مصر میں فرعونیت کا شیطانی رقص

عرب بہار تیونس میں ایک طالب علم بوعزیزی کی خودسوزی سے شروع ہوئی تھی، جس سے اگلے مرحلے ہی میں مصر ، لیبیا، یمن میں بھی ہواکی تازہ اور معطر جھو نکیں آئیں، ان چار ملکوں میں مقتدر قوتوں نے بے دردی سے عوام کا قلع قمع کیا، مگر آخر کار ڈھیر ہوگئے، جوں ہی یہ ہوائیں جزیرۃ العرب کے شامی علاقے میں چل پڑ یں ، اور پورے شرق اوسط کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی، خلیج ، ایران اورشام کیا ،روس اور چین کے،اہل اقتدار میں اس کے خوف سے تھر تھراہٹ پھیلنے لگی ، ادھر امریکہ ،اسرائیل اور یورپی یونین کے قدیم استعماری ممالک کو اپنے مفادات کے لالے پڑگئے، شام میں ان خونخوار قوتوں نے تقسیم کا ر کے طور پر کہیں انقلابیوں کے حق میں کھو کھلے نعرے لگائے، ان کی تائید کی ، انہیں اٹھانے میں کردار ادا کیا، مسلح اور باضابطہ افواج سے ان کو ٹکرانے کے لئے کچھ سازوسامان اور اسلحہ بھی دیا، اور کہیں انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کی مخالفت بھی ، کچھ نے برملا حکومت کی درندگی کا نہ صرف قولاً بلکہ عملاً ساتھ دیا، یوں بہارو خزاں کایہاں شدید مقابلہ ہے ، قرون وسطی سے لیکر آج تک شام میں اتنے ظلم ، بربریت ، اور سفاکیت کی مثال نہیں ملتی ، افسوس یہ سلسلۂ کشت وخون تادم تحریر اپنی جوبن پرہے۔

عرب بہار کے نتیجے میں حسن اتفاق سے مصر ، لیبیااور تیونس میں اسلام پسند لوگ برسر اقتدار آگئے ، جنہوں نے اپنی تہذیب وتمدن اور خطے میں اپنے اثر ورسوخ کو ترکی اسلام پسندوں کی طرح عالم اسلام اور مسلمانوں کے حق میں آگے بڑھایا، بین الاقوامی مسائل ہوں یاشرق اوسط کا دیر ینہ ناسور اسرائیل ہو ،ان کی آواز سابق حکمرانوں کے بجائے اہل اسلام کی حقیقی آواز بننے لگی ۔چونکہ شرق اوسط ہمیشہ سے استکباری قوتوں کا نصب العین رہاہے ، وجہ اس کے بحر وبر کی مرکزی اور محوری حیثیت ہے، بالخصوص مصر کو یہ مفادپرست قوتیں ہرگز فراموش نہیں کرسکتیں ، کہ ان کی عالمی تجارت کی شہ رگ سوئز چینل اور بحر احمر یہیں واقع ہیں،اس لئے وہ قوتیں یک دم متفکر ہوگئیں ۔

مصر میں عرب بہار اپنے جلو میں کٹر استعمار مخالف اور پین اسلا زم کے داعیان امام حسن البنّا ،سید جمال الدین افغانی ،محمد عبدہ رشید رضا اور سید قطب شھید کے پیروکار اخوان المسلمین کو لے کرآئی ،حسنی مبارک کے تختہ الٹ جانے کے بعد عدلیہ اور فوج نے لاکھ کوششیں کیں ، کہ عوام کو مطمئن کرنے کے لئے انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایاجائے اور اندر سے تانا بانا ایسا بُناجائے کہ تبدیلی صرف چہروں اور مہروں کی ہو اور باہم کہتے ہوں گے ’’ہاں ‘‘ اخوان کو کسی طرح عوامی ووٹ اور تایید نہ ملے ‘‘ صدارتی انتخابات میں عدلیہ نے اخوان کے امیدوار خیرت شاطر کو نااھل قرار دیدیا، یہ ان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا، مگر وہ سنبھل گئے ،انہوں نے ڈاکٹر محمد مرسی کا نام پیش کردیا، سانپ کی طرح حکومتی خزانوں اور آسائشوں پر براجمان اسٹبلشمنٹ نے اندر ہی اندر احمد شفیق کو فیوریٹ قرار دیدیاتھا،دھاندلیوں کے تمام تر انتظامات بھی کئے گئے تھے، عرب بہارسے خائف خلیج کے کچھ ممالک اور امریکہ واسرئیل بھی اس کے حامی تھی، فوج ، پولیس دیگر سیکورٹی فورسز اور الیکشن کمیشن جیسے ادارے بھی احمد شفیق کا ساتھ دے رہے تھے، مگر اخوان اور ان کے اتحادیوں کے نمائندے ڈاکٹر مرسی قریباً دس صدارتی امیدواروں میں سرِفہرست آگئے ، اب انہوں نے ایک اور پلٹا کھایا، کہ نہیں جناب یہ ووٹ اس طرح تقسیم ہواہے کہ اس سے نتیجہ اخذ کر نا دشوار ہے ، لہذ ااحمد شفیق اور ڈاکٹر مرسی کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوگا، پھر دیکھی جائی گی ،کون جیتتاہے ، کون ہار تاہے، پہلے سے زیادہ سرجوڑ کران سانپوں نے میٹینگیں کیں ، خوب خوب سازشوں کے جال بُنے، لیکن وہی ڈاکٹر مرسی ۵۱ فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ،احمد شفیق ہارگئے، انہوں نے بزبانِ حال اور قال کہا کہ اعلان تو ہم ہی نے کرناہے تو ہم اعلان ہی نہیں کرینگے ،چناں چہ ووٹنگ میں تشکیک کے لئے اجلاسوں پر اجلاس ہوئے ، ادھر مرسی کے حامیوں نے تحریر سکوائر جو انقلاب کی علامت تھا، میں جمع ہونا شروع ہوئے ، حالات ایک مرتبہ ایک نئے انقلاب کے در پر دستک دینے لگے ،تو ان خادمچوں اور ان کے شیطان صفت عالمی استعمار کے استاذوں کے درمیان طے پایا کہ انہیں حکومت دیدی جائے ، لیکن ان کی ایک نہ چلنی دی جائے ، تاکہ یہ بطور حکمراں نا کام ونامراد ہوں ،ایک تو ان اسلام پسندوں سے جان چھوٹ جائیگی ، دوسرا یہ کہ بہار یہیں پر مرجھا جائے گی، اس کی برآمدگی خلیج اور دنیا کے دیگر ممالک میں ناممکن ہوجائی گی ۔

عجیب اتفاق دیکھیں کہ مرسی نے کچھ کچی گولیاں نہیں کھائی تھیں ، انہوں نے شروع میں طریقے طریقے سے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا شروع کیا،لیکن جب انہیں اندازہ ہوا کہ سیکورٹی فورسز اور اسٹبلشمنٹ کے سرغنے ان کی نہیں مانتے ، تو انہوں نے یکے بعد دیگرے ایسے بدقماش اور سازشی عناصر کو برطرف کردیا، صوبوں میں گورنروں کو تبدیل کردیا، دنیائے اسلام سے مضبوط روابط بحال کرنا شروع کئے ،غیر اسلامی ممالک کے دورے بھی کئے، چین ،انڈیا اور پاکستان بھی آئے ، توہین رسالت فلم پر تنقید میں اقوام متحدہ کے فورم پر ایک لازوال اور تاریخی خطاب کیا،اسرائیل کے غزہ پر آہن وآتش برسانے پر ایک لمحہ دیر کئے بغیر اپنا وزیر اعظم ھشام قندیل غزہ روانہ کردیا، اسی کے تسلسل میں امیر قطر ،عرب وزرائے خارجہ ، ترکی اور ملائیشین وزرائے خارجہ نے بھی غزہ کے دورے کئے،دسیوں سالوں بعد فلسطین سے عالم اسلام کے تعلقات ایسے استوارہوئے کہ اسرئیل میں کھلبلی مچ گئی ، انہوں نے صحرائے سینا اور مقدس کوہ ِ طور کے پاس اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مصری افواج پر حملے کئے ، مصر کے بعض شہروں میں متشرع لباس میں ان کے گما شتوں نے اسلام پسندوں کو بدنام کرنے کے لئے عام شہریوں پر حملے کئے ، کچھ کو قتل بھی کیا، دریائے نیل کا پانی مصرسوڈان کے راستے ایتھو پیا(حبشہ )سے آتاہے ،حبشہ کی حکومت سے وہاں ڈیم بنا کر پانی رکوانے کی نامسعود کوششیں کی گئیں ۔

ان تمام حالات میں جب دیکھاگیا کہ ڈاکٹر مرسی کوہِ ہمالیہ کی طرح سربلند کھڑاہے ،وہ ایک نیا جال بُن کر آگئے ، بلیک بلاک اور ’’تمرد ‘‘ جیسی تنظمیں تیار کی گئیں ، انہیں میدان میں اتارا گیا، استعمار کے دیرینہ ایجنٹ محمد البرادعی سے ان کی سرپرستی کرائی گئی ، کہایہ جانے لگا کہ ملک میں ’’اخوانائزیشن ‘‘ ہورہی ہے، اس بہانے کو اتنی ہوا دی گئی کہ سول نافرمانی اور ملین مارچ کرائے گئے، فوج نے اپنی سازشی حکمت عملی کے تحت ڈاکٹر مرسی کو حالات پر قابو پانے کے لئے ۴۸ گھنٹے کا الٹی میٹم دیدیا، ادھر فوج نے سیکورٹی فورسز کو مظاہرین کا ساتھ دینے کا اشارہ کردیا، پولیس نے سرکاری املاک اور اخوان کے مراکز پر حملوں کے باوجود دپکڑ دھکڑ سے گریز کیااور اتنے میں ۴۸ گھنٹے پورے ہوگئے ،دستوری اور منتخب صدر کو پس ِزنداں کردیاگیا، ڈاکٹر مرسی کے حامیوں نے ۴۸ گھنٹوں کے مقابلے میں بڑی ثابت قدمی سے ۴۸ دن کے دھرنے دیئے ، ذکر اذکار اور وعظ ونصیحت کی محافل سجائیں ، کہیں کسی پودے کا ایک پتہ بھی نہیں گر نے دیا، مگر اس کے باوجود ان کی شنوائی کے بجائے اس اثنا میں ان پر تین مرتبہ سٹریٹ فائرنگ کرکے 78.51.اور 3000 مظاہرین کو سڑکوں پر شھید کردیاگیا، ان کے خیمے ،فیلڈ ہسپتال اور مساجد جلادی گئیں ،جن میں 300 کے قریب شیر خوار بچے اور خواتین بھی جل کرراکھ ہوگئیں ،جنرل عبدالفتاح سیسی اور کٹھ پتلی صدر عدلی منصورنے عرسِ فرعونیت مصر کو خون میں نہلا کرمنایا ،اب کیا ہوگا اور اخوان نیز استعاری قوتیں کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں ،یہ اگلے کالم میں ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 819407 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More