نواز شریف سے یہ توقع نہ تھی

خاکی وردی والے کب تک مشرف کے بوجھ تلے دبے رہتے لیکن اگر زرداری صاحب آرٹیکل چھ کو بروکار لاتے اورمشرف کو محفوظ راستہ دے کر بھگانے کے بجائے الٹا لٹکا دیتے، اگر سیاسی یتیموں کو بے ساکھی پکڑا کر کھڑا نہ کرتے اور جمہوریت کو مستحکم کرتے تو آج خودانکی گردن کے گرد رسی اتنی تنگ نہ ہوتی اور انہیں یوں بیماری کا بہانہ بنا راتوں رات ملک سے فرار نہ ہونا پڑتا۔ عقل مگر ان میں نہیں، سیاست سے سے انکو بیر نہیں اور فہم فراست انکے بس کی بات نہیں۔ مختصر یہ کہ کسی کو اگر اسکی سوچ سے زیادہ مل جائے تو جو حشر اسکا ہوسکتا ہے زرداری صاحب کا بھی وہی ہوا ہے۔ چار برس تک پیپلز پارٹی کہتی رہی کہ زرداری سیاست کی کتاب،عقل کی کسوٹی اور تدبر کا پہاڑ ہیں لیکن اس طالب کا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ زرداری صاحب صرف فوج اور امریکہ کی خوشنودی کو اقتدار کی بقا سمجھتے ہیں اور ایک دن یہی فوج اور امریکہ انہیں اقتدار سے نکال باہر کرے گی۔

لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ خاکی وردی والے ہوں یا سات سمندر دور بیٹھے امریکی بہادر، دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ جتنی بھی جتن کرلو یہ رازی نہیں ہوتے اور موقع ملتے ہی وار کرکے کچا کھا جاتے ہیں۔ ان دونوں سے جان چھڑانے لے لئے زرداری کو وقت نے سب سے زیادہ موقع دئے، کیانی جیسے کمزور ترین فوجی آدمی سے معاملات طے کرنا اور انسداد دہشت گردی کی جنگ سے باہر آنا مشکل نہ تھا اور وہ بھی ایسے حالات میں جب ادھر پاکستان میں فوجی وردی منحوست کا ایک نشان بن چکی ہو اور ادھر افغانستان میں امریکہ بری طرح پھنس چکا ہو۔ سونا پر سہاگہ جہاں ایک طرف نواز شریف ایسے بھی فوجی اسٹبلشمنٹ پر برستے ہوں، سپریم کورٹ دستور اور جمہوریت کے ترانے گاتی بحال ہوئی ہو اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے دلوں میں فوجی وقار ایک قصہ پارینہ بن چکا ہو وہاں دوسری طرف ملک کے لبرل ترین حلقے بھی افغانستان میں امریکی شکست کا اعتراف کرتے نہیں تھکتے ہوں۔

چار برس ہوتے ہیں، نواز شریف اور زرداری نے ہاتھ ملائے اور ساتھ چلنے کے وعدے کئے اور یقینا دونوں کو اس سے بہتر موقع تاریخ نے کبھی نہیں دیا تھا۔ چاہتے تو مل کر اسٹبلشمنٹ کو ایسا تگنی کا ناچ نچاتے کہ سارے غاصبوں کو اپنی نانیاں یاد آجاتیں مگر زراداری نے آتے ہی مشرف کو گلے لگایا، ڈوگر کورٹ سے ہاتھ ملائے اور فوجی اسٹبلشمٹ کو اس طرح کی ضمانتیں دیں جو اٹھاسی اور ترانوے میں انکی اہلیہ دیا کرتی تھیں۔ نتیجے کے طور پر جہاں نواز شریف کو ہاتھ چھڑا کر بحالی جمہوریت کے عوامی دباؤ کے سمت بہنا پڑا وہیں خود پیپلز پارٹی بھی داخلی انتشار کا شکار ہوگئی۔ اٹھارویں ترمیم سے زیادہ ضروری کام عدلیہ کی بحالی اور مشرف کی رخصتی تھی جن میں پس و پیش سے کام لیا گیا اور سب سے اہم عمل مشرف کا ٹرائل تھا کہ اسے عبرت کی مثال بنایا جاتا مگر افسوس کہ گریز کیا گیا۔مشرف کی بنائی خارجی، دفاعی اور معاشی پالیسوں کا تسلسل زرداری حکومت کا سب سے بڑا جرم تھا کیونکہ مشرف کے خلاف انقلاب صرف اس لئے نہیں آیا تھا کہ وہ ایک آمر تھا بلکہ اس انقلاب کے پیچھے وہ عوامل بھی کارفرماں تھے جنکے نتیجے میں ملک ایک پرائی جنگ میں الجھ کر تباہ ہورہا تھا۔

زرداری نے امریکہ اور فوج کی رضامندی کی خاطر سب کو ناراض کیا لیکن چونکہ ان دونوں قوتوں کی خواہشات کو کوئی سیاسی لیڈر آج تک پورا نہیں کرسکا چناچہ زرداری صاحب بھی نہ کرسکے اور آج وہی دنوں قوتیں انکے در پہ ہوگئیں۔ نتیجے کے طور پر وہ اکیلے کھڑے ہیں اور ناراض ہونےوالوں میں کوئی ان دو قوتوں کی سازشوں کا مہرا بنا ہوا ہے اور کوئی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔منصور اعجاز بھی سازش کا صرف ایک مہرا ہے۔

عجیب بات ہے کہ پاکستانی میڈیا سیاستدانوں نے منصور اعجاز ایسے بدنام زمانہ شخص کی باتوں میں آکر ایک طوفان بدتمیزی بپا کیا ہوا ہے۔ حالانکہ نہ اسکا مکروح ماضی کسی کی نظر سے چھپا ہے اور نہ ہی کوئی اسکی اسلام دشمنی سے بے خبر ہے۔منصور اعجاز کا باپ ڈاکٹر مجدد امحد ایک بدنام زمانہ قادیانی سائنسدان تھا جس نے پاکستان کے اہم ایٹمی راز امریکہ کو افشا کئے تھے اور خود منصور اعجاز اپنی چالاکیوں کے زریعے ماضی میں کئی بار نواز شریف اور بے نظیر کے قریب آنے کی کوشش کرتا رہا۔ یہ عجیب اسٹوری ہے کہ منصور اعجاز جو خود کو ایک محب وطن امریکی بزنس مین کہتا ہے اور پاکستان سے اپنی کھلی لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے کسی خفیہ ادارے کے جاسوس کی طرح پہلے حسین حقانی کو فوجی بغاوت کے خوف میں مبتلا کرتے ہوئے اس مبینہ خطرے سے نکلے میں اپنی خدمات پیش کرتا اور پھر خود ایک آرٹیکل لکھ کر بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ اگر منصور اعجاز کے الزامات درست مان لئے جائیں تو پھر اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ جرنل پاشا پاکستان میں بغاوت کے لئے عرب حکمرانوں سے مدد مانتا رہا اور یقینا یہ الزام حسین حقانی پر لگائے گئے الزامات سے زیادہ سنگین ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا ان الزامات پر کیوں خاموش ہے۔غداری کے الزامات کچھ عرصہ قبل زوالفقار مرزا نے بھی قرآن سر پر رکھ کر الطاف حسین اور رحمان ملک پر بھی لگائے تھے اور ان انہوں نے میڈیا کے سامنے ایک مبینہ خط پیش کیا تھا۔ وہ الزام منصور اعجاز کے الزام سے کہیں زیادہ سنگین تھا کیونکہ اس میں ملک توڑنے کی بات تھی۔ دوسری طرف الزام لگانے والا کوئی اور نہیں ملک کی حکمران جماعت کا رکن، سابق صوبائی وزیر داخلہ، صدر مملکت کا دوست اور اسپیکر قومی اسمبلی کا شوہر تھا لیکن زوالفقار مرزا کے الزامات پر سپریم کورٹ حرکت میں کیوں نہ آئی ؟

جو غلطی زرداری کرچکے اب اس غلطی کا اعادہ میڈیا، سپریم کورٹ اور نواز شریف کرنے جارہے ہیں، اوروں کو چھوڑیں کم از کم نواز شریف سے ایسی توقع نہ تھی، ایک اطمینان تھا کہ وہ ماضی سے سبق سیکھ چکے ہیں اور اسٹبلشمنٹ کی لائن پر اب کبھی نہیں آئیں گے مگر افسوس۔اس سازش کا مہرہ بننے سے ناصرف ان لوگوں کی اپنی ساخت بری طرح مجروع ہورہی ہے بلکہ ملک ایک بار پٹری سے اتر کر اسٹبلمنٹ کے آہنی پنجے میں جاتا نظر آرہا ہے۔اگر ان لوگوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ناصرف انہیں وہ خمیازہ بھگتنا پڑے گا جو زرداری صاحب تادم تحریر بھگت رہے ہیں بلکہ ملک کو بھی بہت بھاری قیمت دینی پڑے گی۔چار برس تک پیپلز پارٹی کہتی رہی کہ زرداری سیاست کی کتاب،عقل کی کسوٹی اور تدبر کا پہاڑ ہیں لیکن اس طالب کا ہمیشہ ہی یہ موقف رہا کہ زرداری صاحب صرف فوج اور امریکہ کی خوشنودی کو اقتدار کی بقا سمجھتے ہیں اور ایک دن یہی فوج اور امریکہ انہیں اقتدار سے نکال باہر کرے گی۔
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 14337 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.