حرص و ہوس میں ڈوبی قیادت

باب ووڈ ورڈز نے اپنی حالیہ کتاب ''اوبامہ کی جنگ'' میں پاکستانی قیادت سے متعلق حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق ڈ ائریکٹر سی آئی اے کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ پاکستان کی فضائیں ہماری ملکیت ہیں اور پاکستان میں ہمارے تین ہزار فوجی موجود ہیں۔80 فیصد امریکی حملے پاکستان میں کیے جاتے ہیں اور یہاں امریکہ کے خفیہ اڈے بھی موجود ہیں۔ جنرل کیانی نے زیادہ جھکنے کا تاثر نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی پوری توجہ بھارت پر ہے زرداری نے سی آئی اے کے سربراہ سے کہا کہ انہیں شہری ہلاکتوں سے ہرگز کوئی مسئلہ نہیں۔

قومے فروختند چہ ارزاں فروختند۔ یعنی قوم کو بیچا بھی تو کتنے سستے داموں ۔ یہ آزاد وطن جسے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا اسے حرص و ہوس میں ڈوبی قیادت نے یوں بیچا کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔ دور غلامی میں غلاموں کی منڈیاں لگاکرتی تھیں اور ہر بکنے والے غلام کو پتہ ہوتا تھا کہ اس کا سودا کتنے میں ہوا لیکن ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کس نے ہمارے کتنے دام وصول کیے۔ ہم جو ملی نغموں سے خود کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں ایسے بدنصیب لوگ ہیں کہ ہمارا بار بار سودا ہوا' بار بار بیچے گئے لیکن آج بھی اس گمان میں مبتلا ہیں کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ ہمارے حکمران بڑھکیں مارتے رہتے ہیں کہ کسی کو اپنی خودمختاری سے نہیں کھیلنے دیں گے۔ اپنی آزادی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اگلے ہی روز امریکی ڈرون کہیں سے اڑتے ہیں ہماری ''آزاد'' فضاؤں کو روندتے ہوئے ہماری سرزمین پر میزائل مارتے ہیں اور دو چار روز گزرنے کے بعد ہمارے حکمران پھر سے وہی الاپ شروع کر دیتے ہیں کہ ہم اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ اگر باب ووڈ ورڈز نے یہ لکھا ہے کہ پاکستان کی فضائوں پر ہمارا کنٹرول ہے تو کیا غلط لکھا ہے۔ کیا یہ بات ایک طویل عرصے سے ہمارے مشاہدے میں نہیں آرہی کہ امریکی ہماری فضائوں کو بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور ڈرون حملوں میں ہمارے ہزاروں لوگوں کو مار چکے ہیں۔ ایک اسی پر کیا موقوف ہمارے حکمرانوں نے تو قوم کی بیٹیاں تک بیچ دیں اور آج ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے تو نہیں پتہ عافیہ صدیقی کو کب ہماری سرزمین سے اٹھایا گیا ' کس نے اٹھایا اور کیوں اٹھایا؟ یہ الفاظ ایک ایسے غاصب کے ہیں جس نے رات کے اندھیرے میں حکومت اور آئین پر شب خون مارا۔ پورے نو سال خود کو قوم کا نجات دہندہ اور د لیر حکمران ثابت کرتا رہا لیکن اسے یہ بھی ''علم'' نہیں کہ عافیہ صدیقی کو کس نے اٹھایا اور کیوں اٹھایا اس لئے کہ عافیہ صدیقی اس کی اپنی بیٹی نہیں تھی اس نے ماضی کی خاتون اول کے بطن سے جنم نہیں لیا تھا۔ وہ کسی جنرل کی بیٹی نہیں تھی ایک عام پاکستانی عورت تھی۔ ایک غلام قوم کی بیٹی تھی اسی لئے امریکیوں نے کئی سال تک اسے جنگلی جانوروں کی طرح بھنبھوڑا۔ بگرام جیل میں اس کے ساتھ کئی سال تک وحشیانہ سلوک کرتے رہے اور جب مریم ریڈلی نے انکشاف کیا کہ بگرام جیل کی ایک تنگ و تاریک کو ٹھڑی سے ایک عورت کے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی ہیں اور وہ پاکستانی عافیہ صدیقی لگتی ہے تو امریکیوں نے اعتراف کیا کہ عافیہ صدیقی ان کی تحویل میں ہے۔

ایک مظلوم عورت کو اس کے تین معصوم بچوں سمیت اٹھالیا گیا اور وقت کا حکمران پرویز مشرف کہتا ہے کہ اسے تو پتہ ہی نہیں کہ عافیہ صدیقی کو کب اٹھایا گیا تھا۔ وہ شخص کہ جو قوم کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتا ہے کہ امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے اور کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہے۔ کتنی آسانی سے یہ بات کہہ گیا کہ اگر عافیہ صدیقی کو اس کے دور میں اٹھایا بھی گیا تھا تو وہ کیا کرے؟ گویا اس کے دور میں امریکی آدھے پاکستانیوں کو اٹھا کر لے جاتے تو بھی پرویز مشرف کو اعتراض نہ ہوتا۔ دوسری جانب اسی ''دلیر حکمران'' کابنایا ہوا وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کہہ رہا ہے کہ اس نے تو پرویز مشرف کو بتا دیا تھا کہ امریکی عافیہ صدیقی کو اٹھا لے گئے ہیں۔ گویا اس کی ذمہ داری صرف اتنی ہی تھی کہ وہ پرویز مشرف کو بتا دیتا حالانکہ جمالی نے بھی اگر قوم کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھا ہوتا تو ایک لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر مستعفی ہو جاتا۔

ایک سیدھی سی بات ہے کہ جو ہر اس شخص کو معلوم ہوتی ہے جس کے سر پر حکمرانی کا تاج رکھا جارہا ہوتا ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ اسے امریکہ کی غلامی کرنا پڑے گی اس کے باوجود وہ خوشی خوشی نہ صرف حکمرانی قبول کرلیتا ہے بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی حکمرانی طویل سے طویل تر ہو جائے۔ ذرا تصور کریں کہ جس باحمیت شخص کو پتہ ہو کہ فلاں عہدہ حاصل کرنے کے بعد اسے اپنی قوم کا سودا کرنا پڑے گا اور بار بار کرنا پڑے گا۔ اپنا ضمیر بیچنا پڑے گا۔ اپنے ایمان کا سودا کرنا پڑے گا کیا وہ ایسا عہدہ قبول کرے گا۔ ہماری دانست میں کوئی بھی باضمیر اور باحمیت شخص کبھی ایسا نہیں کرے گا۔

سو اس بات کو اگر معیار یا کسوٹی بنالیا جائے تو سارا منظر نامہ واضح ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے اقتدار میں دیکھا یا جنہوں نے برسوں ہم پر حکمران کی وہ کس قماش کے لوگ تھے اور جو لوگ ماضی کے بعض حکمرانوں کے بارے میں ''فتوے'' دیتے ہیں کہ فلاں بہت شریف آدمی تھا' فلاں بڑا محب وطن تھا وہ قوم کو فریب دیتے ہیں اور اپنے ہی لفظوں کی توہین کرتے ہیں۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 45255 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.