پنجابی زبان، پٹرول اور عمران خان

جوش ملیح آبادی نے پنجابی زبان کی اکھڑ پن سے زچ ہو کر کنور مہندر سنگھ بیدی سے کہا: ’’کنور صاحب! کیا آپ جانتے ہیں کہ دوزخ کی سرکاری زبان یہی آپ کی پنجابی ہوگی‘‘۔کنور صاحب نے برجستہ جواب دیا: ’’تو پھر جوش صاحب! آپ کو ضرور سیکھ لینی چاہیے‘‘۔


جوش ملیح آبادی نے پنجابی زبان کی اکھڑ پن سے زچ ہو کر کنور مہندر سنگھ بیدی سے کہا: ’’کنور صاحب! کیا آپ جانتے ہیں کہ دوزخ کی سرکاری زبان یہی آپ کی پنجابی ہوگی‘‘۔کنور صاحب نے برجستہ جواب دیا: ’’تو پھر جوش صاحب! آپ کو ضرور سیکھ لینی چاہیے‘‘۔

ایسا ہی کچھ معاملہ پاکستان میں حکومت کرنے والوں کا ہے۔ جو مہنگائی ، بے روزگاری اور امن و امان پر کنٹرول کی بجائے عوام کو متبادل کھانے ، پٹرول کے کم استعمال اور انہیں رات تنہا باہر نکلنے سے منع کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن مہم کے دوران موجودہ حکمران جماعت کا کہنا تھا کہ پٹرول مہنگا ہو تو سمجھ لیں حکمران چور ہیں۔ مگر اب اپنے دور میں پٹرول عالمی مارکیٹ میں سستا ہونے پر پاکستان میں مہنگا کرکے عوام کو پٹرول کا استعمال کم کرنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔ اس سے شہریوں کو ہرسیاسی جماعت کی الیکشن مہم کے دوران ان سے کئے وعدوں اور دعووں پر سے اعتماد مزید کم ہوتا نظر آتا ہے۔ لگتا ہے کہ اس بار الیکشن بائیومیٹرک تو ہوں گے مگر انکی کمپین سوشل میڈیا تک محدود ہو کر رہ جائے گے۔ سیاسی رہنما کس منہ سے غریب عوام کے گھر ووٹ مانگنے جائیں گے جن پر زمین مزید تنگ کی جا چکی ہے۔ اسکی ذمہ دار صرف موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی ۔ جن کے گھر سرکاری خرچ پر راشن پہنچتا ہے یا مراعات اتنی ہیں کہ نوکر خریداری کر کے گھر کا سامان لاتے ہیں ان امیر حکمرانوں کو کیا معلوم کے پٹرول اور ڈیزل مہنگا کرنے سے مہنگائی بڑھتی ہے یا نہیں۔ اس سے کھانے کے تیل کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ سرکاری گاڑیوں پر سفر کرنے والوں کو کیا معلوم کے پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ کیوں بڑھتا ہے۔ اشیاخوردونوش یوٹیلٹی سٹورز پرسبسٹی پر ملیں گی، بیانات کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر یہ کب ملیں گی؟ کب وہاں اسکا اسٹاک یقینی بنایا جائے گا؟۔ لائن اس بار کتنی لمبی ہو گی؟۔ یہ کچھ معلوم نہیں۔ پھر بھی شوق حکمرانی ہے جو آنکھوں پر پٹی باندھے ہے۔ ان آنکھوں کو غریب کا درد کیسے نظر آسکتا ہے؟۔ ظلم کی انتہا کے بعد جب حکمرانوں کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے تو انہیں کیسے کسی شہری کے شب و روز کے درد کا احساس ہو سکتا ہے؟۔

عوام اب چاہتی ہے کہ مہنگائی کم ہو۔ انکی آمدن میں اضافہ ہو۔ انکی حالت زار بہتر ہو۔ انکے بچوں کو معیاری تعلیم گھر کے نزدیک ملے۔ انکی جان و مال کا تحفظ ہو۔ وہ ہر ماہ دوکان پر جائیں تو دوکاندار یہ نہ کہیں کہ کھانے کا تیل، دالیں، ڈبل روٹی، آٹے چینی کی قیمت میںاچانک پچاس فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وہ اب سکون چاہتے ہیں مگرقبر میں جانے سے پہلے۔ انکے پاس گاڑیاں نہیں وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا چاہتے ہیں مگرکرائے اتنے ہوں کہ وہ انکی آمدن کے تناسب سے ادا کرنے کے قابل ہوں۔
وہ صحت کارڈپر شکریہ تو ادا کرتے ہیں مگر اپنے بچوں کی صحت کے ساتھ تعلیم بھی چاہتے ہیں۔ہر ضلع میں یونیورسٹیوں کا قیام ضروری ہے مگر وہاں تمام ضروری سہولیات بھی چاہتے ہیں تاکہ معیاری تعلیم ہو مقداری نہیں۔ گاڑی والے بھی اب توموٹروے پر سفر کرنا چاہتے ہیں مگر ٹول ٹیکس اتنانہ ہو کہ بس کے کرائے سے بھی زائد ہو اور بس بس ہو جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی الیکشن کمپین کی تقریروں کو سنیں ۔ شاید کہ انہیں وہ وعدے یاد آئیں جو انہوں نے پاکستانیوں سے کئے تھے۔ شاید وہ خواب انہیں دیکھائی دیں جو انہوں نے معصوم شہریوں کو کمپین کے دوران دیکھائے تھے۔ شاید وہ چہرے پہچان سکیں جو ویل چیئر پر بھی انکے جلسے جلوسوں میں دور دراز سے پہنچے تھے۔ شاید کہ وہ اس طرح ہی یاد کریں کہ وہ کون سی ٹیم تھی جسکا انہوں نے بتایا تھا کہ وہ معثیت کو بہتر بنا سکتی ہے۔ شاید کہ یونہی انہیں ملک میں امن و امان بہتر کرنے کا خیال آجائیں ۔ کوئی ان سے یہ نہ کہے کہ رات خواتین گھر سے باہر نہ نکلیں اور انہیں پورے کپڑے پہننے ہیں کیونکہ ریاست انکی حفاظت نہیں کر سکتی۔ اپنی الیکشن کمپین کی ویڈیوز نہیں دیکھنی تو پھر صاف بتا دیں ۔ عوام اسی حال میں جی جی کے مرنا سیکھ لیں۔ ۔۔!

 

M. Kamran Saqi
About the Author: M. Kamran Saqi Read More Articles by M. Kamran Saqi: 6 Articles with 3671 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.