پٹرول کیلئے لائنیں تو صرف تجرباتی ہیں ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

لفظ ”بحران“تو پاکستانی عوام کی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے لیکن اب تو ہمیں بحران در بحران کا سامنا ہے مگر ہم ایسے صابر شاکر ہیں کہ الہ ماشاءاللہ .... اس قوم کو چند ساعتوں کے لئے دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ، ڈرون حملوں اور بم دھماکوں یا خود کش حملوں سے نجات اور سکھ کا سانس بھی میسر نہیں آتا کہ قدرتی آفات اس کے گرد گھیرا تنگ کر لیتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدرتی آفات، دہشت گردی اور بحران اس قوم کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اور پھر ”منافع بخش کاروبار سیاست“ کرنے والوں کو اللہ رب العزت نے ایسی کمال بصیرت عطا کی ہے کہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں، ملک خطرات کی زد میں ہو چاہے ’خطہ پاک ‘پر قدرتی آفات نے ڈیرے ڈالے ہوں، کاروبار سیاست سے وابستہ ’دانائے ہنر‘ عوام کی رسوائی اور اپنی کمائی کا ذریعہ تلاش کرنے میں حیران و پریشان نہیں ہوتے کیونکہ اس کام کے لئے اُنہوں نے اس بے چاری اور غموں کی ماری قوم کا انتخاب جو کر رکھا ہے۔ گزشتہ روز معمول کے مطابق گھر سے دفتر کی طرف نکلا تو راستے میں آنے والے کوئی درجن بھر پٹرول پمپ اپنا ہی نظارہ پیش کر رہے تھے کہ جہاں سے لوگ کبھی بڑی آسانی کے ساتھ گورنمنٹ کو آدھی سے بھی کم قیمت میں پڑنے والا پٹرول 68روپے لیٹر میں حاصل کرلیا کرتے تھے اب تقریباً سبھی سنسان پڑے تھے البتہ ایک آدھ کا منظر مختلف تھا جہاں لوگ سیلاب متاثرین کی طرح قطاروں میں کھڑے تھے۔ پٹرول کی مہنگے داموں فروخت کی اس کھلی لوٹ مار اور ڈکیتی پر بھی اس قوم کو ناگواری کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ ہمارا یہ احساس تو کب کا ’مرحوم‘ہو چکا۔ اب چند روز سے پاکستان کے اکثر حصے میں پٹرول کی مصنوعی قلت جسے عرفِ عام میں کمائی کا ذریعہ کہا جاتا ہے، پیدا ہوچکی ہے۔ لاہور میں 300سے زائد پٹرول پمپ تو سرے سے بند ہیں جو درجن بھر کھلے ہیں وہاں پر لوگوں کا ہجوم اسقدر بڑھ رہا ہے کہ پٹرول کے ’قیمتاً‘ حصول کے لئے بھی نوبت مارکٹائی تک آ چکی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ پٹرول کی قلت پارکو اور بوسیکار کی بندش سے پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان بھر میں60لاکھ لیٹرسے زاید یومیہ تیل سپلائی ہوتا ہے جس کا 40فیصد حصہ پارکو پورا کرتی ہے۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پارکو آئل ریفائنری زیر آب آ چکی ہے جس سے تیل کا بحران پیدا ہوا مگر ’واقفان حال‘ تو کوئی اور ہی سٹوری سناتے ہیں جس میں بڑا وزن ہے۔ آپ دیکھیں کہ وہ محترم ہستیاں جو اس ملک کی تقدیر کے فیصلے صادر کرتی ہیں چاہے وہ منتخب ایوانوں میں موجود ہیں یا پس پردہ رہ کر لوگوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی ہیں ، کم و بیش ہر کوئی درجنوں پٹرول پمپوں کی مالک ہیں جو یک جنبش پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے صرف پٹرول کی قیمتیں ہی اوپر نیچے کر کے کمالیتی ہیں۔ اس مصنوعی بحران کے پس منظر میں بھی وہی چہرے نظر آئیں گے۔ ایک ’باخبر ‘ دوست کا کہنا ہے کہ آنے والے چند روز تک پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے والا ہے۔ امید ہے کہ لائنوں میں گھنٹوں کھڑے رہنے اور دھکے کھا کر ایک دو لیٹر پٹرول حاصل کرنے والے غریب غربا، لوگ ہنسی خوشی یہ اضافہ بھی قبول کر لیں گے۔ زیادہ سے زیادہ دل میں حکمرانوں کو برا بھلا کہہ لیں گے کہ برائی کو دل سے برا سمجھنا بھی تو ایمان کا آخری درجہ کہلاتا ہے۔ ایک بات بڑی واضح ہے کہ ملک میں تیل کا بحران نہیں تو پھر لگتا ہے کہ یہ سب کچھ عوام کا ’سٹیمنا‘ دیکھنے کے لئے ہے کہ وہ کتنی لمبی لائن میں کتنی دیر تک کھڑے ہو سکتے ہیں اور تیل کے حصول کے لئے وہ کس حد تک لڑ جھگڑ سکتے ہیں۔کہیں یہ آئندہ آنے والے چینی ، پانی ، بجلی اورگیس کے بحران کے نتیجے میں لگنے والی لائنوں کی پریکٹس کروانے کے لیے تو نہیں؟پیشگی اطلاع ہے کہ پٹرول کے بحران کو آخری بحران سمجھنے والے بڑی غلطی پر ہیں کیونکہ آنے والے چند دنوں تک بجلی ، گیس ، آٹا ، چینی او ر دیگر ضروریات زندگی جو ہر امیر غریب گھر کی بنیادی ضرورت کہلاتی ہے کا شدید بحران پیدا کیا جائے گا کیونکہ بدمزگی اور انتشار کے لیے ہجوم کی ضرورت ہوتی ہے اور ہجوم بھی تب ہی اکھٹا ہوتا ہے جب کوئی کھیل تماشہ شروع ہو۔ کھیل تماشہ شروع ہونے کو ہے۔۔۔ پھر یہ سارے بحران اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ہجوم اُسی ’ضرورت ‘کو پورا کرنے کے لیے تو نہیں۔۔۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 45141 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.