سائنس دانوں کے پاس اب حتمی ثبوت آ گیا ہے کہ مریخ کے بہت
سے ارضی مناظر بہتے ہوئے پانی نے تشکیل دیے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مریخ کے مدار سے نظر آنے والی وادیوں، گزرگاہوں
اور ڈیلٹا کے بارے میں بہت عرصے سے خیال کیا جا رہا تھا کہ انھیں پانی نے
بنایا ہے، لیکن اب مریخ گاڑی کیوروسٹی نے اس بات کا ’زمینی ثبوت‘ فراہم کر
دیا ہے۔
|
|
سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انھیں سرخ سیارے کے ڈیڑھ سو کلومیٹر چوڑے گیل
گڑھے کے فرش پر گول کنکر ملے ہیں جن کی گول شباہت زمین کے دریاؤں میں ملنے
والی بجری جیسی ہے۔
چٹانوں کے وہ ٹکڑے جو ندی کی تہہ میں اچھلتے رہتے ہیں ان کے کھردرے کنارے
رفتہ رفتہ ہموار ہو جاتے ہیں، اور جب یہ کنکر حرکت کرنا بند کر دیتے ہیں تو
پھر ایک مخصوص ترتیب سے ایک دوسرے کے اوپر چڑھ جاتے ہیں۔
کیوروسٹی نے گیل گڑھے میں کئی چٹانوں میں اس قسم کے مظاہر کی تصاویر کھینچی
ہیں۔
یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ پانی نے نہ صرف بڑے استوائی پیالے کی تشکیل میں
کردار ادا کیا ہے بلکہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ مریخ پر دوسرے ارضی مظاہر کی
تشکیل میں بھی پانی نے کردار ادا کیا ہو گا۔
امریکہ کے پلینیٹری سائنس انسٹی ٹیوٹ کی ڈاکٹر ریبیکا ولیمز نے بی بی سی کو
بتایا: ’ہم عشروں سے اندازے لگا رہے تھے کہ مریخ کی سطح کو پانی نے ڈھالا
ہے، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ ہم ندی کے پانی کے بہاؤ کے آثار دیکھ رہے ہیں۔‘
ناسا نے سب سے پہلے گذشتہ برس ستمبر میں کنکروں کی دریافت کی خبر دی تھی۔
اس وقت کیوروسٹی کو گیل میں اترے ہوئے مشکل سے سات ہفتے ہوئے تھے۔
سائنس دان اس وقت سے اب تک مریخ گاڑی کی بھیجی ہوئی تصاویر کا تفصیلی
مطالعہ کر رہے تھے۔ اب انھوں نے سائنس میگزین میں ایک رپورٹ لکھی ہے۔ اس
رپورٹ میں ابتدائی توجیہ کی تائید کی گئی ہے۔
|
|
رپورٹ میں باہر کو نکلی ہوئی چٹانوں کی ساخت بیان کی گئی ہے، اور ان کی
تشکیل کے ممکنہ حالات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
کنکروں کا حجم دو سے 40 ملی میٹر تک ہے، اور یہ اتنے بڑے ہیں کہ انھیں ہوا
کا اڑا کر لانا خارج از امکان ہے۔
بہت سی جگہوں پر یہ کنکر ایک دوسرے پر ڈومینوز کی طرح گرے ہوئے ہیں۔ یہ اس
بات کا اشارہ ہے کہ یہاں کبھی دریا رہا ہو گا۔
مریخ پر ارضی مظاہر کی عمر کا درست تخمینہ لگانا ممکن نہیں ہے لیکن مریخ
گاڑی نے جو چٹانیں دیکھی ہیں وہ یقیناً تین ارب سال سے پرانی ہیں۔
کیوروسٹی کی تصاویر کی مدد سے پانی کی گہرائی اور رفتار کا بھی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے جو کبھی مریخ کی سطح پر بہا کرتا تھا۔
برطانیہ کے امپیریل کالج لندن کے پروفیسر سنجیو گپتا وضاحت کرتے ہیں:
’ہمارا اندازہ ہے کہ پانی کی رفتار انسان کے چلنے کی رفتار کے برابر رہی ہو
گی۔ ہم پورے یقین سے یہ بات نہیں کہہ سکتے، لیکن اس سے ہمیں اندازہ ضرور مل
جاتا ہے۔‘ |