مسلمانوں کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو تمام انسانوں کے لیے ذریعہ نجات ہے لیکن مقام افسوس کہ آج اس دین کے پیروکار ہی دنیا میں سب سے زیادہ معتوب ہیں۔ ۔۔۔ذلت و رسوائی مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے۔ دشمنان ِ اسلام ہمارے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جا رہا ہے ۔۔۔انھیں پا بذنداں کیا جا رہا ہے، طرح طرح کی اذیتیں دی جا رہی ہیں۔۔۔ ہماری ماﺅں بہنوں کی عزت و عصمت ۔۔۔الغرض ایک دو زخم نہیں سارا جگر ہے کہ چھلنی اور درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے ۔۔۔وہ قوم جس کی حشمت کا یہ عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ کی دیواریں ا س کے نام سے تھرتھراتی تھیں۔۔۔آج اس کے دامن پر ذلت و رسوائی کا داغ کیوں ہے؟؟؟ جو قوم بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دینے کی صلاحیت رکھتی تھی آج ہموار زمین پر بھی اس کے پیروں میں چھالے کیوں ہیں؟؟؟؟جس قوم کی تاریخ میں کشتیاں جلا ڈالنے کی روایت ہو آج اس کی عزم و ہمت مردہ کیسے ہو گئی ہے؟؟؟؟یہ کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ آج اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، رات رات بھر تقریریں ہو رہی ہیں، سیمینارز اور کانفرنسیں کی جا رہی ہیں لیکن نتیجہ کچھ بھی سامنے نہیں آ رہا ہے۔اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ ان کی نااتفاقی ہے۔ ہم نے خود کو مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ مرض کی تشخیص بھی ہو چکی ہے لیکن پھر بھی صحیح سمت میں علاج کی کوئی تدبیر نہیں ہو رہی ہے۔۔۔ یہ علامت تو موت کی ہے کہ جب وہ آتی ہے تو طبیب کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔۔۔ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ دین محمدی ہی حقیقی دین ہے۔ یہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا خواہ باطل طاقتیں کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لیں اور خواہ نام نہاد اطباءامت دوا کے نام پر کتنی ہی زہر کی پڑیا ہمیں کیوں نہ کھلا دیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب مرض کی تشخیص ہو چکی تو اس کے علاج کی کوششیں کیوں نہیں ہو رہی ہیں اور اگر ہو رہی ہیں تو وہ کارگر کیوں نہیں ہیں؟ ؟؟اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ ہم صحب یاب ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔۔۔ ہم متحد ہونا ہی نہیں چاہتے۔ ہر جماعت کے پاس اتحاد کا طریقہ کار بس یہی ہے کہ میرے پرچم تلے آجاﺅ، میری دکان کے خریدار بن جاﺅتبھی تم فلاح پاﺅ گے۔عوام کو فروعی معاملات میں الجھا کر انھیں دین سے برگشتہ کیا جا رہا ہے۔ ہم اس بات کا شعور بھی نہیںرکھتے کہ غیر شعوری طور پر ہم اسلام دشمن سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ آج ہر کس و ناکس دینی مسائل پر گفتگو کرنے کا مجاز ہے۔ کفر، شرک، بدعت جیسی اصطلاحوں کی کوئی معنویت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ دلوں سے خلوص ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے آپس کے معاملات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کوئی ہم سے متاثر تو دور کی بات ہے برگشتہ ہی ہو سکتا ہے۔۔۔ایثار ، محبت، قربانی جیسے الفاظ اب صرف تحریر و تقریر کی ہی زینت رہ گئے ہیں ۔۔۔رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی ۔۔۔فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی ۔۔۔اخلاقیات کی سطح پر ہماری شناخت مٹ چکی ہے۔ ۔۔۔ہمارے قول و فعل میں آسمان و زمین جیسا تضاد پیدا ہو چکا ہے۔آج ہم میں ہر دوسرا شخص عالم و مصلح نظرتو آتا ہے لیکن عملی سطح پر ہم اتنے پیچھے ہیں کہ کبھی سنجیدگی سے اپنے قول و فعل پر غور کریں تو خود اپنی ذات سے ہی نفرت ہونے لگے۔آج ہم ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم نے دین کی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم نے اپنے آپ کو رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلایا ہی نہیں۔ہم نے دین سے نہیں اپنے نظریات سے محبت کی۔ ہم نے دین کی ترویج و اشاعت کے لیے نہیں اپنے مسلک و مکتب کے فروغ کے لیے جدوجہدکی۔اس کے باوجود کہ ہماری تاریخ بڑ ی تاب ناک ہے۔ہمارا نقطہ آغاز خلافت راشدہؓ ؓجیسی حکومت تھی۔ اس حکومت نے عدل، مساوات، احترام حقوق، آزادی اظہار اور ضرورتوں کی فراہمی جیسے معاشرتی اور سیاسی آئیڈیل اس طرح واقعات میں ممثل کردیے کہ انسانی تاریخ اس کی مثال لانے سے قاصر ہے۔پھر ہم نے ایک ہزار سال تک دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی ہے۔ جو حیثیت آج امریکہ کو دنیا کے وسائل اور مسائل میں حاصل ہے، وہی ہمیں حاصل رہی۔ اور اس میں ایک بہت غیر معمولی فرق یہ بھی تھا کہ مسلمان حکمران ہمیشہ اخلاقی طور پر برتر رہے اور انھوں نے کبھی مغربی استعمار کی طرح سازش اور دو رخی پالیسی کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔اسلامی افواج نے غیر معمولی سپہ سالار پیدا کیے۔ ان کے جنگی کارنامے، حکمت عملی اور پیشہ ورانہ مہارت میں علو وشان کا مطالعہ آج بھی ہمارے دل کی دھڑکن کو تیز اور ہمیں فخر و انبساط کے جذبات سے سرشار کردیتا ہے۔آج زمانہ جن سائنسی ترقیوں پر فخر کر رہا ہے، ان کی نیو مسلمان سائنس دانوں نے اٹھائی اور نسل انسانی کو کائنات کی تسخیر کا حوصلہ دیا۔ البیرونی، الحیان، ابن رشد اور ابن سینا جیسے بیسیوں لوگ پیدا ہوئے اور انھوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ فطرت کی تسخیر کی راہ کھولی۔ قانون، معیشت، معاشرت، منطق اور فلسفہ جیسے علوم میں مسلمانوں نے غیر معمولی دریافتیں کیں اور بعض چیزوں میں یورپ کی موجودہ علمی دریافتیں بھی کوئی اضافہ نہیں کر سکیں۔

آج بھی اگر ہم اخلاص کے ساتھ دین پر عمل کرنے والے بن جائیں تو ہزارہا اختلافات کے باوجود ہم متحد ہوں گے۔ کیسا عجیب المیہ ہے کہ دنیا تو ہمیں مسلمان کہتی ہے،ہمیں ایک مانتی ہے خواہ ہم کسی مسلک و مکتبہ فکر کے ہوں لیکن ہم ہی اپنی علیحدہ شناخت چاہتے ہیں۔ گجرات کے قتل عام میں یہ نہیں دیکھا گیا تھاکہ کون کس مکتبہ فکر کا ہے ؟؟؟عراق، فلسطین، افغانستان اور کشمیرمیں ہم سے ہمارا مسلک نہیں پوچھا جاتا۔ کاش کہ ہم یہود و نصاریٰ کی ان سازشوں کو سمجھ پاتے۔۔۔ ہائے افسوس کہ ہماری عقل پر پردے پڑ گئے۔ ۔۔۔ہم نے غور و فکر کرنا چھوڑ دیا۔۔۔ دین کو ہم نے محض ظاہر رسوم و قیود تک محدود کردیا۔دین کے تئیں ہمارا جذبہ عشق سرد پڑ گیا۔۔۔آئیے اس بات کا عہد کریں کہ دین کی حقیقی روح تک پہنچے کی کوشش کی جائے۔آتشِ عشق کو بھڑکائے بغیر ہمارا شعورو فکر بیدار نہیں ہو سکتا۔ محبت و خلوص کے بغیر نہ تو اتحاد و اتفاق پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اللہ کی نصرت۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں دین کی صحیح سمجھ اور اپنے بھائیوں کے تئیں خلوص و محبت عطا فرما دے۔ اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی ۔۔۔نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
khalid shahzad farooqi
About the Author: khalid shahzad farooqi Read More Articles by khalid shahzad farooqi: 44 Articles with 45190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.