نظام نہیں سماج کو بدلیں

آج ہر کوئ یہ کہتا ہے کہ نظام کو بدلیں۔ آئیے غور و خوض کرتے ہیں کہ کیا واقعی نظام ہی خرابی کا موجب ہے اور اسے بدلنا ہی مسائل کا حل ہے۔ ہم پچھلی سات دہائیوں سے مختلف نظاموں کے تجربے کرتے آرہے ہیں۔ ہم ہر خرابی کا مورد الزام نظام کو ہی ٹھراتے رہے ہیں مگر تمام تر کوششوں کے باوجور نہ تو ہم کوئ مثالی نظام اپنا سکے اور نہ ہی حالات ٹھیک ہو سکے۔ ہم آج مختلف پہلووں کے حوالہ سے نظام کو دیکھیں گے کہ: نظام ہے کیا؟

نظام ایک ضوابط، طریقہ کار اور دستور کا باہم ہم آنگھ مجموعہ ہوتا ہے جو کسی بھی عمل، سرگرمی، فرض کی ادائیگی یا مسائل کے حل وغیرہ کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔ کسی بھی نظام کو چلانے کے لیے علم اور تجربہ رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم سیاسی نظام کو ہی لے لیں تو کسی بھی ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے ریاست کا دستور ہوتا ہے اور اس میں تمام اداروں کی ساخت سے لے کر اختیارات تک موجود ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئ بھی نظام جتنا بھی خود کار بنا لیا جاے اس کو چلانے والوں کے علم و تجربہ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نظام کیسے بنتے ہیں ؟

جو کوئی کسی چیز کا موجد ہوتا ہے وہ اس کے لیے ایک ضابطہ اور استعمال کا طریقہ کار بھی پیش کرتا ہے اور موجد ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی چیز کس طرح اچھے طریقے سے عمل کر سکتی ہے اور اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خالق کائنات جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ اس کائنات اور اس میں رہنے والے انسان کس طرح کامیاب اور بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ اب خالق کائنات کا دیا ہوا نظام بہترین نظام ہے اگر ہم کا میابی چاہتے ہیں تو اپنی زندگیوں کو اس نظام سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ جب ہم اس نظام سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو کشمکش کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ جب ہم مشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ان کے متعلق سوچیں اور کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں اسی طرح ہی نظام تشکیل پاتے ہیں۔ جب یہ ترکیبیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہی ترکیبیں دوسروں کے لیے کشش کا سبب بنتی ہیں اور پھر دوسروں کے لیے ماڈل نظام بن جاتے ہیں۔ ضرورت سوچنے اور غورو خوض کرنے کی ہے کہ ہم اپنے مسائل پر کیسے قابو پا سکتے ہیں۔ اب ہم کچھ مثالیں لے کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹریفک سسٹم کو ہی لے لیجیے؛ ہماری آسانی کے لیے اصول و ضوابط بنائے گئے ہیں کہ دائیں یا بائیں طرف چلنا ہے۔ فا صلہ رکھنا ہے، سرخ اشارے پہ رک جانا ہے، سبز پر چل پڑنا ہے، کراسنگ کے وقت کیا کرنا ہے، مڑنے کے بھی کچھ قوائد و ضوابط ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر ہم کہیں کہ ہماری مرضی ہم جیسے چاہیں کریں تہ شاید ایک کلو میٹر بھی نہ چل سکیں اور کسی چیز سے ٹکرا کر اپنی بھی تباہی کریں اور دوسروں کے لیے بھی تباہی کا سبب بنیں گے۔ نظام کس نے چلانا ہے؟

اب ہم اسی ٹریفک سسٹم کوعمل کے حساب سے دیکھتے ہیں: کہ اگر ہم دوسروں کو ہی اس پر عمل کی تلقین کرتے رہیں یا مورد الزام ٹھراتے رہیں اور خود اپنی ذمہ داریوں کا خیال نہ کریں تو سسٹم کا چلنا نا ممکن ہے کیونکہ ہم بھی جب سڑک پہ نکلیں گے تو اس سسٹم کا حصہ بن جائیں گے اور ہمار ے فعل بھی اس سسٹم کو متاثر کریں گے اور یہ نظام اور دوسروں کی زندگی کے لیے خظرہ بھی بن سکتے ہیں اور حفاظت کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اس میں ڈرائیوروں کے لیے بھی اصول و ضوابط ہیں اور ریگولیٹ کرنے کے لیے ٹریفک پولیس کو بھی تعینات کیا گیا ہے کہ وہ اس کو بہتر طریقے سے چلانے میں مدد کریں ان کو اختیارات بھی دیے گئے ہیں کہ وہ خلاف ورزی کرنے والے کو جرمانہ بھی کر سکیں وغیرہ ؤغیرہ۔ اس بات سے واضح ہوا کہ ہم تمام کی بشمول پولیس کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ اور ہم بھی سسٹم کو بہتر بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جتنا ذیادہ ہم اصول و ضوابط سے واقف ہونگے اور عمل کرین گے اتنا ہی نظام ٹھیک چلے گا۔ آختیارات اور سزائیں بہتری کے مختلف طریقے ہیں اور اگر تمام کے تمام لوگ ہی قوانین و ضوابط پر عمل نہ کریں تو پولیس والے کنٹرول کرنے سے بے بس ہو سکتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اس سسٹم کو کامیاب بنانا ہے۔ پولیس والے بھی ہمیں میں سے ہیں ۔ ہم سب جتنے زیادہ فرض شناس ہونگے اتنے ہی زیادہ ہمارے حقوق کی پاسداری ہو گی اور نظام بھی احسن طریقے سے چلے گا ۔ اس طرح ہماری زندگی میں آسانی پیدا ہو گی۔

اسی طرح ہمارے ملکی سیاسی نظام کو بھی ہم نے ہی چلانا ہے۔ ہم جتنے زیادہ ہمارے حقوق اور ذمہ داریوں سے واقف ہونگے اور عملی طور پر عمل کرتے ہوے ترقی کے عمل میں حصہ لیں گے اتنا ہی زیادہ بہتری کے زیادہ مواقع ہونگے۔ اور اگر سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھراتے رہیں گے تو حالات اور زیادہ خراب ہونگے۔ ہم ہی ہیں جو حکومت کو تشکیل دیتے ہیں، ہم ہی حکومت کا حصہ بنتے ہیں۔ اور ہم حکومت سے باہر رہ کر بھی کچھ ذمہ داریاں رکھتے ہیں اور بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بات اس کو سنجیدگی سے لینے اور سوچنے کی ہے۔ نظام کو بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟

اس کے لیے میں چند نقاط عرض کرنا چاہوں گا؛
سب سے پہلے تو نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے
پھر اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے
اپنے اپنے مقام اور حصہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے
سب سے بڑھ کر عملی طور پر ترقی کے عمل میں حصہ لینے کی ہے
پھر ضرورت ہے مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی

پھر نظام کو ٹھیک کرنے کے کچھ اصول و ضوابط بھی ہوتے ہیں۔ ان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے مسائل کے حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ نظام کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت سے عوامل کی مدد لی جا سکتی ہے۔ بات اصل مسئلے کو سمجھنے کی ہے کہ نظام کو بہتر طور پر سمجھنے اور وقت کے تقاضوں کو جاننے کی ہے۔ مثلا جدید ٹیکنالوجی جیسے ای گورنینس(E-Governance) ایک بات انتہائی ضروری ہے کہ اگر آپ نظام میں بہتری یا تبدیلی چاہتے ہیں تو اس نظام میں عملی حصہ لینا بہت ضروری ہے۔کسی بھی نظام سے فائدہ وہی قومیں اٹھا سکتی ہیں جو ںظام کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اور اجتماعی سوچ رکھتی ہیں۔ وہ اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں۔ ایسی قومیں اپنی اقدار کو عزیز رکھتی ہیں خواہ ان کے ملکی دستور تحریری ہوں یا نہ ہوں۔ ہمارے پاس کئ ایک مثالیں موجود ہیں۔

جیسی عوام ویسے حکمران: جب تک ہم اپنے آپ کو نیہں بدلیں گے اچھے حکمرانوں کی توقع نیہں کی جاسکتی۔ اسلیے انتیائی ضروری ہے کہ اپنی سوچوں کو بدلا جائے اور اپنے قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوے ترقی کے کام میں عملی طور پر حصہ لینا چاہیے۔ ہمیں اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھنا اور نبھانا چاہیے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے سماج کو بدلیں تو نظام خود بخود ہی بہتر ہوتے جائیں گے۔
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114707 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More