صنم (تیسری اور آخری قسط)

وہ دھیرے دھیرے نیچے آئی تو بیٹھی ہوئی لڑکی نے اسے دیکھا۔ اس کی انکھیں سوجی سوجی تھیں ۔ وہ اس کی ہم عمر ہی لگ رہی تھی۔ صنم سوچ رہی تھی کہ اماں کی وہ بیٹی کہاں ہے ۔جس نے کہا تھا کہ وہ اس کی مدد کر سکتی ہے۔وہ ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی تو بیٹھی ہوئی لڑکی نے دھیمی آواز میں اس کا نام پوچھا۔ اس نے بتایا صنم ۔ وہ مسکرائی ۔اماں نے نام رکھا ہے تمہارا ۔ صنم نے کہا ۔ نہیں میرا نام میرا اپنا ہے۔ صنم نے بچے کو سویا ہوا دیکھا تو بولی۔ پیارا بچہ ہے ۔ نازی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ کون ؟یہ۔صنم کو عجیب سا لگا ۔صنم خاموش ہو گئی ۔ کچھ دیر میں ۔ اماں کی وہ بیٹی بھی واپس آ چکی تھی۔ صنم نے اس کا نام تو پوچھا ہی نہیں تھا ۔وہ اس کے قریب آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے آتے ہی صوفہ پر اچھل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ اے نازی تیرے پاس سگریٹ ہیں ۔ نازی نے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اندر پڑے ہیں ۔ جا کے لے لے۔اس نے صنم کی طرف دیکھا۔ انکھ مارتے ہوئے کہا۔ تیرا کام ہو گیا کیا۔ صنم کو اس کی ذبان اور بات بہت بے ہودہ محسوس ہو رہی تھیں۔ صنم نے منت کرنے والے انداز میں کہا تم میری مدد کرو ۔ تم نے کہا تھا تم میری مدد کر سکتی ہو۔ تم لوگ یہاں سے باہر جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتی ۔ اس قدر گندہ کام کرنے سے اچھا ہے کہ ماسی گِری کر لو۔

صنم کی بات سن کر وہ دونوں ایسے ہنسی جیسے صنم نے انہیں کوئی لطیفہ سنایا ہے۔ نازی نے پھر چیخ کر کہا۔ تیرا باپ رکھے گا ماسی ہمیں ۔ کون ضمانت دے گا ہماری۔ یہاں سے نکلنے کون دے گا ہمیں ۔ صنم نے پھر کہا۔ پولیس ،پولیس مدد کر سکتی ہے۔ اگر ہم ان تک پہنچ ۔۔۔۔۔ابھی اس نے بات پوری نہیں کی تھی تو نازی ۔ ہنسی ۔ یہاں پولیس نہیں پولیس والے آتے ہیں ۔ مدد کرنے نہیں مدد لینے ۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی ایس ۔ ایچ ۔ او ۔ہو کر گیا ہے ۔میری تو اس نے ٹھیک سے مدد کی ۔ اب اگر آیا تو تو کروا لینا مدد۔ نازی اور شیلا کھل کر ہنسی ۔ صنم کو کلیجہ منہ کو آتا محسوس ہوا ۔ وہ سوچ رہی تھی ۔ آخر اس جہنم سے نجات کیسے ملے گی اسے۔ ہر بار تو وہ نہیں بچ پائے گی۔ اس نے لجاحت سے نازی کی طرف دیکھا۔ میری مدد کرو ۔ اللہ کے لیے ۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔ پلیز۔ آپ لوگ میری مدد کرو۔ نازی نے شیلا کی طرف دیکھا ۔ یہ تو انگریزی بولتی ہے۔ تو یہاں آئی کیسے؟نازی نے اس سے تجسس سے پوچھا۔ صنم نے روتے ہوئے ۔ نعیم کے بارے میں سب کچھ بتایا۔ نازی نے غصے سے کہا ۔ یہ مرد ہوتے ہی کمینے ہیں ۔ آپس کی لڑائی میں عورت کو گھسیٹ لاتے ہیں ۔ تیرے بھائی کومارتا نا کمینہ ، شیلا نے نازی کی طرف دیکھااور بولی ۔ اس کی مدد کرنے کا مطلب سمجھ ۔اماں سے دشمنی ۔ نازی نے شیلا سے کہا ۔ مدد تو میں اس کی کروں گی۔ پھر کچھ دیر تیز تیز ٹانگ ہلانے کے بعد اس نے کہا ۔ شیلا اگر ہم اسے باہر نکال دیں تو شاہد یہ بچ جائے۔ شیلا نے نازی کی طرف دیکھا۔ پھر بولی۔ بہت مشکل ہے ۔ یہاں کا پورا تھانہ اماں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی فوٹو سب کی جیب میں ڈلوا دے گی ۔ ہر حال میں ڈھونڈ نکالے گی اِسے۔ صنم نے دھیرے سے کہا۔ میری کوئی فوٹو اس کے پاس نہیں ہے۔ شیلا مسکرائی ۔ تیرا پورا البم ہے اماں کے پاس ۔ صنم کیا۔ کیسے ۔ میں نے تو کوئی فوٹو نہیں بنوائے۔ وہ فوٹو کہاں ہیں مجھے واپس چاہیں۔شیلا اب یہ ہم نہیں کر سکتے ۔ تیری اِتنی مدد کر سکتے ہیں کہ کوئی باہر لے جانے والا آئے تو تجھے آگے کر دیں ۔ پھر تیرے پاس موقع ہو گا ۔ تب تک تیری قسمت ۔ صنم نے دل کی دھڑکن کو تیز ہوتے ہوئے محسوس کیا ۔ قسمت؟پھر بولی ۔ میں کسی صورت یہاں نہیں رہوں گی۔ شیلا نے افسردہ لہجے میں کہا ،تم اس گھر سے کسی صورت بھاگ نہیں سکتی ۔ سوائے اس کے کہ کوئی تمہیں اپنے ساتھ عیاشی کے لیے لے جائے ۔ وہاں سے تم بھاگ سکتی ہو۔ یہ گھر نہیں ہے سمجھو پنجرہ ہے۔ نازی نے شیلا کی طرف دیکھا اور بولی ، چل کوئی نئی فلم لگا دیکھتے ہیں ۔ یہ رونا دھونا رہنے دے۔ شیلا نے سگریٹ کونیچے ہی پھینک دیا اور جوتے سے مسلنے لگی۔

صنم افسردہ اور اداس ہونے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتی تھی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ اسے اپنا وجود کیچڑ میں دھنستا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ شیلا اور نازی فلم سے لطف اندوز ہو رہیں تھیں ۔ صنم کو حیرت تھی کہ وہ کیسے ایسے حالات میں خوش رہ سکتی ہیں ۔ وہ چھوٹے بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ شیلا اور نازی نے فلم کو روکا۔ شیلا نے بیزاری سے کہا۔ ابھی رونے دھونے سے کچھ نہیں ہو گا۔ رونا ہے تو اوپر جا کر اپنے کمرے میں رو۔ نازی نے اسے ہلکی سی چپت لگائی ۔ رونے دے نا اسے اپنی قسمت پر۔ رو لے صنم ،رو لے۔ نازی نے اسے کچھ دیر ہمدری سے دیکھا ۔ پھر دھیرے سے کہا۔ اگر تمہیں کسی طرح یہاں سے نکال دو ں تو کتنا تیز بھاگ سکتی ہو۔ صنم نے فوراً آنسو صاف کیے ۔ ساتھ ہی جلدی سے بولی ۔ میں تمہارا یہ احسان نہیں بھولوں گی۔ نازی مسکرائی۔ اصل میں صنم یہاں سے بھاگنے کے لیے تمہیں ، میرے کمرے میں آنا ہو گا۔ صنم نے فوراً کہا ۔ میں یہاں سے جانے کے لیے کہیں بھی جا سکتی ہوں ۔ نازی مسکرائی ۔ ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی ہے۔ میرے کمرے میں جہاں سے داخل ہوتےہیں ۔اسی کے سامنے ایک دروازہ ہے ۔جو باہر کی طرف بھی جاتا ہے۔ لیکن وہاں دروازے کےسامنے ہی اماں کے چوکیدار ہوتے ہیں ۔ ان سے کیسے بچنا ہے ۔وہ تممہارا مسلہ ہو گا۔ ٹھیک ہے۔

صنم نے ہاں میں سر ہلایا۔ نازی اسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ بچہ کو اس نے کمرے میں موجود بیڈ پر ڈالا ۔ جو خوابوں کی دنیا میں کھویاہوا تھا۔ اس بات سے انجان کہ وہ کہاں ہے۔نازی نے اس کی طرف محبت سے دیکھا اور بولی ۔ میں ان آدمیوں کو اپنی طرف متوجہ کروں گی۔ تم میرے پیچھے سے نکل کر بھاگوگی۔ تمہارا بچنا اس صورت ممکن ہے اگر تم ان آدمیوں کو غلط فہمی میں ڈال کر بچ نکلو۔ یہ کہہ کر نازی نے دروازے کو تھوڑا سا کھولا اور جھک کر باہر دیکھا ۔ سامنے کی دوکان کے آگے بنی اونچی جگہ پر بیٹھے چار آدمیوں نے یک دم پتے کھیلنے چھوڑ دیے۔ ای نے دوسرے کا منہ پکڑ کر نازی کی طرف کیا جو اپنی پتلی پتلی بھووں اور بڑی بڑی انکھوں سے انہیں گھور رہی تھی۔ ان میں سے ایک نے اپنے سینے پر اپنا ہاتھ رگڑ کر کچھ کہا ۔باقی سب کے قہقوں کی آواز فضا میں بلند ہوئی ۔نازی نے اسے نکلنے کا اشارہ کیا ۔ صنم نے شکریہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر پاوں نکالتے ہی بھاگنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر ہی میں ان چوکیداروں کو پتہ چل گیا کہ ان کے ساتھ کھیل کھیلا گیا ہے ۔ وہ صنم کے پیچھے شکاری کتوں کی طرح بھاگنے لگے ۔ صنم بھاگنے کے لیے اپنی پوری جان لگا رہی تھی ۔ گلیوں میں بھاگتے ہوئے ایک گلی کے سرے پر اسے ایک روڈ دیکھائی دی۔ روڈ کی شروعات سے پہلے ہی اس نے سارے چوکیداروں کو اپنے پیچھے گلی میں داخل ہوتے دیکھا۔ اس نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ وہ گٹر کے ڈھکن سے ٹکرا کر گِر گئی۔ گرتےہی ڈھکن اپنی جگہ سے سرک گیا۔ اس نے نیچے دیکھا اور پھر ان چوکیداروں کو اپنی جانب آتا دیکھا ۔ اس کے دل میں آیا۔ ذلت کی زندگی سے تو موت اچھی ہے وہ گٹر کا ڈھکن کھول کر کود گئی۔ غلاظت اور گندگی سے لتھری ہوئی صنم کو خبر بھی نہ تھی کہ جس گٹر کے ڈھکن کو ہٹا کر وہ کود رہی ہے وہ کس قدر گہرا ہے۔ اس کے اندر کی غلاظت اس قدر تھی کہ پہلے تو صنم گندگی کے ساتھ بہہ رہی تھی پھر جب اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو گندگی اس کی گردن تک تھی۔ وہ جب کودی تھی تو اس نے کچھ غلاظت کو اپنے منہ میں جاتا محسوس کیا اس نے تھوکنے کے لیے منہ کھولا تو مذید گندگی اس کے منہ میں جانے سے اس قہہ ہونے لگی ۔ وہ شدید تکلیف کا شکار تھی ۔ پھر جب وہ کھڑی ہوئی تو گندگی اس کے منہ سے کچھ دور تھی ۔ قہہ کرنے کے باوجود بار بار گندگی کی وجہ سے اسے قہہ ہو رہی تھی۔

وہ سوچ رہی تھی اس نے جانے کون سا گناہ کیا ہے کہ یہ گندگی اس کے وجود کا حصہ بنی ہے ۔ کیا وہ یہاں مرے گی۔وہ چلتی جا رہی تھی اور سوچ رہی تھی اس گٹر سے کیا وہ نکل پائے گی ۔ یہاں کیا اس کی موت لکھی ہے ۔ کراہت سے اسے اپنا دم گٹتا ہوا محسوس ہوا ۔تو اس نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ گھٹن اس قدر شدید تھی کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔

جب اس کی انکھ کھلی تو وہ اپنے بستر پر تھی۔ اس نے فوراً اپنے کمرے کو مکمل نظر گما کر دیکھا۔ وہ اچھل کر بیٹھ گئی ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رو رہی تھی۔امی کے جانے کے بعد اس نے امی کی دی ہوئی تصویر کو لمحے بھر کے لیے دیکھا۔ پھر دوبارہ سے کہانی پڑھنے لگی ۔ جس میں ایک لڑکی اپنی محبت کی خاطر گھر سے بھاگ رہی ہے۔ اس نے گھڑی دیکھی ۔ پونے بارہ ہوئے تھے ۔ اس نے سوچاآ ج نماز کو رہنے دیتی ہوں یہ کہانی پوری ہو جائے۔ کہانی پڑھتے پڑھتے وہ کب سو گئی ۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا۔وہ غسل خانہ میں جا کر قلیاں کرنے لگی اگرچہ اسے اپنا پورا وجود ہی غلاظت سے اٹا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔اس نے ٹھنڈے پانی سے ہی غسل کر لیا۔ پھر وضو کر کے تماز کے لیے بیٹھ گئی۔۔ وضو کرنے کے بعد اس نے شکرانے کے نفل ادا کیے ۔یہ سب ایک خواب تھا ۔ ایسا خواب جس نے اس کی دنیا بدل دی ۔صبح ہوتے ہی اس نے اپنے گھر کی چھت پر جا کر اپنے تمام کے تمام ڈائجسٹ کو آگ لگا دی ۔ جو ذیادہ تر اسی قسم کی کہانیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ روزڈائجسٹ پڑھنے کے بعد سوتی تھی۔ اب اس نے نماز کی عادت ڈال لی ۔ خواب اب بھی اُسے آتے لیکن ان کی نوعیت اور مواد ہمیشہ اسے سکون دیتا ۔زندگی بھی ایک خواب ہی ہے ۔جس میں رنگ ہم خود بھرتے ہیں ۔ یہ اب ہم پر ہے کہ ہم اپنے لیے گٹر کی گندگی کو چنتے اور دیکھتے ہیں یا کہ پھولوں کی دلکش خوشبو کو۔

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 264149 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More