گل ریزہ

اس نے اپنی ڈگریوں کو آگ لگا دی ایک لمحے کو اس نے حسرت سے انجینئرنگ کی ڈگری کو سلگتے اور راکھ بنتے دیکھا دو آنسو اس کی آنکھوں کے کونے پہ ٹپکے اوراس کی داڑھی میں جذب ہوگئے۔اب اسے ان ڈگریوں کے سہارے کے بغیر کام کرنا تھا اور اس پاپی پیٹ کی آگ کو بجھانا تھا اب وہ انجینئرنہبں ایک ان پڑھ انسان تھا سو اب وہ کچھ بھی کرتا شرم کیسی۔

وہ بہت دنوں سے ان ننھے پودوں کی آبیاری کر رہا تھا ان کی مکمل دھیان ان کی خوراک ہوا پانی سب کا نگہبانی اس کا مشن تھا اکثر وہ ان سے باتیں بھی کیا کرتا تھا۔وہ بھی اس کی باتیں سنا کرتے تھے۔ان کے ہوش و حواس اسی حد تک تھے جتنا وہ چاہتا ۔ان کے لبوں پہ پہرے تھے وہ اس کی زبان بولتے اور سنتے تھے۔جیسے جیسے وہ تناور ہورہے تھے اس کی توجہ کے مرکز بنتے جا رہے تھے۔انہیں پودوں سے الگ کرنے کا وقت آگیا تھا جدائی کی قیمت ہوتی ہے سو اس نے ان کے برگ و نے کو وہ قیمت چکائی اور انہیں توڑ لیا۔وہ اس کے مزاج میں ڈھل گئے تھے۔صبح کی نماز کے بعد وہ ان کے پاس آیا انہیں چوما اور خود کش جیکٹیں پہنا کے سفر آخری پہ روانہ کیا زاد سفر کے لیے اپنے ضمیر کو رہن رکھ دیا۔