ملزمہ

منہ سے بہتی رال اور ہاتھوں میں پتھر تھامے اول فول بکتی وہ بچوں کے پتھراؤ سے بچتی بچاتی ایک کھنڈر نما مکان میں آگھسی ۔دھونکنی کی طرح چلتے سانسوں میں بے ربطگی تھی۔وہ سہمے انداز میں ایک کونے میں لگ گئی ۔اب شور بھی سنائی نہ دے رہا تھا ۔غالبا بچے اپنے حدف کو نہ پا کر مایوس ہو کے جا چکے تھے۔شام ڈھل رہی تھی ۔جب اس کی آنکھ کھلی وہ اندھیرے سے گھبرا گئی اور باہر نکل آئی ۔اماں اس کے منہ سے آہ نما آواز نکلی۔مختل حواس ۔راستوں سے نابلد ۔وہ واپس اندر آگئی اور پرانی جائے پناہ پہ دبک گئی ۔سسکیاں پہلے تیز پھر ہلکی اور پھر معدوم ہوگئیں۔رات بھیگ چکی تھی ۔پولیس کی تیز سیٹی کی آواز پھر دوڑتے قدم جو مکان کے ٹوٹے دروازے کے پاس آ کر رک گئے۔ہلکی سی روشنی میں ایک ہیولہ اندر آیا پگلی پہ نظر پڑتے ہی وہ مسکرایا اور ہاتھ میں تھامے بیگ سے تین نوٹوں کی گڈیاں اس کے قریب ڈال کے دیوار کے دوسری طرف غائب ہو گیا۔

اگلی صبح کی اخبار میں فخر سے مسکراتے انسپکٹر کی اور چہرہ ڈھانپے پگلی کی تصویر تھی جس کے کیپشن میں درج تھا

ڈکیتی میں ملوث خطرناک ملزمہ پولیس مقابلے میں ہلاک۔ پولیس انسپکٹر نے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے واردات کی کوشش ناکام بنا دی۔