جمہوریت اور لانگ مارچ

جمھوریت میں کبھی چور راستے نہیں ہوتے اور جو چور راستوں کی تاک میں ہوتے ہیں وہ جمہوریت کے لیے کبھی مخلص نہیں ہو سکتے جمہو ریت ہمارے ملک میں تبدیلی کے ادوار سے گزر رہی ہے اور اس میں کئی اونچ نیچ آتے ہیں مگربا شعور قومیں جمہوریت کو کبھی پٹڑی سے نہیں اترنے دیتیں وہ اپنے آئین کو ہی مقدس سمجھتی ہیں اور اس کا ہر صورت پا س رکھتی ہیں ہمارے لیے یہ بڑے فخر کی بات تھی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آئینی حکومت اپنا دورانیہ مکمل کر رہی تھی ہما ری تمام سیاسی جماعتیں سیاسی بصیرت اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعمیری سیاست کر رہیں تھیں الیکشن کمیشن کی تعیناتی تمام سیا سی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ہوئی اور کسی بھی جماعت کو ایک انتہائی ایماندار اور بے داغ ماضی والے اس شخص پراعترز نہ تھا بلکہ پوری طرح سے مطمئن تھے تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے با ہمی مشورہ اور سفارشات کو مد نظر رکھ کر انتخابی اصتلاحات مرتب ہو رہی تھیں ووٹر لسٹیں انتہائی احتیاط اور نگہداشت میں تیار ہو رہی تھیں اور ہر ایک ووٹر کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے تصدیق کا موقع فراہم کیا گیا -

سب معاملات احسن طریقے سے انجام پا رہے تھے کہ اچانک نظر لگ گئی ہے اور شاید جمہوریت کے دشمن نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے جمہوری سفر میں کامیا ب ہو اور ایک آئینی حکومت اپنا دوانیہ پورا کرنے کا ریکارڈ پورا کر سکے پرامن احتجاج اور آزادی اظہار رائے ہر شہری کا حق ہے مگر مطالبات ہمیشہ آئینی حدود کے اندر ہی ہونی چاہیں آئین کسی بھی ملک کا وہ ابتدائی اساس ہوتا ہے جس پرریاست کے تمام امور اور معالات کا ربند ہوتے ہیں اور عظیم قومیں تحریری دستور نہ بھی ہو تو اس کی علامت کو زندہ رکھتی ہیں مگر ہماری پہلی کوشش اپنے آئین کا حلیہ بگاڑنے کی ہوتی ہے -

اب ہم موجودہ حالات کی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے طاہر القادری صاحب کے لانگ مارچ کا جائزہ لینے کی سعی کرتے ہیں طاہرالقادری صاب نے جو چار مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں انکا یکے بعد دیگرے جائزہ لیتے ہیں سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جمہوری معاملات کے فیصلے جمہوری طرز عمل پر ہی ہونے چاہیں -

انکا پہلا مطالبہ کہ الیکشن کمیشن کو ہٹا کر دوبارہ سے تعینات کیا جائیـ؛ اس لیے قابل عمل نہیں لگتا کہ اس موجودہ الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں نے باہمی اتفاق رائے سے تعینات کیا ہے اور اگر کوئی اپنی زاتی مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکتا تو اس کا مورد الزام کسی دوسرے کو نہیں ٹہرایا جا سکتا ویسے بھی سب کی نظروں میں فخرالدین ایک انتہائی قابل اعتماد شخصیت ہیں اور ان کے خلاف کسی بھی سیاسی جماعت کا مطالبہ ابھی تک سامنے نہیں آیا-

ْانکا دوسرا مطالبہ کہ انتخابی اصطلاحات کی جائیں ورنہ وہی چہرے پھر آجائیں گے واقع ہی قابل ستائش اور آئینی ہیں لیکن یہ سب تو کسی اور اندازاور طریقے سے بھی کیا جا سکتا تھا اس طرح سے ورکروں کی پانچ سالوں کی جمع کی ہوئی پائی پائی ضائع کرنے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنا عوامی خدمت نہیں کہا جا سکتا -

اور چوتھا مطالبہ کہ اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے ہماری سمجھ سے باہر ہے اور وہ بھی اس وقت جب اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہیں کیا یہ صرف اسلیے تحلیل ہونی چاہیں کہ خواہ ایک دن ہی پہلے ہوں تا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ نہ لکھا جا سکے کہ اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کرلی ویسے بھی اگر ڈاکٹر صاحب کی ایک ملین والی بات بھی مان لی جائے تو بھی ایک ملین کے مقابلے میں ایک سو نواسی ملین کے مینڈیٹ و الی حکومت کو تحلیل کر دینا جمہوری عمل نہ ہو گا اگر یہ سب اس طریقہ سے دہیا دہیا ہی کرنا ہوتا تو عمران خان اور نوازشریف بھی عوامی اعتماد کا استحصال کر سکتے تھے میں داد دیتا ہوں انکی سیاسی بصیرت کو کہ انہوں نے تعمیری سیاست کی اور شاید انکی انہیں کوششوں کی وجہ سے آج آپ لوگ بڑے احسن طریقے سے اور بغیر کسی رکاوٹ کے وہاں پہنچنے اور احتجاج کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں -

چوتھا مطالبہ کہ عبوری حکومت ان دو بڑی جماعتوں کی عتاب سے باہر ہو تو جائز ہے مگر ان دو بڑی عوامی حمایت یافیہ سیاسی جماعتوں کی رائے شامل نہ ہو قابل عمل اور قرین انصاف نہ ہو گا شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن پہلی ترجیح ہونی چاہے مگر لائحہ عمل سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے -

اس لانگ مارچ کو چونکہ جمہوری لانگ مارچ کا نام دیا گیا ہے لہذا اس بارے میں تھوڑا سا عرض کرنا چاہوں گا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ کبھی ایک سو نواسی ملین کے مقابلے میں صحیح جمہوری نہیں ہو سکتے ہاں پر امن حق آزادی اظہار رائے ہرشہری کا حق ہے مگر یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے میں استعمال کرنا چاہیے نہ کہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے میں میں یہاں پر بحالی جمہوریت لانگ مارچ کا حوالہ دینا چاہوں گا جو ایک مثبت تبدیلی کی ایک بہت ہی اعلی مثال ہے جس نے نہ صرف جمہوریت کو مستحکم کیا بلکہ اس کو پروان چڑھانے میں م بڑی ممدون و معاون ثابت ہوئی آج آپ بھی اس لانگ مارچ کو سفارش اور رشوت کلچر کے خلاف اور حکومت کو فضول قرضوں اور شا ہ خرچیوں سے روکنے کے خلاف تحریک کی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے -
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114731 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More