امن

امن کے لئے ہم جنگیں کرتے ہیں امن کے نام پر ہم انسانو کا قتل کر کے امن قائم کرتے ہیں کیا ہم معصوم اور بیگناہ انسانو کو بچا نہیں سکتے ؟

کیا ایسا کوئی حل نہیں جس سے معصوم انسانو کو بھی بچا سکتے اور امن بھی بحال کر سکتے ؟

کیا ہم دہشت گردوں کے ساتھ معصوم بیگناہ شہریوں کو ہے مار کر امن پیدا کرینگے ؟

کیا بم . بندوق کے علاوہ قلم سے تعلیم سے بھی کوئی انقلاب نہیں لا سکتے ؟

کیا ہم ان جاہلوں کے ساتھ جاہل بن کر ہی مقابلہ کرینگے ؟

کہاں ہیں وہ امن کے پیامبر جو امن کے ایوارڈ لیکر اپنا نام چمکانا چاھتے ہیں؟

کہاں ہیں وہ جو امن کے لئے کے نام پا لاکھوں روپے وصول کر کے ڈکار بھی نہیں مارتے اور پیسے ہضم کر جاتے ہیں ؟

کہاں ہیں وہ جو لاکھوں روپے دے کر امن کے لئے ہوٹل میں ایک کمرہ لیکر ہزروں روپے کا ناشتہ کر کے دو الفاظ میں امن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہیں؟

امن کمیٹیاں بنتی ہیں اور اس کمٹی کا سربراہ اس کو کیا جاتا ہے جو خود کسی دور میں بیگناہ معصوم انسان کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہوتا ہے کیا اس سے امن قائم ہوگا ؟

امن کے نام پر بننے والی ہزاروں تنظیمیں ہیں لیکن سب کے سب کاغذوں کا پیٹ بھر کر میڈیا میں شایع کروا کر ایوارڈ کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہیں اور افسوس کے زمینی حقائق وہ نہیں ہوتے جو کاغذوں میں لکھا ہوا ہے اور میڈیا والے بھی اشتہار کے پیسے ڈبل لیکر خوش ہو کر شایع کر دیتے ہیں-

امن جو ہم سب سے کہیں دور روٹھ گیا ہے بم اور گولیوں کے آوازوں میں دب کر نہ جانے کہاں غائب ہو چکا ہے امن اگر زندہ ہے تو بس سیاست دانوں کے الفاظوں میں جو وہ اپنے جلسے اور جلوسوں میں اس کا نام لیتا ہے اور امن کا نام سن کر ہم بھی انجان بن کر خوب تالیاں بجا کر اس کی داد دیتے ہیں-

جمہوریت کے نام پر ہم کتنے بیگناہ لوگوں کا قتل کر دیتے ہیں اور جمہوریت قائم کر دیتے ہیں-

کیا انسان کو قتل کرنے کے بعد ہی جمہوریت قائم ہوتی ہے ؟

عرب ملک میں جو ہو رہا ہے وہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے امن کے نام پر بنے ہوئی ادارے کس وجہ سے خاموش ہیں ؟

عرب ملکوں میں جو آج ہو رہا ہے وہ کل ان ملکوں میں بھی ہوگا جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں کیا یہ امن کہیں عرب ملکوں کے تیل کے کنووں میں تو نہیں گم ہو گیا ہے جہاں مسٹر امریکا اور اس کے پٹھو اس کو ڈھونڈھننے کے لئے بم اور بندوق لیکر آ گے ہیں لیکن ایک امن جس کے پاس نہ کوئی اسلح ہے لیکن پھر بھی اس کو نکال نہیں سکے ہیں .

جہاں دیکھو امن کی تنظیمیں . عورتوں کی تنظیمیں . بچوں کی تنظیمیں . جانوروں کی تنظیمیں ان پر نظر رکھنگے تو پتا چلتا ہے کے عورتوں کے نام پہ پتا نہیں کتنی تنظیمیں کام کرتی ہیں وہ ہوٹل میں بیٹھ کر عورتوں کے کے مقدر سنوارنے کے حکم دیتے ہیں ان عورتوں کے نام پر جن کو پتا ہی نہیں کے گولی کب اور کلہاڑی جسم کے کس حصے کو پار کر جائے عورتوں کے نام پار کروڑوں روپے ہضم کرنے والے کو دلال کہا جاتا ہے اور دنیا میں آج بھی ایسے دلال موجود ہیں .

وہ کیا عورت کی حفاظت کریگا جو اپنی ہی بیوی پہ شک کرتا ہے اور راستے میں اس عورت کا سامنا کرتا ہے جو اس سے اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے کے لئے 5 روپے مانگتی ہے اور اس صاحب کی نظر اس عورت کی چھاتی پر ہے اور عورت کی نظر اس کے جیب پر تو کیا یہ ہی شخص عورت کے حق دلائیگا ؟ شہر میں رہنے والی عورتیں شاید زیادہ ظلم کا شکار ہیں فرق اتنا ہے دیہات میں عورت ایک ہی وقت مر جاتی ہے اور شہر میں وہ عورت روز مرتی ہے-

وہ کیا دوسروں کے حق کی بات کریگا جو آج صبح اپنی بیوی کے ہاتھوں مار کھا کر آیا ہے-

بچوں کے حقوق
آج بھی بچہ اغوا ہو کر اونٹ کے پیٹھ پر اپنا دم توڑ دیتا ہے آج بھی بچے مدرسوں میں قید کئے جاتے ہیں آج بھی ملا قرآن پڑھانے اور نماز پڑھانے کے لئے پیسا وصول کرتا ہے-

آج بھی پنڈت لوگوں سے پیسے لیکر ان کا گھر جنت میں بنا لیتا ہے اور بچوں کی بلی دے کر بھگوان کو خوش کرتا ہے کیا یہ سب بچوں کے حق ہیں ؟

وہ کیا حفاظت کریگی جو اپنے بچے کو اپنا دودھ نہیں پلاتی کہیں وہ خود لوگوں کی نظر میں سمارٹ نظر نہ آئے یا پھر اس طرح کے ... نصیحت نہ کیجیے ہمے سب خبر ہے ہم ہونگے کیا خراب زمانہ خراب ہے

اکثر بچوں کی حقوق کی وہ بات کرتے ہیں جو خود اپنی بچوں کو اپنا حق حرام کے پیسوں سے ادا کرتے ہیں دوسروں کے بچوں کا حق ہضم کر کے اپنے بچوں کو حق دیتے ہیں جانوروں کے حق کی وہ بات کرتے ہیں جس نے آج تک یہ نہیں دیکھا کے یہ کون سا جانور ہے اور یہ کیا کھاتا ہے .اور اس کا کیا نام ہے جب یہ سب ٹھیک ہوگا تب جا کر امن اپنا وجود اس دنیا میں روئیداد کریگا ورنہ کچھ نہیں ہو سکتا-

کہاں ہیں وہ دن جس میں لوگ اپنے اتاقوں میں آگ جلا کر ایک دوسرے سے اپنا اور اس کے فصل اور مویشوں کی بھی خیریت معلوم کرتے تھے کہاں ہیں وہ صبح جس میں اللاھو اللاھو کی آوازیں اتی تھیں کہاں ہیں وہ شامیں جس میں پرندوں کی خوبصورت آوازیں سن کا دل کو سکوں ملتا تھا یہ سب گم ہیں امن ان سب کو اپنے ساتھ لیکر کہیں گم ہو گیا ہے کیا ہم اب یہ امید کر سکتے ہیں کے امن آئیگا ؟
Mehran Miandad Shar
About the Author: Mehran Miandad Shar Read More Articles by Mehran Miandad Shar: 2 Articles with 1224 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.