بھٹنڈا میں موسم اور بجنور میں حالت خراب

دس جنوری کو مغربی اترپردیش سے رائے دہندگی کا آغاز ہوگیا۔ یہاں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گایہ جاننے کے لیے۷؍فروری کو بجنور میں پیش آنے والا واقعہ مددگار ہوسکتا ہے۔ اسے سمجھنے کی خاطر ۶؍ جنوری سے ۷؍ فروری کے درمیان واقع ہونے والی تبدیلیوں کا علم ضروری ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’کیا سے کیا ہوگیا، بے وفا اس انتخاب میں ‘؟ تفصیل یوں ہے کہ ۶؍ جنوری کو وزیر اعظم نے فیروز پور میں ایک جلسۂ عام کو خطاب کرنےکاارادہ کیا ۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق اس پورے ہفتہ آسمان پر بادل رہنے والے تھے ۔ ایک دن پہلے بارش بھی ہوچکی تھی اس لیے انہیں اپنا دورہ رد کر کے ورچول ریلی پر اکتفاء کرلینا چاہیے تھا مگر مودی جی نے بھٹنڈا کا قصد فرمایا کیونکہ ان کو شاید کسی نے کہہ رکھا ہے’ ضد کے آگے جیت ہے‘۔ فوجی ہوائی اڈے پر اترنے کے بعدانہیں بتایا گیا کہ اس موسم میں ہیلی کاپٹر اڑ نہیں سکتا ۔ اس لیے واپس چلے جائیں لیکن اڑ گئے میں سڑک سے جاوں گا۔ وزیر اعظم کا حفاظتی پروٹوکول اتنے طویل سڑک سے سفر کی اجازت نہیں دیتا لیکن مودی جی تو صرف ’اپنے من کی بات‘ مانتے ہیں ۔ اس لیے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ وہ سڑک پاکستان کی سرحد سے بالکل قریب تھی لیکن جس کا سینہ 56 ؍ انچ کا ہو وہ بھلا کسی کی پرواہ کب کرتا ہے؟

عزم و حوصلے کے اس کارواں کو پندرہ بیس منٹ کے لیے کسانوں کے ایک جلوس کے سبب موگا فیروزپور پُل پر رک جانا پڑا حالانکہ ان کسانوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ وزیر اعظم کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود وزیر اعظم جان بچا کر لوٹ آئے اور اس کے لیے انہوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا شکریہ ادا کروایا۔ واپس آنے کی بابت یہ گمان غالب ہوگیا کہ انہیں راستے میں پانچ لاکھ کرسیوں پر پانچ ہزار لوگوں کی موجودگی کاپتہ چل گیا۔ اس لیے خالی پڑی ہوئی کرسیوں سے نظر بچانے کی خاطر موصوف لوٹ آئے اور جان بچانے والی بات تو محض ایک جملہ تھا ۔ کون جانتا تھا کہ ایک ماہ بعد یہی کہانی مودی جی کی حالیہ کرم بھومی اترپردیش میں نہایت بھونڈے انداز میں دوہرائی جائے گی ۔ ۷؍ فروری کوبجنور میں مودی جی اپنی پہلی انتخابی ریلی سے خطاب کرنے والے تھے لیکن اس کو انہوں نے گھر سے نکلت بغیر رد کردیا ۔

ایسا کیوں ہوا؟ کہاں گیا وہ جوش و خروش ؟؟ وہ ضد کہاں چلی گئی جس نے موسم کی خرابی کے باوجود پروٹوکول کو پامال کرکے مودی جی کو میدان میں اتار دیا تھا جبکہ بجنور کادرجۂ حرارت تھا21ڈگری سینٹی گریڈ تھا اور دھوپ کھلی ہوئی تھی یعنی موسم نہیں حالت خرابی رکاوٹ بن گئی ۔ دہلی سے بجنور کا فاصلہ کل 142 کلومیٹر ہے یعنی بھٹنڈا سے فیروز پور کے درمیان فاصلے سے بھی کم ہے۔ ایسے میں اگر ہیلی کاپٹر سے جانے میں دقت تھی تو وزیر اعظم سڑک کے راستے جاسکتے تھے اور پھر ان کا رڈار تو بالاکوٹ جانے کے لیے بادلوں کے اندر سے بھی دیکھ لیتا ہے اس لیے پریشانی کیا تھی؟ بجنور سے لکھنو کا فاصلہ 331 کلومیٹر ہے یعنی تقریباً ڈھائی گنا اس کے باوجود یوگی جی پہنچ گئے ۔ اب ایسا بھی نہیں کہ یوگی جی نےسائیکل یا ہاتھی پر بیٹھ کر یہ سفر کیا ہو؟ اترپردیش کی پولس تو کسی مخالف وزیر اعلیٰ کے تحت بھی نہیں ہے۔اس لیے جان کے بچنے کا شکریہ ادا کرنے کی نوبت بھی نہیں آتی۔تب پھر مودی جی کیوں نہیں گئے؟ اس سوال کے جواب میں مغربی اترپردیش کے اندر بی جے پی کی حالت کا راز چھپا ہوا ہے۔

مودی جی کے پنجاب سے بیرنگ لوٹنے پر یوتھ کانگریس کے رہنما سری نواس نے ٹویٹ کیا تھا :’مودی جی جوش کیسا ہے؟‘(ہاو از دی جوش)۔اس پر بی جے پی والوں نے بڑی ہائے توبہ مچائی اور وزیر اعظم کی حفاظت میں منصوبہ بند خلل کا الزام لگایا مگر ایک ماہ بعد اس سوال کا بلاواسطہ جواب مل گیا کہ جوش ٹھنڈا ہوچکا ہے۔ جوش وولولہ کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلی تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق بچھائی جانے والی ڈیڑھ ہزار کرسیاں پرُ نہیں ہوسکی تھیں ۔ دوسری اہم ترین وجہ یہ تھی کہ امیت شاہ کی تمام تر کوشش کے باوجود مغربی اترپردیش میں اس بار جاٹوں کو مسلمانوں سے لڑایا نہیں جاسکا۔ اس سے پریشان ہوکر یوگی نے مسلمانوں کو درپردہ دھمکی دی کہ دس مارچ کے بعد ساری گرمی نکال دوں گا اور مئی میں شملہ بنادوں گا ۔ اس کو بڑی چالاکی سے جینت چودھری نے جاٹوں کی موڑ کر سمجھایا کہ یہ بیان تمہارے خلاف ہے۔ جینت نے ان سے ووٹ کے ذریعہ ساری چربی نکال دینے کی اپیل کردی۔ اس طرح بی جے پی کومغربی یوپی میں نظر آنے والی شکست وزیر اعظم کے پیروں کی زنجیر بن گئی۔

پہلے مرحلے میں اترپردیش کے 58 ؍نشستوں پر انتخاب ہورہا ہے ۔ پچھلے انتخاب میں ان میں سے53 ؍سیٹیں بی جے پی نے جیت لی تھیں۔سماجوادی اور بی ایس پی کو دودو اور آر ایل ڈی کا ایک امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ اس غیر معمولی کامیابی کے پیچھے جاٹوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف پیدا کی جانے والی نفرت کارفرما تھی جس کو بی جے پی نے خوب ہوا دے کر اپنے حق میں بھنایا۔ کسان تحریک نے یہ دیوار گرادی اور اب راکیش ٹکیت کی آواز پر جاٹ اور مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کر بی جے پی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس جاٹ سماج کے اندر مسلمانوں کے حوالے سے جو نفرت تھی وہ بی جے پی کے تئیں ہوگئی۔ اس غم و غصہ کی کئی وجوہات ہیں ۔ مثلاً کسان تحریک کے تعلق سے مودی سرکار کا معاندانہ رویہ ۔ مرکزی حکومت نے بڑی ردوّکد کے بعد بادلِ نخواستہ تین کالے قوانین تو واپس لے لیے مگر اس کے ساتھ کیا جانے والا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ نہ کسانوں پر دائر مقدمات واپس ہوئے اور نہ ایم ایس پی کے لیے مجوزہ کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی۔

اس معاملے میں وزیر زراعت نریندر تومر نے یہ کہہ کر مزید شکوک و شبہات پیدا کردیئے کہ وہ زراعتی اصلاحات کی جانب اہم ترین اقدام تھا اور ہم حکمت کے تحت ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ دوبارہ اسے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اس طرح کی بیان بازی نے کسانوں کی نظرمیں سرکار کی مٹی پلید کرکے اس فائدے پر خاک ڈال دی کہ جو ان قوانین کی واپسی سے اٹھایا جاسکتا تھا۔ ویسے لکھیم پور کھیری میں اجئے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کے ذریعہ کسانوں کو کھلے عام کچل دینے کا منظر بھی کسان کیسے بھول جائے ؟ دورانِ انتخاب آشیش مشرا کی ضمانت نے کسانوں کت زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا ہے۔ کسانوں کے حوالے سے مودی سرکار کی بے حسی بھی اپنی مثال آپ تھی۔ سات سو سے زیادہ کسانوں نے تحریک کے دوران جان گنوائی مگر لتا منگیشکر کی خاطر ممبئی جانے والے وزیر اعظم نےہمدردی کا ایک ٹویٹ تک نہیں کیا۔ بی جے پی رہنماوں میں سے کسی نے موت کا سرے سے انکار کردیا اور کوئی یہ دلیل دینے لگا کہ کیا کسانوں کاتحریک سے باہر انتقال نہیں ہوتا؟ گویا یہ معمول کے مطابق ہونے والی اموات تھیں۔ اس پر میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک نے جب وزیر اعظم کو سمجھانے کی کوشش کی توموصوف نے الٹاسوال کردیاکہ’ کیا میرے لیے مرے؟ ‘۔کسان اگر ان کے لیے نہیں تو کیا لتا جی ان کے لیے مری تھیں جو اتنا لمبا سفر کردیا۔ مودی جی کے اس اہانت آمیز سلوک کو جاٹ کیسے بھلا دیں گے؟

وزیر اعظم کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ انہوں نے2017 کے انتخاب سے قبل دوہفتوں کے اندر گنا کسانوں کے بقایا جات چکانے کا وعدہ کیا تھا ۔ اس کے علاوہ چودھری چرن سنگھ کے نام پرٹرسٹ بناکر کسانوں کے مسائل حل کرنے کا عہد کیا تھا ۔ یہاں تک کہ چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن دینے کی با ت بھی کی گئی تھی ۔ پچھلے پانچ سالوں تک انہیں بھولنےکےبعد جب موقع آیا تو کلیان سنگھ کوپم بھوشن دے دیا گیا حالانکہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے معاملے میں انہیں سزا سنائی تھی۔ اس طرح وعدہ خلافی پہ وعدہ خلافی کے بعد اس بات کی توقع کیسے ممکن ہے کہ لوگ پھر سے اسی جال میں پھنس جائیں گے ؟ایک دوبار تو عوام کو جھانسے میں آسان ہے مگر بار بار لوگوں کو بیوقوف بنا لینا مشکل ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کو یہی مشکل درپیش ہے۔ اتفاق سے ان کے شاہ اور یوگی جیسے ساتھی جو پہلے دوسروں کو لڑانے کا کام کرتے تھے فی الحال ایک دوسرے سے بر سرِ پیکا رہیں۔ ایسے میں بعید نہیں کہ ان دونوں کی لڑائی خمیازہ مودی جی کو بھگتنا پڑے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1236306 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.