اب پچاس ہزار قتل کرنا کوئی بڑی بات تو نہیں۔ بس کچھ امن دشمن ڈالر خوروں نے ان معصوموں کیخلاف اودھم مچائی ہے۔

بچوں پریشان مت ہو۔ اب اصلی پاکستان دیکھنے کا وقت آچکا ہے۔ آنکھیں کھولو۔۔

سامنے دیکھو، وہ بڑے بڑے شاپنگ مال۔۔ اچھے سکول ، اور تو اور غریب بچوں کے لئے دانش سکول سسٹم۔ میٹرو کا بہتریں نظام او کشادہ سڑ کیں۔۔ بچوں یہی تو ہمارا اصلی پاکستان ہے، ہمارا پیارا شہر لاہور۔ دیکھوناں ؛ ویسے ہی لوگ کہتے ہیں پاکستانی یہ اور وہ ، سب دنیا والوں کو اصلی پاکستان دیکھنا چاہیے۔ شکر اللہ کا
نذرانہ یوسفزئ
About the Author: نذرانہ یوسفزئ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.