کرپشن

سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنی سالانہ رپورٹ 2010ء میں کہا ہے کہ حکومت ٹیکس اصلاحات اور سرکاری اداروں کی تشکیل نو میں ناکام رہی جبکہ مالی خسارہ اور مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے۔ معیشت کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے جس کے باعث بھرپور انداز میں اصلاحات شروع نہ ہوسکیں۔ دوسری جانب عالمی شہرت یافتہ تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے دعویٰ کیا ہے کہ صرف بارہ ماہ کے عرصے میں اس نے 300ارب روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی لیکن نیب اس معاملے سے لاتعلق رہا۔ تنظیم کے دعوے کے مطابق سب سے زیادہ کرپشن کرائے کے بجلی گھروں میں ہوئی جبکہ ای او بی آئی' این ایچ اے' پیپکو' او جی ڈی سی ایل میںبھی بے ضابطگیاں ہوئیں۔

ٹیکس اصلاحات اور سرکاری اداروں کی تشکیل نو میں ناکامی کو اگر وسیع تر کنیوس میں دیکھا جائے تو معاشی تنزلی کی اور بھی ان گنت وجوہات نظر آتی ہیں جس میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اڑھائی سالوں کے دوران غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار رہی اور اسے یکسوئی کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اس حوالے سے دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر حکومت کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو وہ کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیتی اور دوسری رائے یہ ہے کہ اگر اسے اس یقین کے ساتھ کام کرنے دیا جاتا کہ وہ پانچ سال پورے کریگی تو وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی تھی۔ جہاں تک ہماری رائے کا تعلق ہے تو ہم مفروضوں میں پڑے بغیر یہ بات بلاخوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ اڑھائی سالوں کے اس عرصے میں مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت کے لئے جو مسائل پیدا کئے گئے اور افواہوں کا بازار گرم کیا گیا اس سے حکومت کو کم اور عوام کو زیادہ نقصان پہنچا۔

جو لوگ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث رہے انہیں اگر ذرا برابر بھی اس امر کا احساس ہوتا کہ اس قسم کی پریکٹس ملک اور قوم کے لئے نقصان دہ ہوگی تو وہ حکومت کے لئے اس قدر مسائل پیدا نہ کرتے۔ گویا بنیادی معاملہ احساس کا ہے جس سے وہ طبقات عاری ہیں جن کے اپنے گھر کا چولہا اچھے برے حالات میں جلتا رہتا ہے اور وہ روٹی' کپڑے سے بے نیاز ہو کر حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ہی مگن رہتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک غیر مستحکم اور کمزور حکومت عوام کو کچھ ڈلیور نہ کر پائے گی۔

دیکھئے ایک بہت ہی سیدھی سی بات ہے کہ اگر حکومت کو اعتماد کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا۔ مختلف مدوں میں سرمایہ کاری ہوتی' روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے اور مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آکر یوں اودھم نہ مچاتا۔

اگر حکومت مستحکم ہوتی تو کاروبار زندگی احسن انداز میں آگے بڑھتا اور حکومت کی ٹیکس وصولی کی شرح بھی بہتر رہتی۔ اس کے برعکس اعتماد سے محروم حکومت نے ہر کام ڈرتے ڈرتے کیا۔ بڑے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں اس خوف سے نہ لایا جاسکا کہ اگر یہ طبقہ بھی حکومت کے خلاف ہوگیا تو حکومت کی مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔

پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کسی بھی جمہوری حکومت کو استحکام کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یوں ہر جمہوری حکومت اعتماد سے محروم رہی اور اس میں آمرانہ جراثیم سرایت کرتے گئے۔ ہر خوفزدہ وزیراعظم ایسے مشیروں کے نرغے میں رہا جو غلط مشورے دینے کے فن میں طاق تھے اور حکمرانوں کو بتاتے تھے کہ انہوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ کس انداز میں نمٹنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی زندگی اجیرن بنانے میں جہاں حکمرانوں کا ہاتھ ہے وہیں ان لوگوں کا بھی ایک بڑا حصہ ہے جو ذرا ذرا سی بات پر افواہوں کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔ اس معاملے میں الیکٹرانک میڈیا کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ مقابلے کی دوڑ میں شامل بعض ٹی وی چینل اپنے مفادات کے لئے قوم کے مفادات کو نظرانداز کرتے رہے اور اپنی ''ویورشپ'' بڑھانے کے لئے ہیجانی کیفیت پیدا کرتے رہے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے دور میں ایک ہفتہ بھی سکون اور آرام سے نہ گزرا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن سے متعلق جو رپورٹ پیش کی ہے وہ بھی اپنی جگہ درست ہے کیونکہ غیر یقینی کی فضا اور افواہوں کے ماحول میں کرپشن زیادہ تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ ہر آدمی سوچتا ہے کہ آنے والے کل میں نہ جانے کیا حالات ہوں اس لئے جس قدر مال سمیٹا جاسکتا ہے سمیٹ لیا جائے اور پھر جس ملک میں کرپشن بطور کلچر فروغ پا چکی ہو اس ملک میں تو افواہیں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ دیکھا دیکھی کے اس کلچر میں وہ لوگ بھی کرپشن میں ملوث ہو جاتے ہیں جو فطری طور پر کرپٹ نہیں ہوتے۔ جان پہچان والے لوگوں کے طرز زندگی میں تبدیلی' ان کی کاریں اور بنگلے ایک اچھے خاصے شریف آدمی کو بھی پریشان کر دیتے ہیں' اسے گھر والوں کی طرف سے طعنے سننے پڑتے ہیں اور ''ایمانداری'' کے جھٹکے کھا کھا کر جب وہ ہلکان ہو جاتا ہے تو بالآخر بدعنوانی کا سہارا لے لیتا ہے۔

بنیادی طور پر کرپشن ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اخراجات کے مقابلے میں کم آمدنی' رشتہ داروں اور دوستوں کے طرز زندگی میں اچانک تبدیلی' ملکی حالات کے حوالے سے بے یقینی' روزگار کے حوالے سے بے یقینی' معاشی اور سماجی عدم مساوات' کرپٹ لوگوں کے باعزت ہونے کا کلچر' بیوی بچوں کے طعنے' بڑھتی ہوئی مہنگائی' سکڑتی ہوئی آمدنی اور ایسے لاتعداد عوامل کرپشن کو جنم دیتے اور اس کے فروغ کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔ یہ برائی پڑھے لکھے لوگوں کے علمی مباحث سے نہیں عملی اقدامات سے ختم ہوگی جس کے لئے ضروری ہے کہ سماجی اور معاشی انصاف سے کام لیا جائے اور حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کا شیطانی کھیل بھی ختم کر دیا جائے تاکہ اس ملک کے غریب عوام حلال ذرائع سے روزی کما اور اپنے بچوں کو کھلا سکیں۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 45248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.