کراچی میں امن نگراں حکومت کا اصل امتحان

سندھ میں مخلوط حکومت کے خاتمے اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خصوصاً امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر لوگوں کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی مرضی کا نگراں سیٹ اپ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن کراچی میں حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ نگراں حکومت کے ذریعے انہیں کنٹرول کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ کیوں کہ پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیںپانچ سال کے دوران شہر میں بدامنی، بھتا خوری اور ٹارگٹ کلنگ پر قابو پانے میں بری طرح ناکام رہی ہیں تو اب نگراں حکومت (جس کے اختیارات بھی محدود ہوتے ہیں) کیسے ان حالات سے نمٹے گی؟

سندھ میں نگراں حکومت کے قیام کے بعد بھی کراچی میں خونریزی جاری ہے بلکہ قاتل پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے بعد یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کراچی کی بدامنی پورے ملک کو لپیٹ میں نہ لے لے، یہ ملک کے داخلی استحکام اور جمہوری نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کراچی کے شہری بڑھتی ہوئی بدامنی اور لاقانونیت سے عاجز آچکے ہیں۔ مگر حالات کے سدھار کے لیے فوری طور پر کوئی بھی سنجیدہ اقدام کرنے پر تیار نہیں۔ اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران کراچی میں 10 ہزار سے زیادہ افراد بدامنی کا شکار ہوئے۔ اتنے بڑے پیمانے پر خونریزی کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ شہر قائد بدامنی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر ہے، لیکن اس کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال پر اسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے نگراں حکومت کو 15 دن کی مہلت دیتے ہوئے شہر میں نوگوایریاز ختم کرنے کے لیے آپریشن کا حکم دے دیاہے، چیف جسٹس نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ کراچی میں فوری طور پر امن چاہتے ہیں، مزید وقت نہیں دے سکتے، الیکشن سر پر ہیں،مجرموں کا صفایا چاہتے ہیں۔ شہر میں قیام امن تک عدالت یہیں بیٹھے گی۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ افراد کو نکال دیں۔

اس سے قبل 21 مارچ 2013ءجمعرات کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی عمل درآمد کیس کے دوران قائم مقام آئی جی سندھ غلام شبیر نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے مجرمانہ سرگرمیوں میں سیاسی کارکنوں کی فہرست عدالت میں جمع کرائی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011ءسے تاحال 224 ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جن میں متحدہ قومی موومنٹ کے 81، سنی تحریک کے 38، کالعدم تحریک طالبان کے 27، لیاری گینگ وار کے 17، اے این پی کے 13، کالعدم پیپلزامن کمیٹی کے 6، تحریک انصاف کے 9، لشکر جھنگوی کے 2، کالعدم سپاہ محمد کے 4 اور مہاجر قومی موومنٹ کے 4 کارکن شامل ہیں۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے حالات خراب ہونے اور قیام امن میں ناکامی کے حوالے سے ہماری سیاسی جماعتیں ذمہ دار ہیں۔ ایک جانب بوری بند لاشیں ہیں، لوگوںکو ٹارگٹ کرکے مارا جارہا ہے، بھتا خوری عروج پر ہے، تجاری سرگرمیاں ٹھپ اور لوگ خوف کے ماحول میں گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور ہیں، دوسری جانب سپریم کورٹ کا بھی دباﺅ بڑھ رہا ہے کہ بدامنی پر قابو پایا جائے۔ کیوں کہ ان حالات میںالیکشن ہوئے تو حالات خراب کرنے کے لیے بعض نادیدہ قوتیں ایک بار پھر سرگرم ہوسکتی ہیں جس کے بعد خدشہ ہے کہ کراچی کی سڑکیں ایک بار پھر خون سے رنگین ہوں گی۔ انتخابات سے قبل امیدوار الیکشن مہم چلاسکیں گے اور نہ ہی عام شہری اور کارکن ان کے جلسوں میں شرکت کا رسک لیں گے۔

ہماری سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوگئی ہیں، جوڑ توڑ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے رابطوں میں تیزی آگئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس حوالے سے حکمت عملی یہ ہے کہ کسی بھی وڈیرے، جاگیردار اور سردار کو پارٹی سے یا رابطے سے باہر نہیں ہونا چاہیے، یعنی پیپلزپارٹی 5 سالہ ناکام حکمرانی کے بعد اب وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروںکی حمایت سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ 2008ءکی نسبت اس بار پیپلزپارٹی کو اس قدر عوامی حمایت ملنا مشکل ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت پی پی نے سندھ کے بیشتر اضلاع میںبااثر افراد کی حمایت حاصل کرلی ہے جس کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ ٹھٹھہ، گھوٹکی،سکھر،لاڑکانہ،قمبر، شہداد کوٹ، جامشورو اور شکار پور سے پیپلزپارٹی باآسانی سیٹیں لینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ دوسری طرف دادو، تھرپارکر، سانگھڑ اور نوشہرو فیروز سمیت بعض اضلاع میں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ہم خیال، مسلم لیگ (فنکشنل) اور نیشنل پیپلزپارٹی کے امیدوار پی پی کو ٹف ٹائم دیں گے۔

جہاں تک کراچی کی بات ہے تو یہاں پیپلزپارٹی کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے لیاری میںایک بار پھر حالات کشیدہ ہوچکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران لیاری گینگ وار کے ایک اہم کردار ارشد پپو، ان کے بھائی اور قریبی دوست کو اغواءکے بعد بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ان حالات میں گینگ وار کے مسئلے نے ایک بار پھر سر اٹھالیا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ لڑائی بلوچ اکثریتی علاقوں سے نکل کر شہر کے دیگرعلاقوں کو بھی لپیٹ میں نہ لے لے۔ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ انتخابات بالکل قریب ہیں اور یہاں سے کوئی امیدوار آزادانہ اپنی مہم نہیں چلا پائے گا۔ لیاری سے ہی پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول پارٹی سے 24 سالہ طویل رفاقت ختم کرتے ہوئے ایم کیو ایم میں شامل ہوگئے ہیں۔ جب کہ لیاری سے پی پی کے صوبائی وزیر رفیق انجینئر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں۔

اس پس منظر میں پیپلزپارٹی لیاری سے روایتی انداز میں الیکشن نہیں لڑپائے گی۔ کراچی کے دیگر علاقے بھی بدامنی سے متاثر ہیں لیکن لیاری میں حالات زیادہ ابتر ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی لیاری سمیت دیگر علاقوں میں نو گوایریاز ختم کرنے کے لیے رینجرز اور پولیس کو مشترکہ آپریشن کا حکم دیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں شہر قائد کو بدامنی کے حوالے کرکے دوبارہ اقتدار کے حصول کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت کراچی میں بدامنی کی اصل وجوہ کا جائزہ لے کر سنجیدہ اقدامات پر تیار نہیں۔ حالاں کہ ہماری سیاسی جماعتیں کراچی کے بگڑتے حالات کے اسباب سے بخوبی واقف ہیں۔ لہٰذا تمام شہری الیکشن میں ووٹ کے ذریعے ایمان دار قیادت کو آگے لانے میں اپنا کردار ادا کریں اور ایسی جماعتوںکو مسترد کردیں جنہیں کراچی میں قیام امن سے ذرا بھی دلچسپی نہیں۔ پیپلزپارٹی کو بھی جلد اس بات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا کہ اس نے 5 سال کے دوران کراچی میں قیام امن کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی؟
Usman Hasan Zai
About the Author: Usman Hasan Zai Read More Articles by Usman Hasan Zai: 111 Articles with 77795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.