اللہ کی عدالت میں عافیہ کی اپیل ۔۔۔فیصلے کا انتظار

عافیہ صدیقی اگر برطانیہ اور کینیڈا کی شہری ہوتی تو وہ آج آرام اور سکون سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ زندگی کے دن گزار رہی ہوتی۔ عافیہ صدیقی اگر اسلام دشمن اور تعصب سے بھرے آسٹریلیا کی شہری بھی ہوتی تو بھی اس ملک کی گورنمنٹ اپنے ملک کی شہری خاتون کی رہائی کیلئے باراک اوباما کو ایک ہی مرتبہ فون کرتی تو دوبارہ فون کرنے کی نوبت بھی نہیں آنی تھی۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عافیہ صدیقی اگر یورپ کے کسی گمنام سے ملک کی رہنے والی ہوتی تو وہ کب کی رہا ہوکر آزاد فضاﺅں میں اپنے اہل خانہ اور ہم وطنوں کے ہمراہ آزادی کے ساتھ دن گزار رہی ہوتی کیونکہ یہ سب قومیں آزاد منش اور متحد ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری طرح ان کی آنکھوں پر ’قومی سطح کی بے غیرتی ‘کی نہ تو پٹی بندھی ہے اور نہ ہی انہوں نے بے حسی کی روئی اپنے کانوں میں ٹھونسی ہوئی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ جب کوئی قوم اجتماعی طور پر بے حس ہو جائے تو پھر اس کی بیٹیاں سرِ بازار ہی بکتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم کوئی آج بے حس اور بے غیرت نہیں ہوئے ۔ ہماری قوم کی بے حسی اور بے ضمیری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ملک کی عمر۔ اگر ہم اجتماعی طور پر اپنی تاریخ بھول رہے ہیں تو میں آپ کو تاریخ یاد کرواتا ہوں ۔ کیا اس ملک کی تاریخ کا وہ لمحہ ہم بھول گئے ہیں جب قیام پاکستان کے وقت ہماری ہزاروں بیٹیاں ہندوﺅں کے دیس میں رہ گئیں ،جن کو ظالم ہندﺅں اور سکھوں نے جبراً ظلم کا نشانہ اور رکھیلیں بنا کر ہم پر تھوکا۔ اس پر ہماری عظیم قوم نے ظالم ہندو کا کیا بگاڑ لیا تھا بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے تو ہم اسی ہندو کے ترلے کر رہے ہیں کہ سرکار ہم آپ سے دوستی کے متمنی ہیں اور آپ سے مذاکرات کرنے کیلئے مرے جا رہے ہیں۔ ہماری بے ضمیری اور بے حسی کے باوجود ظالم بنیا کی اکڑ ہے کہ ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہی اور اس کی اکڑ بجا بھی ہے کہ ہمارے جیسی قوم کے سامنے اس کا اکڑ نا ہی بنتا ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ کی قید میں جس طرح زندگی گزار رہی ہے، اس کا ذکر کیا کرنا۔ کیا ہمارے اپنے ملک کی مسلمان عورتوں کو سر بازار رسوا نہیں کیا جاتا؟کیا ہم وہی قوم نہیں جو اپنی عورتوں کو ونی کر دیتے ہیں؟ کیا ہم اس بے ضمیر قوم کا حصہ نہیں جو جائیداد کے لالچ میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی قرآن کے ساتھ شادی کرا دیتے ہیں؟ کیا ہم اس ملک کے باسی نہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے ؟ کیا اسلام کے نام پر بننے والے اسی ملک کی نامور اور بہادر فوج نے جامعہ حفصہ کی ہزاروں طالبات کو اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگانے کے جرم میں مسجد و مدرسہ میں فاسفورس بموں سے جلا کر راکھ نہ بنا دیا تھا؟ اس وقت ہم نے کیا کر لیا تھا؟ اگر امریکی فوجی اپنی قید میں ایک مسلم خاتون کے ساتھ جبراً زیادتی کر سکتے ہیں۔ اسے اذیتیں دے کر ذہنی مریضہ بنا دیتے ہیں تو کیا ہم ان سے پیچھے ہیں۔ کیا بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ہونے والا سلوک ہمارے ذہنوں سے محو ہو گیا؟ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ۔۔۔تم کتنی نادان ہو کس کے بل بوتے پر تم نے اتنا بڑا دعویٰ کر دیا کہ ہم ڈاکٹرعافیہ کو واپس لے کر آئیں گے؟ڈاکٹر فوزیہ۔۔۔ تم کسے آوازیں دے رہی ہو؟ تمہاری بوڑھی ماں کی آنکھوں سے بہتا پانی حکومت تو نظر انداز کر ہی چکی ہے، تم نے اب اس قوم سے امید باندھی ہے تو مجھے یقین ہے کہ اب کی بار بھی تمہیں مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ملک کی حکومت پر تو پہلے ہی مظلوموں کی آہ وپکار کوئی اثر نہیں کرتی تھی۔ ڈاکٹر فوزیہ۔۔۔ تم بھی اپنی بہن کی چیخ و پکار حکمرانوں کو سنانا چاہتی ہو تو پھر تمہیں یاد ہونا چاہئے ، پتھر پر سر مارا جائے تو پتھر نہیں ٹوٹتا بلکہ اپنا ہی سر پھوٹ جاتا ہے، سو اب تم بھی اپنا سر پھوڑنا بند کر دو۔ بہن عافیہ صدیقی۔۔۔ تم نے سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے کا اچھا فیصلہ کیا، اگر تم اپیل کر بھی لو تو کیا حاصل ہے؟ ڈاکٹر فوزیہ ۔۔۔آپ کہتی ہو کہ ڈاکٹر عافیہ قید تنہائی ،طویل عرصہ اذیت ناک اسیری اور ذہنی و جسمانی تشدد سے اپنا تواز ن کھو بیٹھی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر مجھے بڑی خوشی ہے کیونکہ اگر وہ تندرست اور توانا ہوتی تو پھر اسے اسلام کی تاریخ یاد آتی اور آج کے مسلمان کا کردار بھی، جو اس کیلئے اور زیادہ اذیت ناک ہوتا۔ عافیہ بہن ۔۔۔اچھا ہے کہ تیرا ذہنی توازن درست نہیں رہا ، اگر تو ٹھیک ہوتی تو شائد اپنے مسلمان بھائیوں کے نام اپنی آزادی کیلئے کوئی پیغام لکھ کر کوئی امید یا آس باندھ لیتی جو کبھی پوری نہ ہوتی کیونکہ ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا پیغام ابو غرائب جیل سے ہماری ایک اور مسلمان بہن فاطمہ نے بھی لکھا تھا اس نے ہمیں جھنجوڑ جھنجوڑ کر کہا تھا کہ کیا ہم تمہاری بہنیں نہیں؟امریکی ہمارے جسموں کو نوچ رہے ہیں، امریکیوں کے سامنے ہمیں اپنے برہنہ جسم ڈھانپنے کی اجازت نہیں۔ کوئی دن اور رات ایسی نہیں گزرتی جب یہ امریکی فوجی ہماری عزتوں ساتھ نہ کھیلتے ہوں۔ بہن فاطمہ نے روتے ہوئے لکھا تھا کہ کیا تم ہمارے حال سے واقف نہیں؟؟؟ کیا ہم تمہاری بہنیں نہیں؟؟؟ تم ہماری آواز کیوں نہیں سنتے؟؟؟ اگر تم ہمیں آزاد نہیں کروا سکتے تو ان کفار کے ساتھ ہمیں بھی مار ڈالو کہ شائد مرنے سے ہی ہمیں چین آ جائے۔ عافیہ بہن تمہیں اس بات کا کیسے پتہ ہو سکتا ہے کہ مسلم امہ نے اس وقت بھی فاطمہ اور اس جیسی دوسری بیٹیوں کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا تھا اب بھی کھوکھلی تقریریں اور چند ایک اجتماعی مظاہرے کرنے کے علاوہ ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ میرے جیسے بزدل اور کم ہمت تیری سزا پر زیادہ سے زیادہ اپنے کمروں میں بند ہو کر رو لیں گے اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں کہ ہم نے اجتماعی طور پر اپنے آپ کو بے حس رہنے کی عادت جو ڈال دی ہے۔ بلکہ آپ کہہ سکتی ہو کہ قومی سطح پر بے حسی اور بے غیرتی ہماری فطرت بن چکی ہے۔ پہلے ہم خود اپنی ماﺅں ، بہنوں اور بیٹیوں کی بے حرمتی کرتے تھے اب اغیار کو بھی یہ جرات ہو چکی ہے۔ عافیہ بہن تیری آزادی کے حوالے سے تو کوئی بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ حکومت میں تو اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ امریکہ سے دو ٹوک بات کرے اب ایک ہی راستہ ہے جو تو نے خود ہی اختیار کیا ہے، امریکی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ بلکہ اب تم نے اپنی اپیل تو اللہ کی عدالت میں دائر کر دی ہے جس پر ہم سب کو یقین ہے کہ اللہ کی عدالت سے عافیہ کو انصاف ملنے میں تاخیر نہیں ہو گی۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 45290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.