مسئلہ کشمیر اصل حقائق

کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جس کو انسانوں سمیت75لاکھ نانک شاہی میں خرید کر غلام بنایا گیا تو کبھی جابرانہ فیصلے کے ذریعے اقلیت نے اکثریت پر حکمرانی کی، انصاف کے عالمی دعویداروں نے 7 دہائیوں سے انصاف کے نام پر کشمیریوں کی نسل کشی اور تباہی کے منصوبوں کا ساتھ دیا۔ کشمیریوں نے آزادی کے لئے 2 لاکھ سے زائد جانبازوں کی قربانی دی مگر عالمی قوتوں کی منافقت کے باعث آزادی کی یہ جنگ ظلم جبر اور تشدد کا نہ صرف سبب بنی بلکہ جنت نظیر وادی کو ایک فوجی کیمپ اور خوف، مایوسی اور تاریکی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کشمیر وہ خطہ ہے جس کی ماضی مثال خوبصورتی، سرسبز و شادابی، قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑ، دنیا کے بہترین پھلوں، میوﺅں، برف پوش پہاڑی سلسلوں، حسین وادیوں، یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلامی دوستی، محبت و بھائی چارہ، دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی اور کشمیر کا ذکر آتے ہی انہی چیزوں کا تصور ذہن میں آتاتھا مگر آج جب کوئی شخص کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو فوراً جلاؤ گھیراؤ، فوجی کیمپ، عورتوں کی عصمت دری، خوف، ظلم و ستم، تشدد، غلامی، مایوسی، قتل و غارت، بچوں کا تاریک مستقبل، تقسیم در تقسیم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بھارتی تسلط کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود کشمیریوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ گزشتہ 90 سال سے خطے کے عوام جدوجہد آزادی میں مصروف عمل ہیں اب تک 2 لاکھ سے زائد کشمیر کے باسی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ 5 لاکھ سے زائد معذور ہوئے جبکہ 30 لاکھ سے زائد افراد مختلف ادوار میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور آج یہ تعداد 50 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ کھربوں روپے کے نقصانات ہوئے مگر اس کے باوجود کشمیر کے عظیم سپوتوں نے اپنی آزادی کا سودا نہیں کیا۔ تنازع کشمیر کو دنیا کا قدیم ترین تنازع کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر نام نہاد مہذب دنیا نے اس تنازع کو حل نہیں کیا تو شاید دنیا میں پہلی باقاعدہ عالمی ایٹمی جنگ اور پھر دنیا کی ایک بڑی تباہی کا سبب کشمیر ہی بنے گا۔ کشمیریوں کی جرات و بہادری اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کی جدوجہد سے اظہار یکجہتی کے طورپر پاکستانی قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔ یہاں ہم ریاست جموں وکشمیر اور تنازع کشمیر کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے کچھ تاریخی حقائق پیش کریں گے۔

تاریخ و جغرافیہ:
ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر، جموں، کرگل، لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریاست آبادی کے حساب سے اقوام متحدہ کے 140 اور رقبے کے حساب سے 112 رکن ممالک سے بڑی ہے۔ مذکورہ بالا تمام ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ دس کروڑ سال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا مگر آہستہ آہستہ خطے کی سر زمین وجود میں آئی اور اس عمل کو بھی 10 کروڑ سال گزر چکے ہیں۔ ہزاروں سالہ تاریخ کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر کی ریاست دہلی سے کابل، کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہے اور کبھی اسی ریاست میں درجنوں چھوٹی بڑی آزاد ریاستیں نظر آتی ہیں۔ آج کی دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے وہ 15 اگست 1947ء میں قائم ریاست جموں و کشمیرہے اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ کشمیر قرار پائی ہے۔

پڑوسی ممالک :
15 اگست 1947ءتک قائم ریاست جموں و کشمیر کا مجموعی رقبہ 84 ہزار 471 مربع میل جبکہ ایک اندازے کے مطابق آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد ہے۔ یہ ریاست دنیا کے تینوں پہاڑی سلسلوں (قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش) پر محیط ہے۔ اس کی سرحدیں مجموعی طور پر 7 میں سے 5 بڑی ایٹمی قوتوں پاکستان، بھارت، چین، روس (تاجکستان) اور امریکا (افغانستان) سے ملتی ہیں۔

ریاست کے حصے اور آبادی:
اس وقت ریاست جموں وکشمیر 4 حصوں میں تقسیم ہے جو 3 ممالک پاکستان، بھارت اور چین کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان کے پاس 28 ہزار مربع میل گلگت بلتستان اور تقریباً ساڑھے 4 ہزار مربع میل آزاد کشمیر، بھارت کے پاس وادی کشمیر، جموں اور کرگل لداخ جبکہ چین کے پاس 10 ہزار مربع میل اقصائے چن کا علاقہ ہے۔ پاکستان کے زیر کنٹرول حصوں کی آبادی بالترتیب 20لاکھ اور 33 لاکھ ہے جبکہ بھارت کے زیر قبضہ علاقے کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے اور ریاست کے جو لوگ کلی طور پر دنیا کے دیگر ممالک میں ہجرت کی زندگی گزار رہے ہیں ان کی تعداد 20 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ (بھارت اپنے کنٹرول والے حصے میں مسلمانوں کی نسل کشی کے ذریعے مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ ) البتہ چین کے زیر کنٹرول علاقے میں کوئی آبادی نہیں ہے یہ علاقہ چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سینگ کیانگ کا حصہ ہے۔ چین نے کچھ علاقہ 1963 کی جنگ میں بھارت سے چھینا جبکہ 1900مربع میل علاقہ پاکستان سے16مارچ1963 میں پاک چین معاہدے کے تحت عارضی طور پر حاصل کیا ہے۔

کشمیریوں کی بدقسمتی کا آغاز:
کشمیریوں کی بدقسمتی کا آغاز 16 مارچ 1846 میں معاہدہ امرتسر کے ساتھ ہی ہوا جس کے ذریعے گلاب سنگھ نے انگریز سے 75 لاکھ نانک شاہی میں جموں و کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا جبکہ گلگت بلتستان، کرگل اور لداخ کے علاقوں پر قبضہ کرکے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی، مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی کیونکہ حکمراں طبقہ اقلیتی تھا جبکہ خطے کی 85 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی اس لئے حکمراں ہمیشہ مسلمانوں سے ہی خطرہ محسوس کرتے تھے۔ مہاراجہ نے مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کے لئے بڑی کوششیں کیں یہی وجہ ہے کہ 1846 کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف 1931 تک کوئی نمایاں آواز نہیں اٹھی اگرچہ اس عرصے میں مسلمانوں کی نصف درجن سے زائد انجمنیں یا جماعتیں بن چکی تھیں مگر ڈوگرہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے مسلمان سر نہ اٹھا سکے۔

جدوجہد کا آغاز:
ہم جب ریاست جموں و کشمیر کا جائزہ لیتے ہیں تو ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں 1924 تک سیاسی خاموشی نظر آتی ہے۔ یہ خاموشی 1924 میں اس وقت ٹوٹی جب سرینگر میں کام کرنے والے ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری ریاست نے ان کی آواز میں آواز ملائی اور یوں پوری ریاست سراپا احتجاج بن گئی، اس تحریک کو بھی ڈوگروں نے طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کی، وقتی طور پر یہ تحریک کمزور ضرور ہوئی مگر اس کے بعد ریاست کے عوام میں بیداری آئی اور آزادی کا جذبہ توانا ہوا۔

قادیانیوں کے ناپاک عزائم اور مجلس احرار کی جدوجہد:
1929 میں مجلس احرار اسلام ہند کی بنیاد رکھی گئی جس کے بانیوں میں امیر افضل حق، سید عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خان، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، شیخ حسام الدین، مولانا مظہر علی اظہر اور دیگر شامل تھے۔ مجلس احرار اسلام ہند نے کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی اصل بنیاد رکھی۔ دراصل 25 جولائی 1931 کو شملہ میں نواب ذوالفقار علی کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس ہوا جس میں علامہ اقبال، مرزا بشیر الدین محمود(قادیانی) اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں مسلمانانِ کشمیر کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کا نام ”آل انڈیا کشمیر کمیٹی“ رکھا گیا اور اس کا چیئرمین مرزا بشیر الدین محمود (قادیانی)کو بنایا گیا جبکہ چیئرمین نے مسلمانوں کے مسائل اجاگر کرنے کی بجائے کمیٹی کو قادیانیت کی تبلیغ کے لئے استعمال کرنا شروع کیا حالانکہ کمیٹی میں علامہ اقبال سمیت اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ جس پر ہند کے اور کشمیر کے مسلمانوں میں سخت تشویش ہوئی، صورتحال کی نزاکت اور قادیانیوں کے ناپاک عزائم کو دیکھتے ہوئے مجلس احرار اسلام نے 31 19 میں ”کشمیر چلو“ تحریک کا آغاز کرکے کشمیری مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کیا۔ تحریک نے پورے ہند کو اپنی لپیٹ میں لیا اور ہزاروں افراد نے کشمیر کا رخ کیا۔ صرف 2 ماہ میں مجلس احراراسلام کے 45 ہزار کارکن گرفتار ہوئے، انگریز حکومت نے معاہدے کے مطابق ڈوگرہ حکومت کی مدد کی مگر 1931ئ کے آخری 2 ماہ میں تحریک میں بہت ہی شدت آگئی بعد ازاں بھی تحریک چلتی رہی۔

مرزا بشیر الدین محمود(قادیانی) کا استعفیٰ:
اس تحریک کے شدید دباﺅ کے باعث 7 مئی 1933 کو مرزا بشیر الدین محمود نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے استعفیٰ دیا جس کے بعد علامہ اقبال کو صدر جبکہ ملک برکت علی کو سیکریٹری جنرل بنایا گیا۔ مجلس احرار اسلام ہند کی اس تحریک میں کئی کشمیری مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ کشمیر کو قادیانی ریاست بنانے کی سازش کو ناکام بنایا۔

تحریک مالیہ عدم ادائیگی :
1931ءمیں ہی” تحریک عدم ادائیگی“ بھی شروع کی گئی اس دوران ڈوگرہ حکمرانوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، بعد ازاں یہ تحریک بھی تحریک مالیہ عدم ادائیگی کی بجائے مسلمانوں کی مذہبی تحریک بن گئی۔ 1946 میں شیخ عبداللہ کی کشمیر چھوڑ دو تحریک اور دیگر تحریکوں نے کشمیر کے مسلمانوں کو ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کے لئے تیار کیا۔ اسی وجہ سے 14 اگست 1947 کے بعد مظفر آباد سے آزادی کی جدوجہد عسکری شکل اختیار کر گئی۔ شیخ عبداللہ نے ریاست میں مسلمانوں کی بیداری کے لیے بہت کام کیا مگر جب کشمیریوں کو آزادی ملنے کاوقت آیاتو اپنی ساری جد وجہد اور قربانی پر پانی پھیر دیایہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی شیخ عبداللہ کو غدار کشمیر کے نام سے یاد کرتی ہے۔

آزاد حکومت کا قیام:
24 اکتوبر 1947ءکو موجودہ آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے پہلے صدر غلام نبی گلگار قرار پائے۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں 85 فیصد مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ ریاست پاکستان کا حصہ بنناتھی مگر حکمراں چونکہ ڈوگرہ تھا اس لئے اس کی کوشش رہی کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے یا اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا تھا مگر ڈوگرہ تاخیری حربے استعمال کرتا رہا یہی وجہ ہے کہ 24 اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر میں آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مجاہدین نے سرینگر کی طرف رخ کیا اورسرینگر تک کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور مہاراجہ کشمیر دارالحکومت سے بھاگ کر جموں چلے گئے۔

کشمیر پر بھارت کاقبضہ:
26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے نہ صرف بھارت سے فوجی امداد طلب کی بلکہ بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دی اور بھارت چونکہ کشمیر پر قبضے لیے موقع کی تلاش میں تھا لہٰذا 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی افواج کشمیر پر قابض ہوگئیں، دوسری طرف پاکستان کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے مجاہدین کو آزاد کیا ہوا ایک بڑا علاقہ بھی خالی کرنا پڑا اور مجبوراً پسپائی اختیار کرنا پڑی، بھارت کشمیر میں اس وعدے کے ساتھ داخل ہوا تھا کہ امن کے قیام کے بعد کشمیر سے واپس چلا جائیگا مگر 63 سال بعد بھی بھارت کی واپسی نہیں ہوئی۔

گلگت بلتستان کی آزادی:
دوسری طرف جب سرینگر میں بھارتی قبضہ ہوا اور آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو یکم نومبر 1947 کو گلگت میں بھی بغاوت ہوئی۔ ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے اسلامی جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ بلتستان اور وادی گریز(تراگبل، قمری، کلشئی، منی مرگ) اور دیگر علاقوں میں 1948 تک جنگ جاری رہی۔ 16 نومبر 1947 کو پاکستان نے اس پر کنٹرول کیا انگریز کے برصغیر سے جانے کے بعد کشمیریوں کو ڈوگرہ سے آزادی تو ملی مگر ریاست جموں و کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارتی غلامی میں چلا گیا۔ جب سے اب تک تنازع کشمیر پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے دن بدن تباہی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔

اٹوٹ انگ اور شہ رگ کا دعویٰ:
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت دی ہوئی ہے جبکہ پاکستان نے آزاد کشمیر میں1947 میں ہی آزاد ریاست قائم کردی اگر چہ تمام انتظامات پاکستان کے پاس ہیں۔ دوسری جانب گلگت بلتستان کو بھی مختلف طریقوں سے انتظامی طور پر اپنے کنٹرول میں رکھا اور2009 میں ایک اصلاحی پیکج کے تحت گلگت بلتستان کو بھی نیم ریاستی اور نیم صوبائی طرز کا ایک سیٹ اپ دیا گیا۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے کیونکہ مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے الحاق کیا ہے جبکہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کیونکہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور یہاں کے مسلمان بھی پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور 1947 میں سرینگر میں یہاں کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ”مسلم کانفرنس “ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کی ہے، جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک جاری ہے جس کا بنیادی نعرہ ہی ”پاکستان سے رشتہ کیا؟، لاالہ الا اللہ“ ہے۔

تنازع کشمیر اقوام متحدہ میں:
یکم جنوری 1948 کو بھارت اقوام متحدہ میں خود گیا جس پر 17 جنوری1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد منظور کی اور 20 جنوری کو پاکستان بھارت کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات کی روشنی میں 5 اگست 1948 اور یکم جنوری 1949 کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی پوری ریاست جموں و کشمیر متنازع ہے، اس میں وہ تمام حصے شامل ہیں جو پاکستان، بھارت اور چین کے پاس ہیں۔ اقوام متحدہ نے 17اپریل 1948ئ، 13اگست1948، 5جنوری1949 اور23دسمبر1952 کو کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی قراردادیں پاس کی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے سے کیا جائیگا مگر بھارت نے عالمی اور مقامی طور پر ہونے والے معاہدوں سے انحراف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ ریاست جموں و کشمیر کے علاقوںمیں 1950 کے بعد ہی بے چینی پھیلنا شروع ہوئی، مختلف ادوار میں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ شروع کی گئی مگر بھارت نے عالمی انصاف کے ٹھیکیداروں کی پس پردہ حمایت کے باعث وقتی طور پر کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ یہ بات درست ہے کہ اقوام متحدہ نے ابتدائی 9 سالوں میں تنازع کشمیر کے حل کے لئے کوششیں کیں مگر پھر تنازع کشمیر بھی عالمی سیاست کی نذر ہوگیا۔ 1948 سے 1957 تک روس اقوام متحدہ میں غیر جانبدار رہا مگر بعد میں 20 فروری 1957 اور 22 جون 1962 کو کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردوں کو ویٹواور بھارت کی حمایت کرتا رہا۔

تنازع کشمیر اور پاک بھارت جنگیں:
تنازع کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے مابین 1947 سے 1948تک، 1965 اور کرگل جنگ بھی ہو چکی ہیں۔ اگرچہ 1971 کی جنگ بھی دونوں ملکوں کے مابین ہوئی مگر اس کا تعلق تنازع کشمیر سے براہ راست نہیں البتہ بھارت کی مشرقی پاکستان میں مداخلت کی بڑی وجہ کشمیر ہی تھا۔ اب بھی یہ صورتحال ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین کبھی بھی ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے۔ کشمیریوں نے 1931 میں مجلس احرار اسلام کی تحریک پر آزادی کی جو جدوجہد شروع کی وہ مرحلہ وار آج بھی جاری ہے۔

کشمیر میں عسکری جدوجہد کا آغاز:
1947 سے 1966 تک کشمیریوں نے سیاسی میدان میں آزادی کی جنگ لڑی مگر اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور مجبوراً1966 میں عسکری جدوجہد کا آغاز کیااور باقاعدہ مسلح جدوجہدشروع ہوئی۔ جون 1966 میں جموں وکشمیرنیشنل لبریشن فرنٹ کے دو گروپ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے۔ ایک گروپ کی قیادت رابطہ ونگ کے سربراہ مقبول بٹ شہید جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت سیاسی ونگ کے سربراہ میجر امان اللہ کررہے تھے۔ رابطہ ونگ نے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور لوگوں کو عسکری جدوجہد کے لئے تیار کرنے کی کوشش کی جس میں ان کو کافی حد تک کامیابی ملی مگر اسی دوران اس گروپ کے ہاتھوں بھارتی انٹیلی جنس کے ایک افسرامر چند کا قتل ہوا جس پر بھارتی فوج نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور دونوں جانب سے مسلسل فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میںایک مجاہد محمد اورنگزیب شہید ہواجس کا تعلق گلگت سے تھا۔ یہ کشمیر میں باقاعدہ عسکری جدوجہد کا پہلا شہید ہے۔ اسلحہ ختم ہونے پر مقبول بٹ شہید اور دیگر مجاہدین نے اپنے آپ کو حکام کے حوالے کردیا اور 1968 تک بھارتی قید میں رہے۔ بھارتی عدالت نے مقبول بٹ شہیداور میر احمد کو بھارت کے خلاف بغاوت اور امر چند کے قتل کے الزام میں سزائے موت جبکہ کالاخان کو عمر قید کی سزادی۔ مقبول بٹ شہید سزاپر عملدرآمد سے قبل ہی1968 میں بھارتی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور پاکستان پہنچے۔ یہ مسلح جدوجہد کی پہلی کوشش تھی۔ اس کے بعد کشمیری قیادت نے ایک منظم جنگ کی منصوبہ بندی کی اور اسی مقصد کے تحت 31جنوری1971 کودو کشمیری حریت پسندوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے بھارتی جہاز گنگا اغوا کرکے لاہور ائیرپورٹ پر اتارا بعدازاں مسافروں کو چھوڑ دیا گیا مگر جہاز کو آگ لگادی گئی۔ اپریل 1971 میں حکومت پاکستان نے اس واقعے کا مقبول بٹ شہید سمیت نصف درجن کشمیری مجاہدین پر مقدمہ چلایا ہاشم قریشی کو اسلحہ رکھنے کے الزام میں 14سال سزا ہوئی جبکہ مقبول بٹ شہید سمیت 5کشمیریوں کو حریت پسند قرار دے کر بری کردیا گیا۔ رہائی کے بعدمقبول بٹ نے ایک مرتبہ پھر وادی کشمیر کا رخ کیا اور گرفتار ہوئے۔ انہیں 11فروری 1984 کو تہاڑ جیل میں سزائے موت دی گئی اور جیل کے اندر ہی دفن کیا گیا، مقبول بٹ شہید کی قربانی کے اس علم کو امان اللہ خان اور دیگر مجاہدین نے بلند رکھا۔ ایک مضبوط منصوبہ بندی کے بعد31جولائی 1988ء کو سرینگر میں بم دھماکے کے ذریعے ایک مرتبہ پھر عسکری جنگ کا آغاز کیا اور 1989 کو ہونےوالے الیکشن میں صرف 2فیصد لوگوں نے حصہ لیا اس طرح عوام نے مسلح جدوجہد کی حمایت کی۔ اسی دوران مجاہدین نے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کو اغوا کرکے اس کے بدلے میں اپنے 5ساتھیوں کو رہا کرایا۔

کشمیریوں کی 21 سالہ قربانی:
مفتی سعید کی بیٹی کے اغوا کے ساتھ آزادی کی جنگ بھر پور انداز میں شروع ہوئی جو تاحال جاری ہے۔ یکم جنوری 1989 سے 31 دسمبر 2009 تک 93 ہزار 97 افراد شہید ہوئے۔ 6 ہزار 965افراد کو حراست میں شہید کیا گیا۔ ایک لاکھ 16 ہزار 686 افراد گرفتار ہوئے۔ ایک لاکھ 5 ہزار 769 مکانات اور عمارتیں تباہ ہوئیں۔ 22 ہزار 708 خواتین بیوہ ہوئیں، ایک لاکھ 7 ہزار 298 بچے یتیم ہوئے اور 9 ہزار 900 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ یہ وہ واقعات اور اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عصمت دری کے 60 فیصد سے زائد واقعات کا اندراج نہیں کیا گیا اور متاثرہ مسلم خواتین کی تعداد 15 ہزار سے زائد ہے۔ دیگر 20 سے 30 فیصد واقعات کا بھی اندراج نہیں ہے۔ جبکہ 27 اکتوبر 1947 سے 31 دسمبر 1998 تک بھارتی جارحیت کے نتیجے میں 50 ہزار سے زائد افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، املاک کی تباہی بھی ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا۔ کنٹرول لائن (ایل او سی) پر فائرنگ کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری جاںبحق ہو چکے ہیں اور اربوں روپے کی املاک کا نقصان ہو چکا ہے۔ لاکھوں خاندان تقسیم ہیں۔ 1989 سے شروع ہونے والی جدوجہد کے نتیجے میں وہ وقت قریب آپہنچا تھا جب کشمیریوں کو بھارت کے چنگل سے آزادی نصیب ہوتی مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں بالخصوص 2001 میں پرویز مشرف کی غلط اور بزدلانہ حکمت عملی اور ناکام خارجہ پالیسی نے بھارت کو مضبوط کیا اور مشرف کے اسلام اور پاکستان دشمن اقدام نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنا یا۔ ایک ہزار سال تک کشمیر کے لئے جنگ کی بات کرنے والی پیپلزپارٹی بھی اب شاید کشمیر کو بھول چکی ہے۔

پاکستان کوبنجر بنانے کی بھارتی سازش:
پاکستانی حکمرانوں اور عوام کی بھول ہے کہ وہ کشمیر کو نظر انداز کرکے پاکستان کو مستحکم کرسکیں گے۔ اگر کشمیر کو آزاد نہیں کرایا گیا تو 2020 تک پاکستان پانی کے شدید بحران سے دوچار ہو گا اور بنجر ہوکر رہ جائے گا۔ بھارت نے دراصل پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ پاکستان جن دریاؤں سے پانی حاصل کرتا ہے وہ مقبوضہ کشمیر سے ہو کر آتے ہیں، بھارت عالمی معاہدوں کے باوجود ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر اور دریا?ں کے رخ موڑ کر اب تک پاکستان کے حصے کے 76 فیصد پانی پر ناجائز قبضہ کر چکا ہے اور مزید 65چھوٹے بڑے ڈیموں، بیراجوں اور دریاؤں کا رخ موڑنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1947 میں کشمیر سے آنے والے دریاؤں سے پاکستان کو 5000 ہزار کیوسک پانی حاصل ہوتا تھا جو کم ہو کر 2009 میں 1200 کیوسک رہ گیا جبکہ جس حساب سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں منصوبہ بندی کر رہا ہے اس سے 2020 تک مزید کمی ہوگی اور پاکستان کو صرف 750 کیوسک پانی ملے گا۔ کشمیر کی آزادی صرف کشمیریوں کی آزادی نہیں بلکہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے اس لئے پاکستان کے عوام تنازع کشمیر کو نظر انداز نہ کریں ورنہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس جائیں گے۔

5فروری یوم یکجہتی کشمیر:
دنیا بھر بالخصوص پاکستان کے مسلمان 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں اور کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی اخلاقی مدد کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس روز عام تعطیل ہوتی ہے یہ سلسلہ گزشتہ 21سال سے جاری ہے اس کا آغاز 1990 میں جماعت اسلامی کی اپیل سے ہوا، اس وقت پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن تاریخ میں پہلی بار 14اگست 1931 کو پورے برصغیر میں منایا گیا۔ اس کے علاوہ کشمیری 13جولائی کو1931ءکے شہداءاور6نومبر کو 1947ءکے شہداءکی یاد میں یوم شہدا، 24 اکتوبر کو 1947ءمیں آزاد کشمیر حکومت کے قیام کی یاد میں یوم آزادی، 27اکتوبرکو1947ئکے بھارتی تسلط، 27جولائی کو1949 میں کشمیریوں کو تقسیم کرنے والی خونیں لکیر لائن آف کنٹرول(ایل او سی) کے خلاف اور ہر سال 26 جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پریوم سیاہ مناتے ہیں اس کے علاوہ مختلف شہداءکی یاد بھی منائی جاتی ہے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 85085 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.