تسی جیل بھرو تحریکیں

کمال ہے بھئی کمال ،کمال کے لیڈر ملے او رکما ل کے فالورز،جیلیں بھرو ہمارے لیے ہم ہیں تمھارے لیے ،ہم دیکھیں گے کہ کیسے آپ جیل جاتے اور کیسے پولیس کی مار کھاتے ہیں مڑ کے مت دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاوگے جیل پہنچ کے دیکھا لیڈر کی جانب تو سواے اندھیرے کے کچھ نظر نہ آیا ، لیڈر تو دور کی بات جن پہ تکیہ تھا وہ پتے ہوا دینے کو بھی موجود نہ تھے ایسے ہوتے ہیں انقلاب اور ایسے ہوتے ہیں لیڈر ،جی اگر ایسے ہوتے ہیں تو ملک ومعاشرے بھی ایسے ہی سجتے سنورتے ہیں جیسا اپنے ہاں ہو رہا،اور نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا، دور کسی ریلو پھاٹک پر سے گذریں تو ایک بورڈ نظر آتا تھا رجسٹر شکایات پھاٹک والے کے پاس ہے اور پھاٹک والا اس کا کوئی اتہ نہ پتہ ،دنیا چاند سے آگے مریخ تک پہنچ گئی ہم ابھی تک رجسٹر رکھ کے بیٹھے ہیں اور رجسٹر بھی وہ جس کو ختم ہوئے مدت گذر گئی ،اسی رجسٹر کی طرح ہمارا سارا نطام بوسیدہ اور میل خوردہ ہو چکا کہ کسی کو اب کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ خرابی کہاں ہے اور درستگی کی ابتدا کہاں سے کی جائے،رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں لکھی تحریر کے نیچے آرام سے رشوت دینے والا دے بھی رہا اور لینے والا لے بھی رہا ایک طرف سوئی گیس کے ایم ڈی کی تنخواہ 68لاکھ دوسری طرف کار کردگی یہ کہ گھرکا میٹر میٹر لگوانے کے لیے چار سال دھکے اور پھر سفارش کے ساتھ لاکھوں روپے کی رشوت کے بعد گھریلو میٹر لگتا ہے صرف ایک اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اپنے حالات اور جانفشانی سے ملک برباد کرنے والوں کی ایمانداری کا،اب چئیرمین نیب کی تنخواہ پی ڈی ایم سرکار نے سترہ لاکھ مقرر کی دیگر تقریبا اتنی مالیت کی مراعات اس کے علاوہ ہیں یہ چوروں کو ڈھونڈیں گے،ہسپتالوں میں مریض ایڑیا رگڑ رہے ہیں اس تختی کے پاس جس پہ لکھا ہوگاجس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا پوری انسانیت بچا لی،پچیس تیس ہزار میں بنا بنایا تیار گواہ مل جاتا ہے وہاں جہاں ہر بار اور بنچ میں لکھا ہے کہ جھوٹیٰ گواہی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے،درسگاہوں میں ناچ گانے اور بہیودگی کا راج ہے جہاں گود سے لیکر گور تک علم حاصل کرنے کا واعظ کیا جاتاہے ،انصاف وہاں نیلام ہوتا ہے جہاں جلی حروف میں تحریر ہے کہ اگر تم با اختیار ہو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو ،ایک عدالت پھانسی کی سزا سناتی دوسری اسی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرتی اور آخری باعزت بری فرما دیتی ہے کہیں کوئی باز پرس نہیں کہ کس نے غلط فیصلہ کیا پھانسی والے نے عمر قید والے نے یا باعزت بری کرنے والے نے کوئی ایک تو غلط ہے مگر کس کی مجال جو سوال اٹھا سکے ورنہ جان بچہ گھانڑ ،اگر کسی نے گستاخی کر دی سوال اٹھانے کی تو انتہائی غیر محسوس طریقے سے اسے ہی اٹھا لیا جائے گا دو دن شور شرابہ مچتا ہے پھر ستے خیراں کسی کو بھی ؂ اس سے کوئی غرض نہیں کہ نظام انصاف میں دنیا ہمیں کس نمبر پر رکھتی اور پرکھتی ہے ہماری بلا سے وہ اور ہوں گے جو دنیا کو اتنے چھوٹے موٹے معالات میں کسی خاطر میں لاتے ہوں گے،ملک کی باتیں کریں یا معاشرے کی مدرسوں اور خانقاہوں کی بھرمار دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز ہونے کا دعوی،ہر سال دس سے بارہ لاکھ طالب علم قرآن و حدیث ازبر کر کے میدان عمل میں دینے کا زعم ،یعنی ستر سالوں میں بائیس کروڑ میں لگ بھگ سات کروڑ ایسے انسان موجود جنہیں دین اسلام کی مکمل سمجھ اور بوجھ دوسروں کو تعلیم بھی دے رہے،حاجی اس ملک میں سب سے زیادہ ایران عراق زواریوں پہ جانے والوں میں بھی ہمارا پہلا نمبر ،دنیا میں تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا مرکز ہمارے پاس ،دوسرا بڑا عالمی اجتماع منعقد کرنے کا اعزاز بھی ہم رکھتے ہیں اپنے ذاتی خرچے پر چلہ چالیسوا ں اور چار چار ماہ بلکہ دو دو سال بیرون ملک تبلیغ پہ جانے میں بھی ہم سب سے آگے، محرم ہو یا ربیع الاول مجالس و میلاد منانے میں بھی کوئی ہمارا ثانی نہیں جی ہاں اس انتہا درجے کی مسلمانیت کے باوجودمگر دودھ کا ایک کلو خالص میسر نہیں جان بچانے والی کوئی گولی خالص میسر نہیں،چاولوں میں پلاسٹک مرچوں میں اینٹوں کا برادہ چاے کی پتی میں نیم کے درختوں کے پتے ہر طرف دو نمبر مال اور دو نمبریوں کی بھرماردعوی مگر زندہ قوم ہونے کا،پہلے دو پارٹٰیاں تھیں جو باری باری لوٹ مار کے لیے ہمارے سر پر سوار ہوتی تھیں اب ایک تیسری بھی میدان میں آ گئی ،کسی کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان تھا کسی کا ملک کو ایشئین ٹائیگر بنانے کااور اب والوں نے ریاست مدینہ بنانے کی ٹھان لی مگر پہلے والوں کی طرح ہر طرح کا دو نمبر گھسا پٹا تیس مار خان اپنے ساتھ ملا رکھا ہے ،ایسی قوم تیار کر دی جو اپنے ابا جی کو کہتی چپ کریں جناب آپ کو زمانے کا کب شعور ہے کہ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا،تیر ے میرے کا رولا جاری چور بھی پسند کے اور نیک متقی بھی پسند کے ،جو پسند آ گیا اس کا ڈاکہ بھی نظر انداز جو پسند نہ آیا اس کی چھینک بھی عذاب،سیاستدان خواہ پہلے والے تھے یا آج والے ایک کام پوری نیک نیتی اور ایمانداری سے کیا کہ اپنے چاہنے والوں کے جذبات کو خوب استعمال کیا ،خود جدھر اپنا فائدہ مطلب دیکھا ادھر کو ہو لیے ،بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے والے پیپلز پارٹی میں ڈپٹی پرائم منسٹر کے عہدوں تک پہنچے میاں نواز شریف کو اٹک قلعے کی کال کوٹھڑیوں تک پہنچانے کے ذمہ دار اسی میاں نواز شریف کے دور میں اس کے دائیں بائیں براجمان ہوئے مشرف کے برادر او ر کماندو سے پستول کا تحفہ پانے والے آج کے پی کے میں لیگ ن کے صدر ہیں صابر شاہ اور دوسرے جیلیں بھرنے والے پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا ہی نہیں کی مثال بنے آج بھی حسرت و یاس میں مبتلا ہیں کہ ہم کہاں تھے یا کہاں ہیں اب نئے پاسبان انقلاب نے بھی حکم صادر کیا ہے کہ سب جیل چلے جاو یہ سوچے بنا کہ ان کے گھر میں چولہا جل رہا یا نہیں اور ان کے جیل جانے کے بعد ان کے بیوی بچوں کا کیا بنے گا اپنے بچے سات سمندر پار خود جناب ضمانت پہ ضمانت لیے جا رہے مگر دوسروں کے بچوں کو حکم دیا جا رہا ہے فٹا فٹ جیل بھر لو اس کے بعد تم جانو اور تمھار ا کام،یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے دس پندرہ سال پہلے قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگایا گیا تھا لوگوں نے اپنی جمع پونجی ملک پہ نچھاور کی ماوں بہنوں نے اپنی جیولری اور بندے تک دے دیے اور خود صاحبان اقتدار ایک کروڑ روپے کا اعلان کر کے فارغ ہو گئے اسی طرح بابا ڈیم نے بھی اپنے دور میں وہ ہاہا کار مچائے رکھی کہ خدا کی پناہ اب نہ کہیں ڈیم ہے نا بابا، ماہا کو ڈائنٹنگ کا شوق جو تھا میں لے آئی صوفی،صبح اٹھے تو نہ ماہا تھی نہ صوفی ہمارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا، منافقت کا چلن اوپر سے نیچے تک عام ہے اور برابر جاری و ساری ہے ،جیسی قوم ویسے حاکم ،جیسی روح ویسے فرشتے بلکہ جیسی شکلیں ویسے تھپڑ،کچھ نئی بدلنا یہاں اپنے اپنے ہروز اور اپنے اپنے ولنز کا یہ کھیل عرصے سے جار ی ہے اور شاید مدتوں جاری رہے گا ،کمال ہے بھئی کمال ،کمال کے لیڈر ملے او رکما ل کے فالورز،جیلیں بھرو ہمارے لیے ہم ہیں تمھارے لیے ،ہم دیکھیں گے کہ کیسے آپ جیل جاتے اور کیسے پولیس کی مار کھاتے ہیں مڑ کے مت دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاوگے جیل پہنچ کے دیکھا لیڈر کی جانب تو سواے اندھیرے کے کچھ نظر نہ آیا ، لیڈر تو دور کی بات جن پہ تکیہ تھا وہ پتے ہوا دینے کو بھی موجود نہ تھے ایسے ہوتے ہیں انقلاب اور ایسے ہوتے ہیں لیڈر ،جی اگر ایسے ہوتے ہیں تو ملک ومعاشرے بھی ایسے ہی سجتے سنورتے ہیں جیسا اپنے ہاں ہو رہا،اور نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا،