کوئی ہم کو بھی سمجھائے آخر یہ سازش کس کی تھی؟

ہر سال جب بھی 16 دسمبرآتا ہے تو پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔اپنوں سے بچھڑنے کے زخم،ملک تقسیم ہونے کے دکھ۔دیکھا جائے تو ملک صرف ملک ہی تقسیم نہیں ہوا بلکہ دو قومی نظریے پر بھی حرف آیاہے۔ قیام پاکستان کی بنیاد سوالیہ نشان بنی ہے ۔اندرا گاندھی نے یونہی تو نہیں کہا تھا ”کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال کے پانیوں میں غرق کردیا ہے“یہ الگ بات ہے کہ اربابِ اختیار نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا! وہ تو صرف اور صرف حکومت ہی کرنا جا نتے ہیں اور خوش قسمتی سے انہیں ” کولہو کے بیل “جیسی پاکستانی قوم مل گئی ہے جو ظلم تو سہتی جا رہی ہے مگر خاموش رہتی ہے۔حیرت ہے کہ 1947 سے پہلے قوم ایک ملک تلاش کر رہی تھی اور اب ملک ایک قوم کو تلاش کر رہا ہے!وہی غلطیاں مسلسل دہرائی جا رہی ہیں اور نام ہے ملک کے وسیع تر قومی مفاد کا؟لگتا ہے کہ چند بے حمیت لوگوں نے اپنی ذات کا نام قوم اور اپنے گھر کا نام پاکستان رکھ لیا ہے۔جنرل یحییٰ نے بھی ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں اپنی ہی قوم پر لشکر کشی کی تھی؟ ۔جنرل ٹکا خان بھی یہی سمجھتا تھا کہ بندوق کی نوک سے، جبر و تشدد سے اور اجتماعی قتل و غارت سے کسی قوم کو دبایا اور باندھ کر رکھ جا سکتا ہے!۔سیاستدان بھی بنگالی بھائیوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ وہ بھی ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں !

پھر وہ کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔مگر ہر عمل کا ردِ عمل تو ہوتا ہے۔قوم کے نام پر ذاتی کھیل کھیلنے والوں نے قوم کو تو کچھ نہ دیا۔ اپنے پیٹ اور تجوریاں بھرتے رہے۔ قوم بھوکی مرتی رہی، اپنے زخم چاٹتی رہی اور روتی رہی۔قوم کی بھی غلطی ہے ۔ اس کو اسی وقت چاہئے تھا کہ ایک قدم آگے بڑھتی اور ذمہ داروں کے گریبان پکڑ لیتی۔
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ گریباں چاک۔

حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو کیوں منظرِ عام پر نہیں لانے دیا گیا؟ قوم کو حقائق کیوں نہیں بتائے گئے؟ اس سے کس کو خطرہ تھا؟امامانِ سیاست کو ؟ یا امامانِ حرب و ضرب کو ؟ یا دونوں کو؟ قوم تو اس جرم میں شریک نہ تھی!اور اگر کسی کمیشن کی رپورٹ کو عوام سے شئیر ہی نہیں کرنا تو کمیشن بنانے کا مقصد کیا ہے؟ وقت اور قومی دولت کا ضیاع کیوں؟چالیس سال گزر گئے مگر رپورٹ کو اب تک پبلک نہیں کیا گیا ! ہماری نگاہ میں اس ملک میں قانون بننا چاہیے کہ ہر رپورٹ عوام کے ساتھ شیئر کی جائے گی ۔اگر فوری نہیں تو ایک مخصوص وقت گزرنے کے بعد ہی سہی۔اور وہ وقت زیادہ سے زیادہ تین سال ہو۔ آخر جمہور کو پتا تو چلے ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جیس میں جمہور کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے ؟

قوم تو اب تک سراپا سوال ہے کہ کوئی ہم کو بھی سمجھائے کہ آخر یہ سازش کس کی تھی؟اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اسلامی فوج کو سب سے بڑی شکست کیسے ہوئی؟ جس میں نوے ہزار فوجی قید ہوئے اور فوج کے کمانڈر نے انتہائی بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور قوم کو رسوا کر دیا ۔میرے عزیز دوست ڈاکٹر اجمل نیازی کہتے ہیں کہ جنرل نیازی نے مجھے رسوا کر دیا ۔میں نیازی نہیں ہوں یا پھر وہ۔مگر سوال وہی ہے
”کوئی ہم کو بھی سمجھائے آخر یہ سازش کس کی تھی؟
شمس و بدر کو گہنایا تھا کس نے؟
طوق ذلت کا گلے میں پہنایا تھا کس نے؟
تھپڑ مارنے کو اٹھے تھے ہاتھ جو پوری قوت سے
انہی ہاتھوں نے دشمن کو سلامی دی کیسے؟
”کوئی ہم کو بھی سمجھائے آخر یہ سازش کس کی تھی؟

اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں ، عالمی بھی اور داخلی بھی ۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ان میں بنیادی اسباب ، سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کی ہوسِ اقتدارعوم کے اک مخصوص طبقے کو نظر انداز کرنااور پھر اس عوام کا اپنی فوج اور اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف صف آرا ہو جانا تھا۔ اس حقیقت سے انکار کی کوئی جرات نہیں کر سکتا کہ فوج اپنے وطن کے دفاع میں صرف اس وقت ہی کامیاب ہوتی ہے جب اس ملک کی عوام اس کے ساتھ ہو۔ جو تب نہیں تھی ۔ اب بھی وہی حالات پیدا کئے جا رہے ہیں ۔فوج کو غیروں کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے وزیرستان، وانا اور سوات میں تو فوج کے ساتھ عوام کی باقاعدہ جنگ ہوئی ہے۔ وہ اپنے ہی عوام پر بم برسا رہی ہے ۔ ایٹمی قوت اور زبردست فوجی قوت کی موجودگی میں ڈرون حملے؟ ایبٹ آباد آپریشن ؟ مہران بیس پر حملہ ؟عوام کے دلوں میں فوج کی عزت اور وقار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ پھر سے نفرت کرنے لگے ہیں کہ اس فوج کی موجودگی میں معصوم افراد غیر ملکی بمباری سے کیوں ہلاک ہو رہے ہیں؟ ؟ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ یہ تو بالکل ہی بند گلی ہے۔ بلوچ قوم میں احساسِ محرومی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ رہی ہے ڈر ہے کہیں سقوطِ ڈھاکہ کی تاریخ ہی نہ دہرا دی جائے۔ گمشدہ بلوچ افراد کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔مگر حکمران اور اپوزیشن اپنے اپنے کھیل میں مصروف ہیں ۔بلوچستان پیکیج کسی عمرو عیار کی زنبیل میں گم ہو چکا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ1971کے بعد ملک میں قانون بننا چاہیے تھا کہ فوج عوام پر کبھی گولی نہیں چلائے گی۔
حیرت ہے کہ اہلِ چمن کو خبر نہیں
کس سمت جا رہے ہیں بہاروں کے قافلے

اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ ملکی معیشت سرنڈر کر گئی ہے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے کوئی موجودہ، گذشتہ اور اس سے پیوستہ وزیر خزانہ کو ڈھونڈ کر لائے کہ وہ بھی دیکھے کہ ٹرکل ڈاﺅن شروع ہو چکا ہے؟ اس کو بھاگنے کیوں دیا گیا ؟اس کو تو میرا تھان میں بھگا بھگا کر مارنا چاہئے تھا۔لعنت ہے ایسے معاشی اور سیاسی نظام پر جو صرف امراءکے مفادات کا تحفظ کرے۔ جس میں غربا اور تنخواہ دار ملازم تو ٹیکس دیں، پھر بھی دو وقت کی روٹی کو ترسیں مگر سرمایا دار اور جاگیر دار صرف موجیں کریں ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ کچھ لوگ عوام سے پوچھ رہے تھے کی آپ کو قائدِ اعظم کا پاکستان چاہئے یا زرداری کا؟ اور آج وہ خود زرداری صاحب کے ساتھ مل گئے ہیں۔ سب مایا ہے! ۔حکمرانوں کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب لوگ یہ کہیں گے کہ ہمیں عوام کا پاکستان چاہیئے۔پھر یہ ”خاص“ لوگ کیا کریں گے ؟۔ امن و امان کی صورت ِ حال تباہ کن ہے۔ حکومت کی رِٹ تو کہیں موجود نہیں البتہ حکومت کی رَٹ ہر جگہ موجود ہے۔ ہر بم دھماکے کے بعد حکومت کہتی ہے امن و امان تباہ کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے!سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بم دھماکہ یا حملہ کرنے سے پہلے آپ سے اجازت لینے آتا ہے؟صدر و وزیر اعظم کہتے ہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کیا جا سکتا ۔
آپ عزم جواں رکھیں ۔ حکومت کریں
مرنے کو زمانہ ہے ابھی

میرے نزدیک ان تمام مسائل کا حل فرسودہ سیاسی و معاشی نظام کے خاتمے میں مضمر ہے۔یہ سیاسی اور معاشی نظام ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکا ۔اس میں اصلاحات لازم ہو چکیں ۔سپریم کورٹ جو خود کو آئین کی محافظ کہتی ہے کو دیکھنا پڑے گا کہ آئین کے آرٹیکل62 اور63کی موجودگی میں اخلاقی اور سیاسی طور پہ کرپٹ لوگ اس ملک کے مقدس ایوان میں کیسے پہنچ جاتے ہیں ؟۔ یہ الیکشن کمیشن کس مرض کی دوا ہے؟ یہ تماشہ بند ہونا چاہئے ۔ بہت ہو چکا ۔ فوج بھی اپنے نظام کو دیکھے اور معلوم کرے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے جنرل یحییٰ جیسے لوگ آرمی چیف کے منصب تک جا پہنچتے ہیں ؟ عوام کو بھی اس ضمن میں ایک متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے لیئے اٹھ کھڑے ہونا ہو گا ۔ اک نعرہ انقلاب بلند کرنا ہوگایہ باور کروانا ہوگا کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں درست انداز میں کام کرے۔حقیقی عوامی خواہشات کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔اگر ایسا ہو جائے تو ایک مضبوط، پر امن اور خوش حال پاکستان بالکل ممکن ہے ورنہ جابرانہ نظام کے سب امین اس وقت سے ڈریں ۔
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے۔
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 28080 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More