پاکستان! ہماری پہچان

یومِ قراردادِپاکستان کی اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔اس دن پاکستان کے تصور نے ایک ایسی حقیقت کا روپ دھارا کہ ایک عالم حیران رہ گیا ۔دوستو! پاکستان کاقیام اسی نشا نِ منزل کا ثمر ہے جہاں سے ہم نے بابا ئے قوم جناب قائداعظم کی قیادت میں سفر شروع کیا تھا ۔ایک مفکر نے چٹھی دہائی میں ایک عجیب بات کہی تھی (آپ عقائق کی طرف سے توآنکھیں بند کر سکتے ہیں لیکن یادیں نہیں مٹا سکتے ۔)پاکستان ایک ایسا اچھا اور خوب صورت ملک ہے جسے اللہ نے دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے ۔لیکن افسوس بعد میں جو حالات پیدا ہوئے ان سے پاکستان کہ چاند ستاروں کی چمک ماند پڑ ی توپڑی ،ہم اپنی پہچان بھی کھوتے جا رہے ہیں ۔حالانکہ پاکستان ہی ہمار ی آن، شان ،پہچان اور اساس ہے۔قائد اعظم پاکستان کو دنیا ئے اسلام کی جدید ترین فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے ۔جس میں ہر پاکستانی بلاتفریق ،آزادی کی فضا میں سانس لے سکے اور ملک کی ترقی میں خود کو برابر کا شریک سمجھے ،نہ کسی کو قلت تعداد کا احساس ہو اور نہ کثرت تعداد پر گھمنڈ۔یہ ارشاداتِ قائد اعظم قرارداد مقاصدسے انحراف کا ہی نتیجہ ہے کہ جمہوریت کہ لئے بنائے گئے پاکستان میں عموماً مارشلاءکا ہی راج رہتا ہے ۔

قائد اعظم مسلمانو ں کہ لئے ایسی ریاست کہ خواں تھے جہاں پر لوگ ہر شعبہ ہائے زندگی میں لوگ ہیرے کی مانند چمکتے نظر آئیں ۔اور جو اپنے نظم و ضبط ،اتحاد و قوت سے دنیا میں تیسرا بلاک قائد قائم کر سکیں ۔آزاد ہ کوئی جامد چیز تو ہے نہیں کہ چھوئی،چکھی یا سونگھی جا سکے۔یہ تو صرف ایک احساس ہے۔معاشی ،معاشرتی اور سماجی غلامی میں زندہ رہنا ایک مشکل امر ہے۔اس احساس کو تقویت بخشنے کا طریقہ معاشی انصاف ،سماجی مساوات اور مومیت کہ شعور کی پرورش ہے ۔ایک دوسرے کی باتوں میں کیڑے نکالنے ،زبانو ں ،لباس اور رہن سہن کہ جگھڑوں ،علاقائی عصبیت پھیلانے سے قوم اور ملک دونوں کو نقصان ہو گا ۔

میرے دوستو! اگرآج ہم تاریخ کہ اوراق پلٹ کر مسلمانوں کہ شاندار ماضی پر ایک نظر ڈالیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہم جو اسلام اور کلمے کی بنیا پر ملک حاصل کر کہ بیٹھے ہیں ،آزادی سے سانس لے رہے ہیں اور پھر اسی ملک کو توڑنے کی باتیں بھی کرتے ہیں ،تو میرے خیال سے ہم سے لاکھ درجے بہتر تو وہ قوم ہے جس نے مسلمانوں کہ فن و ہنر کو سنبھال کہ رکھا ہے ،اگر یہ عمارتیں، محلات ختم کر دیے جائیں تو ہمارے ملک کا حسن و جمال بھی ختم ہو جائے گا ۔اسپیں پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانو ں کہ ادوار میں جتنی بھی تعمیرات ہوئیں انہوں نے ان کو آج تک حفاظت سے رکھا ہوا ہے ۔جیسے کہ جامع مسجد قرطبہ ۔اور مسجد قرطبہ کی تو یہ بات ہے کہ وہا ں جس روز مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو ا تھا اس کہ دوسرے ہی روز مسجد کا ایک حصہ گِرا کر فوراً چرچ کا افتتاح کیا گیا کہ کہیں کوئی مسلماں آ کر یہاں نماز نہ پڑھ لے یا اذان نہ دے دے ۔تو کہا جاتا ہے کہ جب گورنر افتتاح کرنے آیا تو گورنر نے کہا ! ﴾ یسوع مسیح کی قسم یہ تم لوگوں نے کیا کیا ؟ مسلمانو ں کہ پا س جو علم و ہنر ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ہم ایسی شاندار عمارتیں ،محلات اور مساجد صدیوں تک بھی نہیں بنا سکتے جو یہ مسلمان بنا گئے ہیں تم ان کا حُسن ختم نہ کرو ان کو ایسے ہی رہنے دو۔﴿تو پھر وہاں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر یہ مسجد تین حصہ بھی قائم رہی تو ایسا نہ ہو کہ یہاں کوئی مسلمان آکر نماز پڑ ھ لے یا اذان دے دے؟تو دوستو ! اسی خدشے کی بنیاد پر گورنر نے اسی وقت ایک آرڈنینس جاری کیاکہ آج سے مسجد قرطبہ میں نہ اذان دے جائے گی اور نہ ہی نماز ادا کی جائے گی ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ علامہ اقبال نے مملکت خداداد کا خواب دیکھا ،اسی نے قرطبہ کی جامع مسجد میں اذان بھی دی اور نماز بھی ادا کر کے آیا۔

میرے دوستو ! ہم سے اچھی تو وہ قومیں ہیں جنہوں نے ہمارے ورثے کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے ۔ایک ہم ہیں کہ اپنا ملک ہوتے ہو ئے بھی اس کی ٹھیک طرح سے حفاظت نہیں کر پا رہے اور بھول رہے ہیں کہ پاکستان ہی ہماری اصل پہچان ہے ۔اس کہ ساتھ ہی دنیا کہ ترقی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔چاند پر انسان کی چہل قدمی پُرانی بات ہوئی۔اب تو مریخ کہ سفر کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔خلانوردی کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں ۔طب اور سائنس کہ انکشافات سے عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔انسان کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے ۔افسوس!صدا فسوس ! ہمارے اتنے قدرتی وسائل ہیں مگر ہم ابھی تک ترقی کی دوڑ میںکچھوے کی چال سے بھی سست رفتاری سے چل رہے ہیں ۔وہ بھی رُک رُک کر ہر ادارہ لوٹ ما ر اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔جسیے پیپل پارٹی کو دیکھ لیں روٹی کپڑا اور مکان کہ نعر ے پر منتخب ہوئے تھے اور یہ سب کچھ دینا تو دور کی بات ہے یہ سب کچھ عوام سے چھین لیا۔جو بی بی کہ دور میں پارٹی سے کوسوں دور تھے زرداری نے ان کو اعلٰی حکومتی عہدوں پر فائز کیا ۔خیر زاردی کی تفصیل پر جو جائیں تو بہت لمبی ہے اس لئے اس پر ٹائم ضائع نہیں کر تا اصل ٹاپک کی طرف آتا ہوں ۔قائد اعظم اور شہدِملت کہ بعد قوم قدر آور ، بااصول اور با کردار قائدین سے محروم ہو گئی ۔مارشل لا کی پابندیوں نے کردار سازی کا سلسلہ ہی منقطع کر دیا۔حلال و حرام جائز و نا جائز کے امتیازات بے معنی ہو گئے۔سب لولٹیرے پیسے کی دوڑ میںشامل ہیں ۔پاکستان کو پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی طرح نمائشی اور فرمائشی قیادت کی نہیں بلکہ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس کی مثال قائد اعظم نے پیش کی تھی ۔ہمارا یہ گھر بار،مال و دولت ،عزت و وقار ہے۔کون ہے جو یہ کہ سکے کہ میرا گھر سلامت رہے،وطن کی پروا نہیں ۔آزاد وطن ہی ایک عزت کا ٹھکانہ ہے۔اور میرے دوستو! عمران خان ہی وہ شخصیت ہے جو قائداعظم کے خواب کی تعبیر بن سکتا ہے اور پاکستانی عوام کو ان دو بڑی پارٹیوں کہ مک مکا سے نکال کر حقیقی پاکستان بنا سکتا ہے ۔

یقین کیجیے !ہمارا ملک ایک عظیم ملک ہے اور یہی عظیم ملک ہماری پہچان ،ہماری اساس ،ہماری محبت ،ہماری عزت اور سب کچھ ہے۔اس لئے اس ملک کی قدرتی نعمتوں اور دوسری بے شمار خوبیوں کو مدنظر رکھ کر صرف اور صرف پاکستا ن کی ترقی کے لیئے سوچیے اور اسی کے لیئے اپنا آپ وقف کریں ۔

میرے دوستو! کالم کے اختتام پر مجھے اپنے وطن کے سجیلے سیاست دانوں کے لیئے ایک غزل یاد آئی ہے وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں
اے وطن کے سجیلے سیاست دانوں
اے وطن کے سجیلے سیاست دانوں ---- سارے رقبے تمہارے لیئے ہیں
کوٹھیوں کے طلبگا ر ہو تم ---- پلاٹوں کے پرستار ہو تم
او، زلالت کی زند ہ مثالوں ---- سارے قرضے تمہارے لیئے ہیں
تم ہی سے قائم بجٹ کا خسارہ ---- لہو پی لو غریبوں کا سارا
اے مطلب کے زندہ نشانوں سارے فنڈز تمہارے لئے ہیں
اے پاک وطن کے غداروں ---- اور ،امریکہ کے وفاداروں
یہ جتنی بھی ہیں اس جہاں میں ----- ساری لعنتیں تمہارے لئے ہیں

اس کے بعد عرفان عابدکی ایک غزل بھی پیش کرتا ہوں
جاہل سے قیادت کی اُمید نہیں کرتے
ہم آج کے میروں کی تقلید نہیں کرتے
حق بات کہے وہ تو لبیک کہو لیکن
ہر نعرہ ِ قائد کی تائید نہیں کرتے
تنقیص و تعرض کے پیمانے بناﺅ کچھ
بے وجہ کسی شے کی تردید نہیں کرتے
دنیا کو تو ٹوکا ہے سُو بار خطاﺅ ں پر
ہم خود کو لیکن تاکید نہیں کرتے!
مصروف زمانہ ہے ، سو کہتے ہیں مطلب کی
ہم بات میں تکلیفِ تمہید نہیں کرتے
بھولے سے کہیں ہم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یارو ں پہ ہم اس ڈر سے تنقید نہیں کرتے
ہر دور کے رنگوں میں ڈھالا ہے طبیعت کو
یہ کس نے کہا ہے ہم تجدید نہیں کرتے؟
ہمسائے پریشاں ہو ں تو کیسی خوشی شعیب
جب شہر میں ماتم ہو ہم عید نہیں کرتے
اپنی رائے سے ضرور اگاہ کریں
پاکستان زند ہ باد
اللہ تعالیٰ آپ سب کا اور میرا حامی و ناصر ہو اللہ حافظ
Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 8 Articles with 11339 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.