کرناٹک انتخاب کی سوغات: ادریس پاشا کی ماب لنچنگ

کرناٹک کا انتخاب خونخوار مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اس ریاست میں 2018 کے اندر مویشیوں کے تاجر حسین بابا پر ایک قاتل ہجوم نے حملہ کیا اور پولیس نے انہیں ہائی وے پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ 8 جنوری 2021 کو عابد علی نامی نوجوان کو جنوبی کرناٹک کے قصبے سرینگری کے قریب رانی بینور سے 170 کلومیٹر مغرب میں زبردستی روک کرگائے کے نام پرنہاد محافظوں نے حملہ کردیا۔ اس وقت ان کے ٹرک میں 12-15 مویشی تھے ۔علی خوش قسمت تھےکہ مقامی لوگوں نے فوری طبی مدد مہیا کرائی مگر ابھی حال میں ادریس پاشا کے ساتھ یہ نہیں ہوسکا اور ایک بزدلانہ حملے میں وہ شہید ہوگئے۔ دوسال قبل علی کے ایک حملہ آور کو گرفتار کرنے کے بعد ریاستی وزیر قانون نے کہاتھا کہ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا ماب لنچنگ کی روک تھام کے لیے قانون بنایا جاتا مگر الٹا گئو کشی کے خلاف قانون وضع کیا گیا اور پھر چھ دن بعد کرناٹک کے نئے انسداد مویشی ذبیحہ آرڈیننس کے تحت علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ یعنی جو تشدد کا شکار ہوااسی کو مجرم قرار دیا گیا۔ کرناٹک سرکار اگر گئو رکشا کے نام پر مجرمانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی تو ادریس پاشا اس کا شکار نہ ہوتے۔

کرناٹک میں انتخابی گہما گہمی کے بیچ مبینہ گئو رکشکوں نے ایک مویشی تاجر اور ان کے دو ساتھیوں پر پونیت کیری ہلی کی قیادت میں حملہ کر دیا۔ ان نام نہادگئو رکشکوں کو وزیر اعظم نے بھی مجرم پیشہ قرار دیا ہے مگر کوئی سزا نہیں دیتا اس لیے وہ دندناتے پھرتے ہیں۔ ادریس پاشا اپنے ٹرک میں مویشی لے جا رہے تھے تو ان بدمعاشوں نے انہیں روکا اور تفتیش شروع کردی ۔ اس پر انہوں نے منڈی سے مویشی خریدنے کے کاغذات بھی دکھائے لیکن ان کا مقصد گائے کی حفاظت نہیں بلکہ روپیہ اینٹھنا تھا اس لیے بدمعاشوں کےگروہ نے 2 لاکھ روپے کا مطالبہ کردیا۔ اس مطالبے نے جرأتمند صحافی نرنجن ٹاکلے کے الزام کی تصدیق کردی جو انہوں نے گجرات میں سرگرمِ عمل گئو مافیا کو بے نقاب کرتے وقت لگایا تھا۔ ٹاکلے کے مطابق یہ ہجومی تشدد اور اس کی تشہیر خوف کا ماحول بناکر اس کی آڑ میں گائے کی اسمگلنگ کرنے اورنام نہاد گئو ماتا کے نام پر ہفتہ وصول کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ حکومت اپنے سیاسی اور معاشی فائدے کے لیے انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔

نرنجن ٹاکلے نے یہ انکشافات عقل کے گھوڑے دوڑا کر گمان کی بنیاد پر نہیں کیا بلکہ وہ تین مہینوں تک رفیق قریشی کے نام سے ٹرک ڈرائیور کا بھیس بدل کر گئورکشکوں سے معاملہ کرتے رہے ۔ حقیقت حال سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے بلا خوف و خطر اس گورکھ دھندے کا پول کھول دیا۔ نرنجن نے دہلی کے کانسٹی ٹیوشنل کلب میں بتایا کہ گائے سے لدے ایک ٹرک کو بحفاظت گزارنے کے لیے پاکھنڈی گئورکشک 15ہزار اور بھینسوں کے ٹرک کی خاطر ساڑھے چھے ہزار روپئے وصول کرتے ہیں۔ اس لوٹ پاٹ میں ملوث پالن پور کے بجرنگ دل رہنما چودھری تو مویشیوں کی کھال واپس لے کر انہیں برآمد بھی کرتا ہے۔ چودھری نے اعتراف کیا تھاکہ امیر گڑھ چیک پوسٹ پر روزآنہ ڈیڑھ کروڈ روپئےجمع ہوتے ہیں۔ اس میں سےگئو بھکت اور ان کے سیاسی سرپرست اپنی اپنی جیب بھر لیتے ہیں ۔ اسی مودانی ماڈل پر فی الحال ملک چل رہا ہے۔

گجرات میں گئوکشی کا قانون کرناٹک کے مقابلے سخت ہے۔ وہاں تو اس پر عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اس کے باوجود بڑودہ شہر میں پچھلے سال پولس کے لیے مویشیوں کی فلاح و بہبود بورڈ میں مصروفِ کار افسر جتن دیسائی نے اطلاع دی تھی کہ گائے اور بچھڑوں سے بھرا ہوا ایک ٹرک گولڈن چوراہے سے گذرنے والاہے۔ اس میں چارہ پانی کے بغیر ۱۲ مویشی لے جائے جارہے ہیں ۔ پولس کی تفتیش سےمعلوم ہوا کہ انہیں مذبح خانے لے جایا جارہا ہے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اجازت نامہ پر گئورکشا تنظیم کے قومی صدر بابو دیسائی کے دستخط تھےاور لکھا تھا کہ مویشیوں کو شری ناتھ جی گئوشالہ پانجرا پول مہاراشٹر میں بھجوایا جارہا ہے۔ نام نہاد گئو سیوک بابوکرسن بھائی دیسائی مبینہ طور پرمختلف میونسپلٹی سے بے سہارا گایوں کو جمع کرتا ہے۔ ان کے چارے اورحمل و نقل کا خرچ بھی سرکار سےوصول کرکے انہیں مذبح خانے کو بیچ دیتا ہے۔ اس مقدس کام کے لیے وہ گئو بھکتوں سے بھی چندہ جمع کرتا ہے۔ گائے کے نام جو بیوپار ملک میں چل رہا اس کو دیکھو ہندوتوا سے گھن آتی ہے۔

کرناٹک کے شہید ادریس پاشا نے اس ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے رقم دینے سے انکار کر دیا تو یہ خونخوار بھیڑئیے باولے ہوگئے۔ انہوں نے پہلے تو ادریس اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان جانے کے لیے کہا اور پھر جان لیوا حملہ کر دیا۔ تین لوگوں پر سرکاری تحفظ میں تیس ہتھیار بند لوگوں کا ٹوٹ پڑنا کون سی دلیری ہے؟ ان میں سے کچھ حملہ آوروں نے ادریس اور عرفان کا تعاقب کیا، جبکہ دوسروں نے کنٹینر کے ڈرائیور سید ظہیر پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ایک پولیس کانسٹیبل نے مداخلت کی اور ظہیر سمیت بدمعاشوں کے سردار کیرے ہلی کو قریبی تھانے لے گیا۔ یہاں پھر وہی الٹی منطق یعنی کیرے ہلی پر تشدد کا مقدمہ بنانے کے بجائے ظہیر اور دیگر کے خلاف گایوں کی غیر قانونی نقل و حمل کی شکایت درج ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا جس ظالمانہ قانون کے تحت علی کو گرفتار کیا گیا تھا وہی ظہیر اور اس کے ساتھیوں پر لگا دیا گیا۔ آگے چل کر جب یہ انکشاف ہوا کہ گئو رکشکوں کے حملے سےادریس کی موت واقع ہو گئی ہے تو ظہیر کی شکایت پر پولیس نے کیرے ہلی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔ اس دوران پولیس کی ملی بھگت سے ملزمین فرار ہوگئے ۔ ادریس کے رشتہ داراور رام نگر کے مسلمان اب احتجاج کرکے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ ہجومی تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کو سرکاری سرپرستی اور قانونی تحفظ حاصل ہے اس لیےان کی گرفتاری نہیں ہوتی ۔

کرناٹک میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے جنوری 2021 میں گائے کے ذبیحہ مخالف ایک سخت قانون نافذ کیا جس کے تحت جنوری 2021 میں ریاست کے اندرگائے اور بیل کی نقل و حمل، ذبح، تجارت کو غیر قانونی قراردیا گیا۔ 2021 ؤ کے اس گائے ذبیحہ مخالف قانون کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں بیف پر پابندی تو نہیں لگائی گئی مگر ہندو شدت پسندوں کو بیوقوف بنانے کے لیے ایسا مشہور کردیا گیا ۔ کرناٹک میں اب بھی بڑے جانور کا گوشت بہ آسانی دستیاب ہے کیونکہ یہ قانون دوسری ریاستوں سے بیف کی خریداری اور نقل و حمل پر پابندی نہیں لگاتا ۔ اس میں چونکہ 13 سال سے زیادہ عمر کی بھینسوں کو ذبح کرنے کی چھوٹ ہے اس لیے گوا کے لیے بڑے پیمانے پر بیف کرنا ٹک سے برآمد کیا جاتا ہے۔ ویسے گوا کے اندر بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ وہاں ایسی کسی پابندی کی روادار نہیں ہے۔ اپنے رائے دہندگان کی خوشنودی کے لیے بی جے پی نے گائے کے تقدس کو تماشا بنارکھا ہے۔گئو رکشک اس کے ذریعہ اپنی تجوری بھرتے ہیں اور ان کے پالک ای وی ایم کی شکم سیری کرتے ہیں۔

کرناٹک میں میں گائے کا گوشت رکھنا یا استعمال کرنا جرائم کی فہرست میں شامل نہیں ہے بلکہ گائے کے ذبیحہ اور بین ریاستی تجارت پر پابندی ہے۔ آرڈیننس کا سیکشن 5 حکومت کی طرف سے مقرر کردہ طریقے سے زراعت یا مویشی پالنے کے مقصد کے لیےگائے کےنقل و حمل پر پابندی نہیں لگاتا۔ پانچ سال قبل زخمی ہونے والے علی کے پاس ریگولیٹڈ مارکیٹنگ کمیٹی یارڈ کا تجارتی اجازت نامہ اور جانوروں کے ڈاکٹر کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ تھا اس لیے علی کے خلاف گائے کے ذبیحہ کاالزام نہیں لگا بلکہ غیر قانونی ٹرانسپورٹ کے شبہ کا مقدمہ تھوپا گیا تاکہ حملہ آوروں کو بچایا جاسکے ۔اس آرڈیننس کا سیکشن 13 چونکہ تمام جرائم کو قابل گرفت سمجھتا ہے، یعنی ایک پولیس افسر ایف کو آئی آر درج کر نے اور بغیر وارنٹ کے ملزم کو گرفتار کر نے کی اجازت دیتا ہے ، اس کی آڑ میں پولیس سوموٹو کیس درج کرلیتی ہے۔ ظہیر اور اس کے ساتھی کی بابت یہی ہوا۔ .ملک میں ہونے والے ہجومی تشدد کی بنیادی وجہ قانون کے اندر یہ جھول ہے کہ جو کسی بھی ایسےبدمعاش نیک نیتی کے ساتھ گائے کے ذبیحہ مخالف قانون کو نافذ کرنے کا حق دیتا ہے۔ قانون میں نیک نیتی کی وضاحت نہیں ہے جس کا مجرم پیشہ لوگوں کو فائدہ ملتا ہے۔ کرناٹک کا انتظامیہ کو بدمعاشوں کا تحفظ کرنے میں معاون ہے۔

اس قانون کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ مویشیوں کے بارے میں افواہوں کی بنیاد پر نقل و حمل کے دوران کارروائی کی اجازت دیتا ہے ۔ اسی لیے یہ بدمعاش دلیر بنے ہوئے ہیں ۔کرناٹک کے اس قانون کا سیکشن 8 کسی بھی پولیس افسر کو سب انسپکٹر یا ویٹرنری افسر کو بھی تلاشی اور ضبطی کے وسیع اختیارات دیتا ہے۔یہ شق دراصل انڈین ایویڈینس ایکٹ 1872 کے آرٹیکل 20(3) اور سیکشن 25 میں تسلیم شدہ آئینی تحفظ کی نفی ہے۔اس قانون نے گئو رکشکوں ' کو بھی مویشیوں کی نقل و حمل کی اطلاع دینے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ اس کے سہارے مارچ 2021 میں، دکشینا کنڑ ضلع کے دو مسلم ڈرائیوروں - عبدالرحمان اور محمد مصطفیٰ - پر بجرنگ دل کے25 افراد نے حملہ کردیا تھاجبکہ ان کی گاڑی خالی تھی۔ اس طرح کے قوانین مجرمین کو بچانے اور بے قصورلوگوں کوپھنسانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ادریس پاشا کی شہادت کے لیے گئورکشک بدمعاشوں کے ساتھ ایسا نامعقول قانون بنانے والے بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ یہ لوگ دنیا کی عدالت میں اگر بچ بھی جائیں تو اللہ کے یہاں ان کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227883 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.