نام ہی کافی ہے

اسلامی جمہوریہ مملکت خداداد پاکستان ۔شاید دنیا میں کسی بھی مسلم ملک کا اتنا خوبصورت،دلچسپ اور روحانی نام موجود ہو جو ہمارے ملک عزیز کا نام مبارک ہے۔یعنی اسلام بھی ہمارے پاس،جمہوریت میں بھی ہم مشہور،مملکت بھی شاندار اور یہ ملک بھی خدا کے نام پر بنایا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں ہم اسلام کے حوالے سے بھی بے مثل،جمہوریت پر عمل کرنے والے بھی ہم اور خدا کا پاکستان پر خدا کے حکم کے مطابق حکومت اور انصااف فراہم کرنے والے بھی ہم ہی ہوئے۔اتنے سارے اوصاف شاید ہی کسی مملکت میں پائے جاتے ہوں۔ہمار ا قائد سسکتا ہوا اس دار فانی سے چل بسا،لیاقت علی خان کو بھی بہت جلد قائد کے پاس پہنچایا گیا۔ہم تو بڑے کمال کے لوگ ہیں۔ہماے کمالات تو ان گنت ہیں، جبکہ دنیا ورطہ حیرت میں ہے کہ اس کرہ ارض میں ایسے باکمال لوگ بھی موجود ہیں۔جبکہ ہمارے حکمران ہمیشہ بالا دست طبقے کے چشم و چراغ ہی ہوا کرتے ہیں،چونکہ وہ زیر دست بے دست طبقے کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں،اس لئے انہیں بار بار مواقع فراہم ہوتے ہیں کہ تم ہی تو ہو کہ آجاؤ اور تخت نشینی تمہاری وراثت ہے،تم ہی عادل ہو تم ہی ایماندار ہو اور تم ہی ملک و قوم سے بے پناہ ہمدردی رکھ سکتے ہو،سوائے تمہارے یہاں کوئی اہل نہیں۔ایوان بالا تک پہنچنے کے لئے جو شرائط ہیں ان پر تم ہی پورا اترتے ہو۔ یعنی کہ بے پناہ دولت مند ہونا،مزاج شریف سے شرافت کا ٹپکنا، قومی دولت کو اپنے دونوں ہاتھوں سے سنبھال کر رکھنا ،غریب عوام سے محبت اتنی کہ نوالہ بھی آپ کے حلق سے نہیں اترتا ہے۔شان سے جینا اور ملک کا سر آپ ہی کے فیصلوں کی وجہ سے فخر سے بلند رہتا ہے۔وہ اس لئے کہ دیگر ممالک کے ساتھ آپ کے تعلقات دلیرانہ اور برابری کی بنیاد پر قائم ہیں۔آپ ہی حاکم ہیں اس لئے ملک کے تمام ادارے عدل و انصاف اور خلوص کے ساتھ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔جب بھی ہم ذرائع ابلاغ کی جانب نظر دوڑاتے ہیں تو آپ ہی کے چہرہ مبارک کا دیدار ہوتا ہے ۔مختلف ممالک کے دورے،پریس کانفرنس، سیمنار، صحافیوں کو اپنی کارکردگی کے حوالے سے سوال و جواب کا سامنا بھی آپ ہی کوکرنا پڑتا ہے۔ہر چیز عوام کی دسترس میں ہے اور رمضان شریف میں اسلامی فلاحی ریاست ہونے کے ناطے غریبوں، مسکینوں کے لئے سستا بازار کا اہتمام کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے کندھے پر عائد ہے۔ہمارے شاہراہیں اور شہر شہر چاند کا نقشہ پیش کر رہی ہیں،جب کہ ہمارے مہرباں حکمرانوں نے قبل از وقت ہی ہر طرح کے آفات کا تدارک کر رکھا ہے۔ اب آندھی آئے، طوفان آئے، بارش ہو یا کہ سیلاب۔ہمیں کوئی فکر لاحق نہیں۔چونکہ ہم ایک اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کے شہری ہیں۔کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ کیا دنیا میں کوئی اور قوم بھی اتنی خوش قسمت ہوگی جتنے ہم ہیں۔ہمارا شمار ایک خوشحال اور پر امن ریاستوں میں ہوتا ہے۔ٹیکنالوجی کے میدان میں دیکھو سب سے پہلے (اسلامی بم) ہم نے تیار کر رکھا ہے۔میزائل ہم بناتے ہیں،جبکہ ہوائی سفر کے لئے ہماری حکومت نےPIAجیسا آرام دہ ادارہ ہمیں بنا کر دیا تاکہ ہم سہولتوں اور سکون کے ساتھ سفر کر سکیں۔جبکہ زمینی سفر کے لئے ریلوے جیسا بہترین نظام دیا جو کسی عام ملک کانہیں بلکہ برطانیہ کے بنائے ہوئے مظبوط انجن تا حال ہماری خدمت میں رات دن چل رہے ہیں۔اگر کوئی شہری تعلیم حاصل کرنے یا کسی اور غرض سے بیرون ملک جانا چاہئے تو امیگریشن اور پاسپورٹ بنانے والا ادارہ ہمہ وقت چوکس ہے جو عوام کو بغیر کسی تکلیف کے حکومت کے تعین کردہ فیس لیکر عوام کو بہ آسانی پاسپورٹ فراہم کرتا ہے۔جب ہم کسی ملک پہنچتے ہیں اور سبز ہلالی پرچم والے دستاویزات دکھاتے ہیں تو وہ انتہائی احترام سے بٹھا کر ہمارا کام آسان بناتے ہیں۔دوسروں کی طرح کسی ملک سے ہمیں بے دخل نہیں کیا جاتا ہے۔آخر کردار بھی کوئی شئے ہے جس کی وجہ سے انسان بلند مقام حاصل کر لیتاہے۔ ہم نے اپنے کردار کو بنانے میں بڑی محنت کی ہے ہماری جدوجہد تو66سالوں پر محیط ہے جبھی تو ہم دنیا میں بہ آسانی پہچانے جاتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں نے عوام کی جان مال کی تحفظ کیلئے پولیس کا ایک مظبوط نظام بنا رکھا ہے جو ہمیں ہر خطرے سے نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ24گھنٹے ہمارے تحفظ میں چوکس ہیں۔ان کی دن رات انتھک محنت اور ایمانداری کی وجہ سے بازاروں میں لوگ اپنی دکانوں کوکھلا چھوڑ جاتے ہیں یہاں تک سونہار کی دکانیں بھی کھلی رہتی ہیں کوئی چوری چکاری کا سلسلہ نہیں رہتا ہے۔اسلامی ریاسست ہونے کے ناطے ہماری خواتین دن ہو یار ات بے خوف خطر اپنا کام کرتی ہیں کوئی انہیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ہمارے بینکوں میں کروڑوں روپے موجود ہوتے ہیں مگر مجال ہے کسی کی نیت بھی ٹیڑی ہو۔اگر کوئی غلطی سے بھی کسی کے ساتھ زیادتی کرے تو ہماری پولیس اسے فلفور گرفتار کر لیتی ہیں اور عدالتیں بلا تاخیر غریبوں کو ان کا حق دلاتی ہیں۔ چونکہ ہمارے سرکاری اہلکار جن کا تعلق جس ادارے سے بھی کیوں نہ ہو نچلے درجے سے لے کر ایوان بالا تک قانون کی حکمرانی ہے اس لئے کرپشن ہوتا ہی نہیں اگر کوئی کرنا بھی چاہئے تو وہ سو بار ضرور سوچے گا۔جبکہ ہمارا نظام تعلیم امیر غریب کے لئے یکساں ہے دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ہاں تعلیم خریدی نہیں جاتی ہے، چونکہ حکوومت بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم پر صرف کر رہی ہے اس لئے امیر ہو یا غریب تعلیم سب کی دسترس میں ہے ۔اس لئے ہمارے ہاں جب نوجوان تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو ملازمتوں کے حصول میں دھکے نہیں کھانے پڑھتے ہیں۔میرٹ کے حوالے سے حصول ملازمت میں کوئی دقت پیش نہیں آتی نہ دوسرے ملکوں کی طرح یہاں رشوت کا بازار گرم رہتا ہے۔ہماری حکومتیں اور ہمارے حکمرانوں کو ہمیشہ عوام کی صحت کا خیال رہتا ہے اس لئے جدید طرز کے ہسپتال شہر شہر ،گاؤں، محلوں میں بھی بنا رکھا ہے اور مستحق مریضوں کا تو بالکل مفت علاج ہوتا ہے۔ہمارے ڈاکٹر واقعی مسیحا ہیں وہ ہر مریض کے ساتھ انتہائی شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں ان کی اخلاق سے متاثر ہوکر کئی مریض تو بغیر علاج کے صحت یاب ہوکر گھر چلے جاتے ہیں۔ دوسرے ریاستوں کی طرح ہمارے ڈاکٹر ہڑتالیں نہیں کرتے ہیں کہ مریض سسک سسک کر مر بھی جائے انہیں کوئی فکر نہی رہتی ہے جب ہمارے ہاں ایسی کوئی بیماری نہیں سب خدا کا خوف اور قانون کی بالادستی پر عمل اور یقین رکھتے ہیں۔اسی طرح ہمارے وکلاء انتہائی ایمانداری سے عوام الناس کے مقدمے لڑتے ہیں اور نہ صرف اپنے پیشے کے ساتھ مخلص رہتے ہیں بلکہ سائل کے ساتھ بھی ہمدردی کی انتہاء رکھتے ہیں۔دوسرے ممالک کی طرح یہاں پر معمولی مقدمات میں دس بیس سال نہیں لگتے ہیں جتنا ہوسکے مقدمات کو جلد نمٹاتے ہیں۔اور ہمارے جیل میں وہ تعلیم اور وہ نظام موجود ہے کہ کوئی برے سے برا انسان بھی کسی وجہ سے جیل چلا جائے تو وہ فرشتہ صفت بن کر معاشرے کا ایک کار آمد انسان بنکر باہر آتا ہے۔جب ہم یہ سنتے ہیں تو ہمار ا کلیجہ پھٹ جاتا ہے کہ دنیا میں ایسے بھی ملک ہیں جہاں غریب لوگ غربت کے مارے اپنے بچوں کو لے کر بچے برائے فروخت کا بورڈ لگاتے ہیں، تو کہیں غربت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو ذبح کرتے ہیں۔کہیں چوہدری اور زمیندار اپنے ہاریوں کو نجی جیلوں میں سالہا سال قید رکھتے ہیں انہیں زنجیروں میں جانوروں کی طرح باندھ کر رکھتے ہیں اور حکومت کو خبر تک نہیں۔کہیں قبرستانوں سے مردے نکال کر انسان اپنے مردہ انسانوں کا گوش پکا کر کھاتے ہیں تو کہیں گدھے اور کتوں کا گوشت سر عام بکتا ہے تو کہیں وڈیروں کی اولادیں غیریب لا چار خواتین کو کھلے عام برہنہ کر کے نچواتے ہیں ان کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کھیلتے ہیں۔ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا ہ کہ دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے۔جبکہ بہت سے ممالک میں تو ایسی عوام دشمن حکومتیں برا جمان رہتی ہیں اور عوامی دولت کو ہضم کرنے کیلئے یہ ڈنڈھورا پیٹتی ہیں کہ گزشتہ حکومت نے خزانہ خالی کر رکھا ہے ہم کیا کریں کہاں سے عوام کو ریلیف دیں۔ ارے بابا ایک دفعہ یا دو دفعہ ایسا ہوتا ہوگا جب کہ بعض ملکوں میں تو یہ سلسلہ جاری ہے یہ ایک بہت بڑا بزنس بن چکا ہے عوام کو نچوڑنے کا۔جب ہم یہ سنتے ہیں کہ بعض ملکوں میں مسلمان خود اپنے مسلمان بھائیوں کو کفر اور قتل کو جائز قرار دینے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ہم اپنے کانوں کو پکڑتے ہیں جب یہ بھی سنتے ہیں کہ مسلمان خود مسلمانوں کے عبادت گاہوں کو، اولیائے کرام کے مزارات کو اور آپؐ کے میلاد اور آپ کے نواسے کے جلوسوں پر بھی بم دھماکے کرکے جیتے جاگتے انسانوں کے چھیتڑے اڑاتے ہیں۔ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ بازاروں، پارکوں، پبلک مقامات پر اور رمضان شریف میں بھی دھماکے اور بے گناہ انسانوں کو مارا جاتا ہے اور وہا ں کی حکومت خاموش رہتی ہے۔اور بعض ملک ایسے بھی ہیں جہاں کے دہشت گردے ملک کے حساس اداروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور جیلوں پر حملہ کرکے اپنے ساتھیوں کو چھڑا کرلے جاتے ہیں یہ کوئی صحرا یا پہاڑ کی چوٹی میں نہیں بلکہ شہر کے اندر اپنے عزائم میں کامیاب ہوجاتے ہیں شاید وہاں کوئی حکومت نہیں ہوگی یا تو وہاں کی انتظامیہ بھی ان کے ساتھ ملی ہوگی۔ہمیں یقین بالکل ہی نہیں آتا ہے جب ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ بعض ایسے ملک بھی ہیں جہاں ظاہر میں تو حکومت حکمرانوں کی نظر آتی ہے مگر وہاں راج دہشت گردوں کا ہی ہوتا ہے وہ جہاں چاہیں کارروائی کر ڈالتے ہیں اور وہاں کی عوام اپنے جان و مال کے خوف سے ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہو اور حکومت خاموش ہو۔ خدا نہ کرے کہ کوئی انسان ایسی جگہ کو اپنا مسکن بنا لے۔ جانے دو کیوں دوسروں کے معاملات میں خود کو پریشان کر ڈالتے ہو یار۔ ہم تو اسلامی جمہوری مملکت خداداد پاکستان میں رہتے ہیں۔ یہ نام ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ جیتے ہیں ہم شان سے ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ہم ڈرون کو گرانے والے ہم نے تو وعدہ کر رکھا ہے اپنے عوام سے کہ ہم کشکول توڑ دیں گے،ہم نے و سر عام کہا ہے کہ دوسروں کی طرح ہم امریکہ سے ہاتھ نہیں ملایں گے نہ ہم کسی سے قرضہ لیں گے۔ہم تو خوش ہیں کہ جنت نظیر ملک میں جنت جیسا ماحول ہے اور سب کچھ اچھا ہے کیونکہ نام ہی ہمارے لئے کافی ہے۔
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 23553 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More