نفسِ ذکیہ - قسط ١٨

فوزیہ کے گھر والوں نے اس کی جاب چھڑا دی تھی۔ اب کیا کرنا تھا جاب کا!!! اب تو پاسپورٹ بنوانا اصل کام تھا۔ فوزیہ کو بھی جاب میں کوئی دلچسپی نہ تھا۔ بس یہی انتظار تھا کہ جلدی سے شادی ہو جائے اور وہ پیا گھر سدھارے۔ زندگی بالکل بدلنے والی تھی۔ تمام بوسیدہ ابواب ہمیشہ کے لئے بند ہونے والے تھے۔ نیا دیس، نیا گھر۔۔۔ نئی امنگیں۔۔۔ آہ! کیا نئے نئے سپنے اس کی آنکھوں میں سج آئے تھے۔وہ اور اس کے سب گھر والے بے حد خوش تھے۔

لڑکے والوں نے پروگرام بتادیا تھا کہ ایک ماہ بعد نکاح کر دیں گے تاکہ نکاح کے پیپرز لے کر فوزیہ کے امریکہ کے ویزے کا پراسس شروع کر سکیں۔ پھر جب ویزا لگ جائے گا تو رخصتی ہو جائے گی۔ بس چار پانچ ماہ کا کھیل تھا سب۔۔۔ فوزیہ کی فیملی بھی کسی دیر سویر کے موڈ میں نہ تھے۔ سب اسی پروگرام پر متفق ہو گئے۔

فوزیہ کو کیا پتا تھا کہ واقعی اس کا رشتہ چچا کے ہاں سے آ جائے گا۔ امریکہ والوں کے انتظار میں تو اس کی عمر نکلتی جا رہی تھی ۔ اس نے تو امید ہی چھوڑ دی تھی۔ اسی لیے پابندیوں میں رہنے کے باوجود اس نے مجھ سے پیار کی پینگیں بڑھائیں کہ میں اچھا لڑکا ہوں، کماؤ پوت ہوں، خوش شکل ہوں، اپنا کاروبار ہے۔ جب میرا رشتہ آئے گا تو چار و ناچار گھر والے مان ہی جائیں گے کہ اب باہر والوں کا اور کتنا انتظار کریں۔ مگر اب تو کایا ہی پلٹ گئی تھی۔ چچا کے لڑکے کا رشتہ آ گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’فوزیہ! کل تو مجھ سے مل لو۔۔۔ میں بہت ڈپریسڈ ہوں۔۔۔‘‘
’’پلیز مل لو۔۔۔‘‘۔ میں فوزیہ سے فون پر بات کر رہا تھا۔ رات کے ایک بج رہے تھے۔ وہ میری بات کا کوئی جواب نہیں دے رہی تھی۔ بالکل خاموش تھی۔
’’پلیز کچھ بولو تو سہی۔۔۔ ایسے کیسے چلے گا فوزیہ؟؟؟‘‘ میں بہت بے چین تھا۔
’’کیا بولوں ذولقر! تم روز ملنے کی ضد کرنے لگتے ہو۔۔۔ تمہیں پتا بھی ہے کہ امی کو سب پتا چل چکا ہے ۔۔۔ وہ بہت سخت ہیں۔ اب مجھ پر نظر رکھتی ہیں۔ فالتو باہر نہیں جانے دیتیں۔ بہت پوچھ گچھ کرتی ہیں۔۔۔‘‘

’’تو کسی بہانے سے آ جاؤ۔‘‘ میں اس کی بات کاٹتے ہوئے بے قرار ہو کر کہنے لگا۔
’’کیا تمہیں میری یاد نہیں آتی؟؟؟ ملنے کا دل نہیں کرتا؟؟؟‘‘ میں نے دکھی ہو کر پوچھا۔
’’ایسی بات نہیں ہے ذولقر ! مگر میں اب نہیں آ سکتی۔۔۔ بتا تو رہی ہوں کہ امی نے بہت سختی کر دی ہے۔۔۔ جاب بھی ختم کرا دی ہے میری۔۔۔میں کیسے آؤں؟؟؟‘‘

’’فوزیہ کچھ خریداری کے بہانے آ جاؤ۔۔۔ مجھے کیا پتا تھا کہ میں رشتہ کی بات بڑھاؤں گا تو یہ سب ہو گا۔۔۔ تم ہی نے تو کہا تھا کہ میں رشتہ بھیجوں۔ تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ تمہاری امی نہیں مانیں گی ۔۔۔ وہ صرف خاندان میں ہی رشتہ کرنا چاہتی ہیں۔۔۔‘‘ میں نے اداس سے لہجے میں فوزیہ سے شکوہ کیا۔
’’ام م م ۔۔۔ آآآ۔۔۔ مجھے خود بھی نہیں پتا تھا ذولقر۔۔۔ شاید امی ہمارے بارے میں جان کر ناراض ہو گئیں تھیں۔ اس لئے اس طرح فوراََ انکار کر دیا۔۔۔تمہیں پتا ہی ہمارے گھر کا ماحول۔۔۔ اتنا اوپن نہیں ہے۔ شکر ہے اب تک ابو اور بھائیوں کو کچھ نہیں پتا۔ ورنہ تو جانے کیا ہنگامہ ہوتا۔۔۔‘‘ فوزیہ نے بھی وضاحت پیش کی۔

’’اچھا! میں بیزار ہو گیا ہوں روز روز یہی باتیں کر کے۔۔۔‘‘ میں نے اونچی آواز میں کہا۔
’’ پلیز کل مجھ سے ملنے آؤ۔ میں روز تمہاری منتیں کرتا ہوں۔ تمہیں کوئی احساس نہیں!!!کوئی پرواہ نہیں!!!‘‘
’’ میں بہت ڈپریسڈ ہوں۔۔۔ پلیز فوزیہ ۔۔۔ کتنے دن ہو گئے ہیں میں تم سے نہیں ملا۔۔۔ خدا کے واسطے آ جاؤ۔۔۔!!!‘‘
اب تو فوزیہ سے بھی بات ٹل نہ سکی۔ اس نے دوسرے دن مجھ سے ملنے کی حامی بھر لی۔

۔۔۔۔۔۔۔

فوزیہ کو میں روز ہی کال کرتا تھا اور ساری باتیں بتاتا رہتا تھا۔وہ میری ساری کہانیاں سنتی رہتی اور یہی کہتی رہتی کہ میری امی کو منا لو۔۔۔ رشتہ پھر بھجوا دو وغیرہ وغیرہ۔

میں بہت ڈپریسڈ رہنے لگا۔ ساری ساری رات سوچتا رہتا کہ کیا کروں کیا نہ کروں۔ کس طرح بات بنے گی۔ کس طرح فوزیہ میری ہو گی۔

نہ امی پھر اس بارے میں بات کرنا چاہتی تھیں اور نہ ہی فوزیہ کہ گھر والے رشتے کے لئے تیار تھے۔ مجھے کیا پتا تھا کہ فوزیہ ہی بے وفائی کر گئی ہے۔ میں اس کے لئے روتا رہتا اور وہ خوشیاں مناتی رہتی۔جب میں اس سے بات کرتا تو وہ مجھ پر کچھ بھی ظاہر نہ کرتی۔ ہاں، مگر اس کی آواز میں مجھے کوئی جزبات نظر نہ آتے۔۔۔ اس کی باتیں روکھی روکھی سی ہو گئیں تھیں۔

اس دن خدا کا واسطہ دے کر میں نے اسے ملاقات پر راضی کیا تھا۔ اس کے سارے بہانوں کو میں سچ سمجھتا رہتا۔۔۔کہ اس پر پابندیاں لگ چکی ہیں۔۔۔ اس پر نظر رکھی جاتی ہے۔۔۔ باہر آنے جانے نہیں دیا جاتا۔میں تو اپنے آپ کو کوستا رہتا کہ میری وجہ سے اس سے اس کے گھر والوں نے جاب بھی چھڑوا دی ہے۔ مجھے کیا پتا تھا کہ پسِ پردہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے!!!

میں بے چینی سے پانچ بجنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں تھیں۔ جدائی کے اندیشے نے اسے پانے کی طلب کو اور بڑھا دیا تھا۔ جانے کتنے دن بعد اس کا دیدار نصیب ہوتا۔ میں رات بھر اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس سے غائبانہ کلام کرتا رہا۔ سوچتا رہا کہ کل وہ مجھ سے ملے گی تو میں کیا کیا کہوں گا۔ کیا کروں گا۔ وہ کیسی لگ رہی ہو گی۔ مجھ سے مل کر وہ کیا کہے گی!!!کیا کرے گی۔۔۔!!!

میں تین بجے ہی تیار ہو کر ریسٹورینٹ پہنچ گیا۔ دو گھنٹے وہیں بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا۔ ایک جوس منگوا کر ریسٹورینٹ والوں کو مطمئین کیا۔

پانچ بج گئے اور فوزیہ نہ آئی۔ میں نے فوزیہ کو کال ملائی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ بیل جاتی رہی۔ میں نے پھر کال ملائی اور پھر کسی نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے موبائیل ایک طرف کو رکھ دیاکہ دیر سویر ہو جاتی ہے اور ایک میسج اسے بھیج دیا۔

آدھے گھنٹے تک نہ ہی اس کی کوئی کال آئی نہ اس نے میسج کا کوئی جواب دیا۔ میرا انتظار اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں نے پھر اسے کال ملائی۔ مگر اس نے پھر بات نہ کی۔
’’کیا ہو گیا ہے فوزیہ ۔ کوئی جواب تو دو۔ کہیں تمہیں کچھ ہو تو نہیں گیا۔‘‘ میری ذہن میں جانے کیا کیا وسوسے آنے لگے کہ کہیں اسے کچھ ہو نہ گیا ہو۔ کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آ گیا ہو۔ کہیں موبائیل نہ چھن گیا ۔
مگر فوزیہ کو کیا ہونا تھا وہ تو اب تک گھر سے نکلی بھی نہ تھی۔
میں ہر تین چار منٹ میں اسے کال کر رہا تھا۔
’’فوزیہ! اگر تم ٹھیک ہو تو مجھے کال کرو۔ ورنہ میں تمہاری امی کو کال کر کے اطلاع کرتا ہوں ۔۔۔ کہیں تمہیں کچھ ہو تو نہیں گیا؟؟؟‘‘۔ یہ میسج پڑھ کر فوزیہ نے مجھے جواب لکھ بھیجا کہ اس کا موبائیل گھر میں کہیں گم ہو گیا تھا اور سائلینٹ ہونے کی وجہ سے نہیں مل رہا تھا۔ اس لئے وہ لیٹ ہو گئی اور رابطہ بھی نہ کر سکی۔

میں اس کا جواب پڑھ کر مطمئین ہو گیا۔ انتظار کرنے کی تو عادت سی ہو گئی تھی۔ میں نے وہیں ریسٹورینٹ میں ٹیبل پر سر رکھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ دماغ پر ایک بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا۔ بہت نڈھال سا ہو گیا تھا میں۔۔۔
یہ عشق ہوتا ہی کیا ہے!!! واقعتاََ ایک روگ ایک بیماری ہی ہوتی ہے۔ جان لیوا بیماری!!!

آخرکار فوزیہ آئی اور مجھے زندہ کر دیا۔ جن آنکھوں کے نیچے ہلکے نمودار ہو گئے تھے۔ وہ دمک اٹھیں۔جو چہرہ مرجھایا مرجھایا سا رہنے لگا تھا وہ کھل اٹھا۔ اس کے دیدار نے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔
’’السلام و علیکم!‘‘ وہ مسکرا کر بولی اور میرے سامنے بیٹھ گئی۔ میرا دل اسے دیکھ کر زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میری جان سمجھو اس کی مٹھی میں تھی۔ میری دھڑکنیں بے قابو ہو رہی تھیں۔
’’و علیکم السلام!‘‘ میں نے دبی سی آواز میں سلام کا جواب دیا اور نظریں اٹھا کر دیکھا۔ میری آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ جسے فوزیہ نے محسوس کر لیا۔
’’ کیسے ہو ذولقر! ‘‘ فوزیہ کو تو پتا ہی تھا کہ میں کیسا ہوں۔ اس نے رسماََ پوچھ لیا۔
’’ہونہہ ! ٹھیک ہوں۔۔۔ ‘‘میں خود پر ظنزاََ مسکرا گیا اور دونو ں طرف خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر تک میں ٹیبل پر ہی نظریں جمائے ساکت سا ہو گیا۔ فوزیہ دائیں بائیں دیکھتی رہی اور کچھ نہیں بولی۔
’’کیا میں تمہارے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں؟؟؟‘‘ میں نے ایک سوالی کی طرح فوزیہ سے کچھ مانگا۔
’’میرے ساتھ؟؟؟‘‘ فوزیہ حیرانی سے بولی۔
’’ا م م۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘ میں نے پھر درخواست کی۔
’’ اچھا ! آ جاؤ‘‘۔ درخواست منظور ہوئی۔
میرا دل بڑھ گیا۔ میں خوش ہو کر اٹھا اور اسی طرف بڑی سی سیٹ پر بیٹھ گیا جہاں فوزیہ بیٹھی تھی۔ وہ تھوڑی اندر کو سرک گئی۔

میں نے بیٹھتے ہی فوزیہ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا ۔
’’کتنے دنوں بعد ملے ہیں ہم۔۔۔ میں تم سے دور نہیں رہ سکتا فوزیہ۔۔۔‘‘۔
’’ اب تم مجھ سے پہلے کی طرح بات نہیں کرتی۔۔۔ مجھ سے سے دور دور ہو گئی ہو۔۔۔‘‘ میں نے رونی سی آواز میں کہنا شروع کیا۔ فوزیہ بار بار کوشش کوتی کے اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑا سکے مگر میں ایسا نہ ہونے دیتا۔
’’کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی اب؟؟ کیا تمہیں میری ویسے یاد نہیں آتی جیسی مجھے آتی ہے؟؟؟ کیا تم مجھ سے ملنے کے لئے تڑپتی نہیں ہو۔۔۔ میرے بغیر بے چین نہیں رہتی!!‘‘ میرے کسی سوال کا فوزیہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے ہونٹ جیسے سلے ہوئے تھے۔ اس کا سارا وجودہر قسم کے جزبات سے خالی تھا۔ نہ مجھے کوئی محبت دکھ رہی تھی نہ کوئی احساس۔۔۔ نہ ہی اسے میری حالت پر ترس آ رہا تھا۔

’’ہم کیسے ایک ہوں گے فوزیہ۔۔۔ ؟کب ایک ہوں گے۔۔۔؟‘‘
’’ مجھے ڈر لگتا ہے فوزیہ۔۔۔! تم سے بچھڑنے کا خوف رہنے لگا ہے۔ تم نہ بدلنا فوزیہ مجھ سے ہمیشہ ویسے ہی رہنا جیسے پہلے رہتی تھی۔۔۔ آ ئی لو یو ۔۔۔آئی رئیلی لو یو۔۔۔‘‘ میں نے فوزیہ کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگایا اور اسے دیوانوں کی طرح بار بار چومنے لگا۔

’’ذولقر ! کیا کر رہے ہو۔۔۔ کیا کر رہے ہو۔۔۔ کوئی دیکھ لے گا۔۔۔‘‘ فوزیہ نے ایک زور دار چھٹکا دے کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں؟؟؟ کیا پاگل ہو گئے ہو؟؟ پہلے تو ایسے دیوانوں کی طرح حرکتیں نہیں کرتے تھے‘‘۔
’’دیکھ نہیں رہے ہم باہر بیٹھے ہیں۔۔۔ تم سب کے سامنے میرا ہاتھ پکڑ کر ۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئی اور برا سا منہ بنا لیا۔ اس کے ماتھے پر بل نمودار ہو گئے۔میرا چہرہ غم و الم سے لال سرخ ہو گیا۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ذلت اور بے عزتی محسوس ہونے لگی۔ دم سا گھٹنے لگا۔

’’ہٹو!‘‘
’’ اُدھر جا کے بیٹھو۔۔۔‘‘ فوزیہ نے تحقیر آمیز لہجے میں کہا۔ جیسے میں کوئی اچھوت ہوں۔
میں نے حلق سے اپنا تھوک نگلا اور بہ مشکل اپنے آپ کو سنبھالتا ہوا اٹھا۔ میرے ہاتھ پاؤ ں سے جیسے جان ہی نکل گئی تھی۔ ایک خفیف سی کپکپی ہاتھو ں پر طاری ہوئی۔ میں بھاری بھاری قدم اٹھاتا سیٹ کے دوسری طرف کو جانے لگا۔ میرے کان گرم ہو رہے تھے۔ جانے مجھے کیا ہو رہا تھا۔

’’ میں جا رہی ہوں‘‘۔ شاید فوزیہ نے میری عجیب و غریب کیفیت کو محسوس کر لیا۔ وہ جلدی سے اٹھی اور ریسٹورینٹ سے باہر نکل گئی۔
میرا منہ کھلا کاکھلا رہ گیا۔ آنکھیں پلک چھپکنا بھول گئیں۔ میں وہیں میز پر ڈھیر ہو گیا اور تن تنہا و لاچار دیر تک وہیں پڑا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن میں آفس نہیں گیا۔ گھر میں ہی پڑا ماتم کرتا رہا۔ ویسے بھی اب کئی دنوں سے میں نے اسٹور کو ٹائم دینا بہت کم کر دیا تھا۔ کام ہوتا ہی نہیں تھا۔ ذہن پر فوزیہ ہی سوار رہتی تھی۔ میں کہیں ہوتا تھا اور سوچ کہیں۔۔۔ مجدی کو ہی کہتا رہتا تھا کہ وہی سب کام سنبھال لے۔ مجدی نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ فوزیہ اور میرے بیچ کچھ گڑ بڑ ہے ۔ میں نے اسے سرسری طور پر بتا تو دیا تھا کہ ہمارے بیچ ناراضگی چل رہی ہے پر کھل کہ کچھ نہیں کہا تھا۔

اس دن مجھے بار بار گھر میں مجدی کے فون آتے رہے اور میں کال کاٹتا رہا۔ پھر میں نے فون ہی آف کر کے رکھ دیا۔ شاید اسے کوئی بات پوچھنی ہو گی۔ وہ بھی تو نیا نیا ہی میری ساتھ لگا تھا۔ سارے معاملات کہاں جانتا تھا۔ مگر میں نے اس کا فون نہیں اٹھایا۔ کیسے اٹھاتا۔ دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کسی سے بات کرنے کا۔۔۔ دل چاہ رہا تھا سب کچھ چھوڑ دوں۔ سب کو چھوڑ دوں۔ ایک نا کامی کا۔۔۔ مایوسی کا احساس ہو رہا تھا۔ امی یا ابو سے دوبارہ رشتے کی بات کرتے ہوئے بھی بہت شرم آ رہی تھی۔ امی نے اچھی خاصی سنا جو دی تھی مجھے۔ اب ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ دوبارہ ان سے کچھ کہوں۔ گھر میں چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی اس معاملے کی بھنک پڑ گئی تھی مگر ابھی کوئی بھی کھل کر اس پر کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ مجھے بے شک اس بات کا احساس تھا کہ چھوٹے بہن بھائیوں کے سامنے اگر یہ قصہ کھل گیا تو مجھے بہت شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اور کہیں ایسا نہ ہوتا کہ گھر کا کوئی دوسرا فرد بھی کل کو ایسے ہی کسی چکر میں پڑ جاتا ۔ہمارے گھر میں یہ سب نہیں چلتا تھا۔

مغرب کا وقت تھا۔ میں گھر کی چھت پر بنے کمرے میں پڑا فوزیہ کو یاد کر رہا تھا۔ جس طریقے سے جھڑک کراس نے مجھے اپنے آپ سے دور کیا تھا ۔۔۔ میں سہہ نہیں پا رہا تھا۔ بار بار اس کا چہرہ، اس کا غصہ ۔۔۔ اس کا میرا ہاتھ جھڑک دینا۔۔۔ سب یاد آ رہا تھا۔میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میں ہی عشق میں اندھا ہو گیا ہوں یا فوزیہ ہی بدل گئی ہے۔

کل کی ملاقات کے بعد سے میں پے در پے اسے میسجز بھیجتا اور بار بار اسے کال ملاتا جارہا تھا۔ مگر اس کا کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ شاید اس نے مجھے بلاک ہی کر دیا تھا۔ پھر میں نے اس کے فیس بک پیج پر جانے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ واقعی اس نے مجھے بلاک کر دیا ہے۔ میرے سینے میں جیسے کسی نے چھرا گھومپ دیا ۔ مجھے بہت گھٹن محسوس ہونے لگی۔ وہ مجھ سے اتنی ناراض ہو گئی ہے۔ اس طرح مجھ سے بے زار ہو گئی ہے۔ میں برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔

اوپر چھت پر ذیادہ تر کوئی آتا جاتا نہیں تھا۔ کبھی کسی کو کوئی کام پڑ گیا تو آ گیا۔ ورنہ یہ کمرہ عموماََ بند ہی رہتا تھا۔ کوئی مہمان آ جاتا تو ٹھہر جاتا۔ میں وہیں بیڈ پر پڑا موبائیل کو تک رہا تھا۔ مجھے پھر کچھ ہوا اور میں نے فوزیہ کا نمبر ڈائیل کر دیا۔مگر کسی نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے موبائیل اپنے سینے پر رکھا اور آنکھیں بند کر کے کسی تھکے ہارے مسافر کی طرح چت لیٹ گیا۔

نیچے مین گیٹ پر کسی کے گھنٹی بجانے کی ہلکی سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔ میں نے سنی ان سنی کر دیا۔ میں نے اپنے موبائیل پر گوگل کھولا اور سرچ کرنے کے لئے ’’وٹ شوڈ آئی ڈو؟؟؟‘‘ (کیا کروں میں؟؟؟) لکھ کر انٹر کر دیا۔بہت سے انکھوکے اور عجیب و غریب قسم کے رزلٹس سامنے آ گئے۔ مگر کسی بھی لنک کا تعلق میرے مسئلے سے نہیں تھا۔

’’کیا میں سب کچھ چھوڑ کے کہیں بھاگ جاؤں۔۔۔ کیا فوزیہ میر ے ساتھ چلے گی؟؟؟۔۔۔ کسی کو میری فکر نہیں۔ میرے گھر والوں کو بھی نہیں۔۔۔ کسی کو نہیں پتا کہ میں ابھی کس حال میں ہوں ۔۔۔ کیا کر رہا ہوں۔۔۔ کیا سوچ رہا ہوں۔۔۔ کیا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
’’سب اپنی اپنی زندگی میں مگن ہیں۔۔۔ کسی کو میرا احساس نہیں۔۔۔ کوئی مجھے سہارا دینے والا نہیں۔۔۔‘‘ میں خود سے جانے کیا کیا کہتا جا رہا تھا۔ میرا دل بھر آیا ۔ میں آہیں بھرنے لگا اور رو رو کے اپنا سر دائیں سے بائیں جانب ہلاتا جاتا۔ مجھے یاد آ گیا وہ وقت جب میں چھوٹا سا تھا اور اسی چھت پر اسی کمرے میں چھپا بیٹھا روتا رہتا تھا۔ اور اس دن بھی میں بیٹھا ایک تازہ غم منا رہا تھا۔

’’میری زندگی میں تو بس دکھ ہی دکھ ہیں‘‘۔ میں نے خود سے کہا اور پھر اپنا سر دائیں سے بائیں جانب ہلاتا آنسو بہانے لگا۔

اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے جھٹ سے اپنے اوپر بیڈ پر پڑی چادر ڈال دی تاکہ جو بھی آیا ہے وہ میرا آنسوؤں بھرا چہرہ نہ دیکھ سکے۔
’’ذولقر ! ذولقر!‘‘ یہ تو مجدی کی آواز تھی۔
’’اوہ۔۔۔!‘‘ میں یک دم چونک گیا۔ مجدی اور میں تو اتنے قریب تھے کہ وہ ابھی آگے بڑھتا اور میرے چہرے سے چادر کھینچ لیتا۔ پھر کیا ہوتا!!! وہ میری لاچاری کا مشاہدہ کر لیتا۔سب کو پتا چل جاتا کہ میں کتنا کمزور ہوں۔ کتنا ٹوٹا ہوا ہوں۔
میں نے اپنے آپ کو کچھ سنبھالنے کی کوشش کی اور کروٹ بدل کر اپنا چہرہ تکیے میں چھپا لیا۔

’’ذولقر ! آج اسٹور کیوں نہیں آئے؟؟؟‘‘ مجدی نے پوچھا اور آگے بڑھ کر میرے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ میرے ہاتھوں نے میرا چہرہ چھپا رکھا تھا۔ وہ وہیں میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا۔
’’کیا ہوا؟؟؟‘‘
’’اٹھو؟؟؟‘‘ ۔’’ ایسے کیوں یہاں پڑے ہو؟؟؟‘‘ مجدی کچھ نہ کچھ کہے جا رہا تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟؟؟‘‘ مجدی پریشان سا ہو گیا۔
’’ذولقر! یار کیا ہوا ؟؟ اٹھو!‘‘
’’ارے! ‘‘۔ وہ پھر بولا اور مجھے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ میں تو جیسے جم سا گیا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کروں۔ اپنی حالت کسی کو نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ ہمیشہ کی طرح میں اندر ہی اندر تن تنہا اپنا غم منا رہا تھا۔

’’کچھ ہوا ہے کیا؟؟؟‘‘۔ ’’کیا ہوا ہے؟؟؟‘‘مجدی سوال پر سوال کرتا مجھے بیٹھنے پر مجبور کرنے لگا۔
’’تم رو رہے ہوں؟؟؟ ‘‘ مجدی نے حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے لہجے میں کہا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں بہت دکھی اور تکلیف میں ہوں۔
’’اٹھو ذولقر! ‘‘ مجدی نے زور لگا کر مجھے اٹھایا۔ اب کوئی اور چارہ نہ تھا ۔ میں ہار مان کر اٹھا اور بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ میری آنکھیں بند تھی۔ مگر چہرے سے پژ مردگی اور تکلیف واضح ہو رہی تھی۔

’’ذولقر!‘‘ مجدی نے حیرت سے میری حالت دیکھی اور مجھے اپنے ساتھ چپکا لیا۔ میں اس کے گلے لگتے ہی اس سے لپٹ گیا اور بچوں کی طرح رونے لگا۔ مجدی کی بھی آنکھیں بھر آئیں۔
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ مجدی مجھے خوب جانتا تھا کہ میں کتنا حساس ہوں۔ جزباتی طور پر کتنا نازک ہوں۔ مگر میں اس طرح اس سے لپٹ کر رونے لگوں گا یہ نہ میں نے کبھی سوچا تھا اور نہ ہی اس کے تصور میں یہ بات تھی۔

’’کیا ہوا میرے دوست ! آخر ہواکیا ہے؟؟؟؟‘‘ مجدی نے میرا چہرہ اٹھا کر پوچھا۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل کر بہہ گئے۔
میں جس حالت میں تھا۔ جس تکلیف میں تھا۔ میں نے روتے دھوتے سب مجدی کے گوش گزار کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

میری دکھ بھری داستان سن کر مجدی بے چین ہو گیا۔ آخر وہ میرا بیسٹ فرینڈ تھا۔ وہ تو خود بھی اپنی زندگی میں تلخ تجربات سے گزر چکا تھا لہذا اسے دوسروں کی تکلیف کا احساس بھی تھا اور اندار بھی۔ ہمیشہ جب کبھی اسے میری ضرورت پڑی تو مجھ سے جو بن پڑا میں نے کیا اور جب کبھی مجھے اس کی ضرورت پڑی تو وہ بھی میرے ساتھ ہوتا۔

اس نے مجھے تسلی دی کہ اتنی جلدی ہمت نہ ہاروں ۔ آخر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔۔۔
اس نے طے کیا کہ وہ خود فوزیہ سے بھی بات کرے گا اور میرے گھر والوں سے بھی۔۔۔

’’ہیلو فوزیہ! میں مجدی بات کر رہا ہوں۔‘‘سب سے پہلے اس نے فوزیہ کو فون ملایا۔
’’ام م م۔۔۔ اوو۔۔۔ مجدی ۔۔۔‘‘ فوزیہ جھجھک کر بولی۔ پہلی بار مجدی اور فوزیہ کی اس طرح کسی خاص موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ وہ مجدی کی آواز سن کر حیران تھی۔
’’جی مجدی بھائی! کیسے ہیں آپ؟‘‘ فوزیہ کے لہجے سے صاف پتا چل رہا تھا کو وہ کچھ گھبرا سی گئی ہے۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟‘‘ مجدی نے پوچھا۔
’’میں بھی ٹھیک ہوں۔‘‘
’’فوزیہ ! ایک دو دن پہلے میں ذولقرنین سے ملا تھا۔ میں۔۔۔وہ بہت پریشان ہے ۔ اس کی حالت اچھی نہیں۔۔۔ ‘‘ مجدی نے رک رک کر کہا۔
’’۔۔۔اور آپ کو مجھ سے ذیادہ پتا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے۔‘‘
’’اگر میں آپ دونوں کی ناراضگی دور کر سکتا ہوں تو بتائیں؟؟؟‘‘مجدی نے جیسے کوئی درخواست کی۔ اس کی باتیں سن کر فوزیہ پریشان سی ہو گئی۔ کوئی سال بھر کسی کا ہاتھ تھام کر چلنا ۔ زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ دینے کا عہد کرنا اور پھر اچانک ساتھ چھوڑ دینا، بہت بڑا دھوکہ اور فریب تھا۔وہ تو اپنا خواب پورا کرنے چلی تھی مگر کسی دوسرے کے خوابوں کو بھسم کر کے۔۔۔ جیسے اسے اپنی منزل پانے کی خوشی تھی ویسے ہی کسی کو اپنی منزل کھونے کا رنج تھا۔۔۔

’’ام م م۔۔۔ مجدی بھائی۔۔۔ وہ۔۔۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘ فوزیہ نے آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کر دیا۔
’’وہ۔۔۔ بس میں کیا کروں۔۔۔ میں تو خود بہت پریشان ہوں۔۔۔ مجھے کیا پتا تھا ذولقر اتنا سینسیٹو ہے۔۔۔ میں تو۔۔۔ ا م م م۔۔۔‘‘
’’میں تو خود بہت گھبرائی ہوئی ہوں۔ گھر والوں کو بھی سب پتا چل گیا ہے۔ اب تو میں جاب بھی نہیں کرتی۔۔۔ چھڑا دی ہے سب نے۔۔۔‘‘ وہ رالفاظ کھینچ کھینچ کر اور جملے توڑ توڑ کے بات کر رہی تھی۔اس نے بھولی اور مظلوم بننے کی ایکٹنگ شروع کر دی۔مجدی نے اس کی باتیں سن کر منہ بنا لیا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ میں جتنا بے حال ہوا ہوا تھا۔ فوزیہ کے حالت اس سے یک سر مختلف تھی۔

’’جب ذولقر کے گھر سے رشتہ آیا تھا تو آپ نے ااپنے گھر والوں سے کیا کہا۔۔۔؟؟؟‘‘ مجدی نے سیدھی سی بات پوچھ لی۔
’’ام م م۔۔۔ میں ۔۔۔ میں اس طرح نہیں پوچھ سکتی۔۔۔ گھر والے بہت سخت ہیں۔۔۔ میں کہہ تو رہی ہوں کہ میری جاب بھی چھڑا دی ہے۔۔۔‘‘ فوزیہ نے اداس سی آواز بنا کر اپنی بے چارگی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
’’یار! کیا مطلب ہے؟؟؟ آپ لوگ سال بھر سے ایک دوسرے کو جانتے ہو۔۔۔ کوئی بچے نہیں۔۔۔کوئی کالج میں تو نہیں پڑھتے کے کچھ وقت ساتھ گزار لیا اور پھر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی اپنی راہ لے لی۔‘‘
’’مطلب تم لوگ مچور ہو۔۔۔ اگر ایک دوسرے کے ساتھ ۔۔۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ رہنے کا فیصلہ کیا تھا تو اب اس پر قائم رہو۔۔۔‘‘
’’۔۔۔ وہ بے چارہ بہت تکلیف میں ہے اور شاید آپ بھی ہوں گی؟؟؟‘‘ مجدی نے سوالیہ انداز میں کہا۔

’’ا م م م ۔۔۔ جی ۔۔۔ مجدی بھائی۔۔۔میں۔۔۔ مگر میں کیا کروں؟؟؟ میرے گھر والے نہیں مان رہے تو!!!‘‘ فوزیہ نے پھر ایسا لہجہ بنایا جیسے کہ بہت مجبور ہو۔
’’تو یہ بات آپ کو پہلے نہیں پتا تھی کہ وہ نہیں مانیں گے۔۔۔ آپ لوگ خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔۔۔‘‘ مجدی نے فوزیہ کو الزام دیا۔
’’وہ۔۔۔ جی جی۔۔۔ پتا تو تھا مگر بس ۔۔۔ ا م م م۔۔۔ اب میں کیا کروں‘‘۔ مجدی نے پھر برا سا منہ بنا لیا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ فوزیہ اپنے گھر میں میرا نام تک لینے کو تیار نہیں تھی۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ اسے کوئی خاص فکر نہیں کہ مجھ سے رشتے کی بات بنتی ہے یا نہیں۔

’’اچھا ! چلیں۔۔۔ میں ذولقر کے گھر والوں سے بات کرتا ہوں۔ انشاء اللہ وہ پھر رشتے کی بات کرنے آئیں گے‘‘۔ مجدی نے آخری بات کی اور خدا حافظ کہا۔

مجدی کو اندر ہی اندر بہت برا لگ رہا تھا اور فوزیہ پربھی غصہ آ رہا تھا۔ وہ میری حالت اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا تھا۔ میں واقعی مجنوں بنا بیٹھا تھا۔ ایک پتھر دل، مادہ پرست اور خود غرض شخص کے لئے۔۔۔
مجدی نے فوزیہ کو ایک چھوٹا سا میسج کیا کہ وہ مجھ سے بات تو کرے ۔ میری کالز تو اٹھائے۔ میرے میسجز کا جواب تو دے۔ مگر فوزیہ نے کوئی توجہ نہیں دی۔سنی ان سنی کر دی۔ اب تو اس کے نکاح کے دن بہت قریب آ گئے تھے۔ وہ تو روز دن گنتی کہ کب اس کی شادی ہو گی اور زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رنگین ہو جائے گی۔ وہ بھی امریکہ میں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔

مجدی کو جاب مل گئی۔ مگر یہ ایک پارٹ ٹائم جاب تھی۔ ہفتے میں ذیادہ سے ذیادہ تین دن کام ہوتا ۔۔۔تین چار گھنٹے کا اور پھر چھٹی۔ مجدی بہت خوش تھا۔ جیسے اسے وہ مل گیا ہو جو وہ چاہتا تھا۔ معاہدہ یوں تھا کہ اسے ہر ہفتے اس کے کام کا چیک مل جائے گا۔

رات کا وقت تھا میں چھت پر بیٹھا اندھیرے میں آسمان کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔تنہا ایک کرسی پر جما بیٹھا۔۔۔ کبھی کسی ستارے کو گھورتا کبھی چاند پر نظر جماتا اور کبھی کسی بادل کے چاند پر سے گزر جانے کا مشاہدہ کرتا۔۔۔ شاید مجھے کسی غم خوار ، کسی ساتھی کی تلاش تھی۔ مگر ہر طرف سیاہی، مایوسی اور خاموشی کے علاوہ مجھے کچھ نظر نہیں آ تا تھا۔ مجھے اب نیند کہاں آتی تھی۔ ساری رات جاگتے گزر جاتی ۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس دن ریسٹورینٹ میں کی گئی حرکت انتہائی غیر مناسب اور نا معقول تھی۔ مگر میں اپنے ہوش میں کہاں تھا۔ میں تو کوئی دیوانہ سا ہو گیا تھا۔ جسے اپنی دیوانگی میں کسی چیز کی پرواہ نہیں رہتی۔۔۔ فوزیہ کی تھوڑی سی بے رخی اور دوری مجھے اس طرح بے قرار اور پاگل کر دی گی مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ کیا واقعی عشق کی یہی کیفیات ہیں! کیا عاشق کے ساتھ یہی سب ہوتا ہے؟ کیا وہ ایسی ہی تکلیفوں سے گزرتا ہے؟؟؟ میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ بس اتنا ہی جانتا تھا کہ فوزیہ کے معاملے میں میرا خود پر قابو نہیں ہے۔۔۔

آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مسکراتی رہی رات بھر

اک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر

کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا
کوئی آواز آتی رہی رات بھر

درد کے چاند دل میں اترتے رہے
چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر (فیض)

میرا موبائیل سائلینٹ پر تھا۔ اچانک وہ چمکنے لگا۔ یہ مجدی کی کال تھی۔ رات کے ایک بج رہے تھے۔ شاید اسے اندازہ تھا کہ میں اب تک سویا نہیں ہوں گا۔ اسی لئے اس نے مجھے اس وقت فون کر دیا۔

’’ہیلو!‘‘ میں نے اداس سی آواز میں کہا۔ میں سوچنے لگا کہ جانے اس نے مجھے ابھی کیوں فون کیا ہے۔
’’ہیلوذولقر! سوئے نہیں اب تک؟؟؟‘‘ مجھے مجدی کی آواز میں ہمدردی نظر آ رہی تھی۔
’’ہونہہ! نہیں۔۔۔ جا گ ہی رہا تھا۔‘‘ میں اپنے آپ پر ہلکا سا ہنس دیا۔
’’اچھا۔۔۔ کیوں؟؟؟‘‘ مجدی نے تشویشناک انداز میں پوچھا۔
’’ہونہہ ! بس نیند ہی نہیں آتی۔۔۔‘‘ میں نے جواب دیا اور کچھ دیر تک دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔
’’اوہ۔۔۔ ذولقر پلیز ! سنبھالو اپنے آپ کو۔۔۔ میں نے فوزیہ سے بات کی تھی۔۔۔ ‘‘ فوزیہ کا نام سن کر جیسے میرے مردہ بدن میں جان پڑ گئی ۔
’’اچھا!کیا کہہ رہی تھی وہ۔۔۔؟ ناراض ہے وہ مجھ سے؟؟؟ تم نے اسے منانے کی کوشش کی۔۔۔؟ اس نے کیا کہا؟؟؟‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں مجدی سے ہزاروں سوال کر ڈالے۔
’’ام م م ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ وہ۔۔۔ ٹھیک ہے۔ کہہ رہی تھی کہ رشتہ بھیج دو۔۔۔ ‘‘ مجدی نے سرسری سا جواب دیا۔
’’رشتہ! اچھا! ہم م م م۔۔۔‘‘ میں کچھ سوچ میں پڑ گیا۔

’’میں تم سے اس بارے میں کل بات کروں گا۔۔۔ ایکچلی مجھے کہنا تھا کہ کل میں دیر سے آفس آؤں گا تو تم جلدی آ جانا۔۔۔ میری ایک پارٹ ٹائم جاب لگی ہے۔۔۔ تو مجھے وہاں جانا ہے۔‘‘ مجدی فوزیہ کے بارے میں اور بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں پھر مرجھا سا گیااور ’’اچھا‘‘ کہہ کر چپ ہو گیا۔ نہ میں نے مجدی سے اس کی نئی جاب کے بارے میں پوچھا نہ ہی کل وقت پر اسٹور آنے کی حامی بھری۔ بس چپ چاپ اس کی بات سن کر بات ختم کر دی۔

مغرب ہوتے ہی میں چھت پر چلا جاتااور لائٹیں بجھائے رکھ کر وہی بیٹھا رہتا۔۔۔روشنی سے اکتاہٹ سی ہوتی تھی۔ اندھیرا اچھا لگتا تھا۔ تا کہ کوئی مجھے دیکھ نہ سکے۔

اب یہی میرا معمول بن گیا تھا۔رات بھر جاگتے رہنااور وہیں چھت پر اکیلے پڑے اپنے آپ سے باتیں کرتے رہنا ۔ ایک ہی قسم کے خیالات میرے ذہن پر سوار رہتے۔ وہی ایک طرح کی باتیں میرے دماغ میں بار بار چلتی رہتی ۔۔۔ وہی گھومتی رہتیں۔۔۔ کبھی صبح چار بجے آنکھ لگتی کبھی فجر کے وقت۔۔۔پھر جب سوتا تو دوپہر کو کہیں جا کر آنکھ کھلتی۔ گھر والے میرے بدلتے روٹین کو خوب نوٹ کر رہے تھے۔میں دیر سے ہی آفس یا اسٹور پہنچتا اور وہاں بھی اونگتا رہتا۔ ہر دم فوزیہ، اس کی باتوں اور اس کی یادوں میں گم رہتا۔۔۔ جب ذیادہ یاد آتی تو گاڑی نکال کر اس کے گھر کے سامنے جا کر کھڑی کر دیتا۔۔۔ اور دیر تک اس کے گھر کے در و دیوار تاکتا رہتا کہ شاید وہ نظر آ جائے شاید وہ باہر نکل آئے۔۔۔ مگر بے سود۔۔۔

میں آنکھیں بند کئے کرسی پر ہی پڑا ہوا تھا ۔ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میرا چہرے سے ٹکرایا۔ میں نے آہستہ سے آنکھیں کھولنی شروع کیں۔ سر کرسی کی پشت پر ٹکا ہوا تھا اور چہرہ آسمان کی طرف تھا۔ آنکھیں کھلتے ہی آسمان پر ایک بادل آنکھوں کے سامنے نظر آیا ۔ چاند اس کی اوٹ میں چھپا تھا۔ بادل کے کنارے چمک رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں بادل سسکتے سسکتے پرے ہو گیا اور آدھا سا چاند آسمان پر چمکنے لگا۔ ایک ہی انداز سے بہت دیر بیٹھے بیٹھے مجھے ریڑھ کی ہڈی میں کچھ تکلیف سی محسوس ہونے لگی۔ میں سیدھا ہو کر بیٹھا۔
’’ہاہ۔۔۔‘‘ میں نے زور لگا کر اپنے آپ کو کسی سے دور کیا۔ کرسی گر گئی ۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔
چہرہ سیدھا کرتے ساتھ ہی مجھے کوئی اور وجود اپنے سامنے چھت کے بنے کنارے پر موجود میری طرف گھورتا ہوا نظر آیاتھا۔
’’اف۔۔۔!‘‘ میرے تن بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ ہیں کھڑا تھا۔
میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور تین تین چار چار سیڑھیاں پھلانگتا ہوا بامشکل اپنے آپ سنبھالتا نچلی منزل پر پہنچ گیا۔ میرے زور زور سے بھاگنے کی آواز رات کی خاموشی میں پورے گھر میں گونج اٹھی۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا کہ کہیں کوئی جاگ نہ جائے۔ میں ایسی غیر حالت میں گھر کے اندر داخل ہونے کے بجائے نچلی منزل پر بنے ٹیرس پر ہی کھڑا دم لینے لگا۔

میرے رونگٹے اب تک کھڑے تھے۔ ہلکی سی کپکپی میرے تن بدن پہ طاری ہو گئی۔ میں گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ میں لگاتار اوپر جاتی سیڑھیوں کو اور اوپر چھت کے کناروں کو گھور رہا تھا۔ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کیا تھا۔۔۔؟؟؟ کون تھا؟؟؟ کہیں یہ محض میرا وہم تو نہ تھا؟؟؟ یا پھر وہ واقعی کوئی تھا؟؟؟ ایک چھوٹے سے قد کا وجود۔۔۔ جیسے کوئی بچہ ہوتا ہے۔۔۔ میں اندھیرے میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا۔ مگر جو شبیہہ مجھے نظر آئی تھی اس سے صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ میری ہی طرف دیکھ رہا ہے۔

پھر میں نے دیکھا کہ وہ بچہ سیڑھیوں کی اوٹ سے مجھے جھانک کر دیکھ رہا ہے۔ ’’ہاہ۔۔۔‘‘ اب تو جیسے میری جان ہی نکل گئی ۔ ہاں ۔۔۔ وہ مجھے گھور رہا تھا۔ شاید اپنا آدھا سا چہرہ آگے کر کے اور باقی سارا وجود سیڑھیوں کے دوسری طرف چھپائے ہوئے۔

میں ایک اور ساعت بھی وہاں نہ ٹھہر سکا۔فورا گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ ایک بجلی کی لہر میری ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی میری گردن تک گزر گئی۔ کہیں وہ میرے پیچھے پیچھے تو نہیں آ رہا۔ میں اور تیز چلنے لگا۔
’’کون ہے؟‘‘ ابو جان کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔بڑھاپے میں نیند ویسے ہی کچی ہوتی ہے۔ شاید انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ رات گئے کوئی گھر کے اندر داخل ہوا ہے۔ ابو جی کی آ واز سن کر میری جان میں جان آئی۔ مجھے کچھ حوصلہ سا ہواکہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ کوئی اور بھی ہے۔
’’ا م م م۔۔۔ میں ہوں۔۔۔‘‘ میں دبے پیر ابوکے کمرے میں گیا اور ڈرتے ڈرتے کہا۔ میرا سانس اب بھی چڑھا ہوا تھا۔
’’کیا ہوا؟؟؟‘‘ ابو اب بھی نیند میں ہی تھے۔ یہ ان کی آواز سے صاف پتا چل رہا تھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ میں واش روم گیا تھا۔۔۔‘‘ میں نے جھوٹ بول دیا۔ اس عمر میں کسی بچے کی طرح ڈر جانا بے شک بہت شرمندگی کی بات تھی۔ یہ تو وہ دور تھا جب سارا گھر مجھے گھر کے سر براہ ہونے کا درجہ دے چکا تھے۔ سب مجھ ہی پر تکیہ کئے بیٹھے تھے۔

میں نے ابو سے ذیادہ بات نہیں کی اور سہما ہوا اپنے روم میں آ گھسا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ مگر مجھے سردی لگنے لگی۔ میں نے الماری سے کمبل نکالا اور اپنے آپ کو اس میں چھپا کر دبک کر بستر پر لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78491 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More