اَب انتخابات کیسے ہوں گے جب.؟

سیاستدان وحکمران اورعوام کی کشمکش ،اعتمادیاعدم اعتمادکی جنگ؟

چلواَب ..!بے شمارسیاسی دباؤ اور تنقیدوں کے بعدیہ اطلاعات آرہی ہیں کہ صدرنے نگران وزیراعظم کے لئے 4بنیادی معیارمقرکردیئے ہیں ، اَب ایسے میں یہ لگتاہے کہ جلدہی اسمبلیاںتحلیل ہونے کو ہیں، اور انتخابات میں چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں ،یوں ہر طرف انتخابات کے لئے صف بندی کی جارہی ہے، اپنے پرائے سب کی غلطیاں معاف کی جارہی ہیں، مصالحتی اور مفاہمتی عمل کے ساتھ ساتھ جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ،چمک اور لفافہ کلچر کوپَرلگ گئے ہیں، سیاسی خاندان ٹوٹ رہے ہیں ، باپ ، بیٹے ، بیٹاں اور قریبی رشتہ دار اپنی اپنی سیاسی فاداریاں تیزی سے بدل رہے ہیں، سیاسی اور مذہبی جماعتیں سکڑ اور پھیل رہی ہیں،اِس عمل کے لئے ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں متحرک ہوگئیں ہیں،کچھ اپنے کارناموں پر نازاں ہیںتوکچھ نالاں ہیں،کچھ خوش فہمیوں میں مبتلاہیں تو کچھ مایوسیوں کے اندھیروں میں غوطہ زن بھی ہیں، موجودہ اورآئندہ قیادت پر اعتماد اور عدم اعتماد کی جنگ جاری ہے ،گوکہ ایسے میں دوسری طرف ملک کے اٹھارہ ، اُنیس کروڑ عوام بھی ہیں،جنہیں انتخابات میںاپنے ووٹوں سے نئی قیاد ت کا چناؤ کرناہے ، موجودہ حالات میں عو ام کو اپنی ذمہ داری خوب ٹھوک بجاکراداکرنی ہے ،جس کے لئے اِنہیں سنجیدگی سے اپنا کرداراداکرناہے، اپنے اِس کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے عوام کو خود ایسادانشمندانہ فیصلہ کرناہے کہ یہ مسائل ، بھوک و افلاس اور محرومیوں کے سمندر سے نکل سکیں اوراپنی بقاوسالمیت کا خودسامان کریں ، یعنی عوام کو ابھی سے اپنی بہتری کے لئے ضرورسوچناہوگا،آج اورابھی ہی سے ایک لمحہ ضیاع کئے بغیراپنی بہتری اورروشن مستقبل کی تلاش میںسرگرداں ہوناپڑے گا... گزشتہ دنوں جب اِس حوالے سے میری ملاقات چندسنجیدہ اور باشعورشہریوں(جن میں نوجوان ،جوان ،بوڑھے اورہرعمرکے افرادشامل تھے) سے ہوئی تو اُنہوں نے میری اِن باتوں اور سوالات سے اتفاق تو ضرورکیامگر وہیں اِنہوں نے ساتھ ہی اِن تمام باتوں پرایک انجانے سے مخمصے کا بھی اظہارکردیاہے جو اِنہیںاندرہی اندرڈسے جارہاہے وہ یہ ہے کہ اگرہربارکی طرح امسال بھی آئندہ انتخابات میں صرف چہرے بدل دیئے گئے اور نظام کو نہیں بدلاگیاتو اِن کا مستقبل ایساہی تاریک رہے گاجیسااِن دنوں اِن کا حال ہے یااِن کے لئے اِس سے بھی زیادہ بُرے حالات پیداکردیئے جائیں اوراِس یہ کہاجائے کہ پچھلوں نے ہمارے لئے سوائے مسائل کے انبار کے چھوڑاہی کیاہے ...؟جو ہم ملک اور قوم کی بہتری کے لئے کچھ کرنے کا سوچیں..؟قومی خزانہ خالی ہے، ملکی معیشت کا ستیاناس ہوگیاہے، ملک سیاسی وسماجی اور اقتصادی طورپر تباہ ہوگیاہے ،ہم کس کس شعبے کو ٹھیک کریں ..؟ایسے میں ہمارے پاس کوئی جادوی کی چھڑی نہیں ہے کہ ہم پلک جھپکتے ہیں سارے مسائل حل کردیں ،عوام خاطرجمع رکھیںہم کوشش کریں گے کہ اپنی حکومتی مدت کے پانچ سالوں کے دوران جو ہم سے ہوسکے گاہم ملک اور عوام کو مسائل سے نجات دلانے کی کوشش کریں گے ،مگرہم وعدہ نہیں کرتے کہ ہم ملک اور عوام کو مسائل سے نجات دلاکرہی دم لیں گے ، اور پھر یوں آئندہ انتخابات کے بعدجو نئی قیادت سامنے آئے گی وہ مسندِ اقتدار پر اپنے قدم رنجافرمانے کے ساتھ ہی یہ کہناشروع کردے گی کی ہم مجبور ہیں کہ ہم فوراََ ملک اور عوام کو مسائل کے انبارسے نہیں نکال سکیں گے اور پھر اٹھارہ، اُنیس کروڑ معصوم عوام اگلے پانچ سالوں کے لئے منتخب ہونے والے نئے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کرتوتوںکی وجہ سے زندہ درگورہوجائیں گے اِن خدشات اور وسوسوں کی وجہ سے کچھ کا کہناتھاکہ ملک میں انقلاب آجائے جو سارانظام کسی مثبت اور تعمیری سمت کی جانب لے جائے عوام کے اِس جذبے پر کوئی شک نہیںکیاجاسکتاہے کہ عوام ملک میں بہتری کے لئے کسی حقیقی انقلاب کے انتظار میں ہیں اور اُمیدکئے ہوئے ہیں ملک میں کوئی ایساضرور پیداہوگاجو کسی سُرخ یا سبزانقلاب کا عَلم تھامے نکل کھڑاہوگااور ملک کے فرسودہ نظام کو بدل کر رکھ دے گاعوا م کے اِس جذبے پر شاعر کا کہناہے کہ :-
کسی کے لب پہ الیکشن کی انتحاب کی بات ---- کسی کے بزمِ طرب میں ہے احتساب کی بات
کوئی یہ کہتاہے یارانِ ملک و ملت سے ---- یہ دورِ نو ہے کرو سُرخ انقلاب کی بات

اگرچہ اِن تمام باتوں اور خدشات پر میراخیال یہ ہے کہ اگرملک میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے تو اِ س کے لئے صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد سے اچھاکوئی اور راستہ نہیں ہو سکتاہے اور اگر تمام دعوؤں کے باوجود بھی انتخابات دھاندلیوں سے لبریزہوئے توپھراِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ملک میں کوئی اچھی اور مخلص قیادت سامنے آپائے گی ۔

اُدھر صدرزرداری نے اپنی بے پناہ سیاسی فہم وفراست کی بنیادپر حکمران اتحادی سربراہی اجلاس میں نگران وزیراعظم کے لئے چاربنیادی معیارمقررکرکے فیصلہ سُنادیاہے کہ نگران وزیراعظم غیرسیاسی ہوگا، غیرمتنازعہ ، غیرمعروف اور سول سوسائٹی میں اچھی شُہرت رکھنے والاہوگا ،اِس پر سیاسی مبصرین اور عام شہریوںکا خیال یہ ہے کہ صدرنے نگران وزیراعظم کے لئے جن چاربنیادی معیار کو مقررکیا ہے،کیاایسی کوئی ہستی ہمارے ملک میں پیداہوچکی ہے...؟اگرصدرکے اِس معیار پر ایسی کوئی شخصیت موجود ہے تو یہ ابھی تک پاکستانی عوام اور میڈیاسے کیوں چھپی ہوئی ہے...؟یااگر ایساکچھ نہیں ہے تو عوام کا خیال یہ ہے کہ صدر کے نگران وزیراعظم سے متعلق مندرجہ بالاچار نکات طلسماتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واستہ نہیں ہے بس وقت گزاری کا ایک بہانہ ہے کیوںکہ نہ کوئی اِس معیار پر پورااُترے گااور نہ کوئی نگران سیٹ اَپ معرضِ وجود میں آپائے گاجب ایسانہیں ہوسکے گاتو لامحالہ وہی کچھ ہوگاجیساصدرچاہتے ہیں ...آج یہ بھی سب جانتے ہیں کہ صدرکیاچاہتے ہیں ..؟بہرحال ..!کوئی کچھ بھی سمجھے اور کچھ بھی کرلے،لیکن ملک میں بھلائی اور حقیقی جمہوریت کو پنپنے کا واحد ذریعہ صاف وشفاف انتخابات ہیں جو ملک اور عوام کو درپیش مسائل کے حل میںاِنقلاب کی نوید کی پہلی کرن ثابت ہوں گے پر اِس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابا ت شفاف ہوں۔(ختم شُد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889784 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.