دنیا کی بڑی جمہوریت میں ایسا بھی ہوتا ہے؟؟

امن کی سرحدیں کسی ایک ملک،ریاست یا قوم تک محدود نہیں ہیں،امن ہر معاشرے،قوم اور ریاست کی آج سے نہیں بلکہ بالکل ابتدا سے ایک ناگزیر شہ ہے اور اِس کو قائم رکھنا کسی ایک ملک کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر قوم پر لازم ہے۔دنیا میں کوئی بھی ملک یا قوم اگر جنگ اور بدامنی سے اپنے مفادات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ اس ملک کی ایک بڑی بھول ہے،کیونکہ اگر وہ آج کسی ملک کے حالات خراب کرنے کی متمنی ہے تو پھر وہ وقت بھی جلد آپہنچا ہے جب اْن کے اپنے گھر میں آگ لگ جائے۔ اِس لیے اگر امن کو ہر ایک ملک ،قوم آج کے دور میں اپنے لئے ایک ضرورت سمجھ لے تو یہی ترقی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔

امن کے برعکس بھارت کی مودی سرکارنے پاکستان دشمنی کو اپنی جماعت کی انتخابی مہم کا حصہ بنالیا ہے، بر سر اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماء اپنی تقریروں میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے اور الزامات کی بارش کو فرض عین سمجھ کر استعمال کررہے ہیں،صرف جنتا پارٹی ہی نہیں بھارت کا میڈیا بھی اس حوالے سے پاگل نظر آتا ہے،خونخوار درندوں اور پاگل گیدڑوں کی طرح چلاتا پایا گیا ہے،بعض چینل کے اینکر اور پیشکار حب الوطنی کے جذبے میں پروگرام کی ابتدا اور اختتام پر 'جے ہند' کا نعرہ بلند کرنے لگے ہیں۔ ایک اینکر نے سٹوڈیو میں باقاعدہ وار روم بنا کر فوجی وردی جیسے کپڑے پہن کر پروگرام پیش کیا، ان پروگراموں میں جو بھی حکومت کے تصورات سے اتفاق نہیں کرتا انھیں اینٹی نیشنل یعنی ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے،بھارتی چینلوں اور سوشل میڈیا پر جارحانہ قوم پرستی کی ایک لہر چلی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس سرجیکل آپریشن نے یک لخت سارے مسئلے حل کر دیے ہوں۔

اطلاعات کے مطابق نام نہاد سرجیکل آپریشن کو ایک بڑی کامیابی کانام دے کرو زیر اعظم مودی کی جرات اور بہادری کے گن گائے جارہے ہیں،کہیں کہیں تو بڑے بڑے بورڈ وں پر مودی کی تصاویر لگا کر پوجنے کے واقعات بھی منظر عام پرآئے ہیں،کئی بینرز میں انھیں ہندوؤں کے دیوتا رام کے طور پر دکھایا گیا ہے،پاکستانی وزیراعظم نواز شریف جنہیں اپنے ملک میں مودی کا یار اور غدار سمجھا جاتا ہے کورامائن کے برائی کے کردار راون کی شکل میں پیش کیا گیا ہے،سنا تھا کہ بھارتی’’گاؤ موتر‘‘کو آب حیات سمجھ کرپیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کی اتنی تاثیر ہوگی کہ پوری ہندو قوم کی عقل پر پردے پڑ جائیں گے،اپنے آپ کو سیکولر اور سب سے بڑی جمہوریت سمجھنے والے یہ بھارتی ایک ایسے جنونی شخص کو ہیرو بنا لیں گے دنیا نے یہ تصور بھی نا کیا ہوگا۔

کہتے ہیں میڈیا معاشرے کی آنکھ ،کان ہوتا ہے ٹھیک ہی کہتے ہیں بھارتی میڈیا بھی وہی دکھا رہا جو وہاں ہورہا ہے،، ایک چینل نے گذشتہ دنوں سابق وزیر داخلہ پی چدم برم کا انٹرویو نشر ہونے سے روک دیا، اس چینل نے اعلان کیا کہ وہ ایسا کوئی سیاسی بیان نہیں نشر کرے گا جس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہو، چدامبرم نے اس انٹرویو میں کشمیر کے حوالے سے حکومت کی ہینڈلنگ پر تنقید کی تھی۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسی چینل نے چند گھنٹے بعد بی جے پی کے صدر کی پریس کانفرنس براہ راست نشر کی جس میں بنیادی طور پر انھوں نے سرجیکل آپریشن کے حوالے سے مخالفین کو ہدف بنایا تھا،مودی سرکار اپنے میڈیا ایسے استعمال کررہی جیسے ’’سردار جی ‘‘کے بوتل کا جن ہو جیسے چاہا استعمال کرلیا جائے،وہاں سچ کے گلے میں پھندا ہے توسوال کرنے والی زبانوں پر ’’غداری‘‘کے تالے لگا کر جوتے مارے جارہے ہیں،کیامعزز معاشرے ایسے ہوتے ہیں؟کیا جمہوریت یہ کہتی ہے کہ بولنے کی آزادی نہ دو،لکھنے پر پابندی لگا دو؟اپنے حق کیلئے سڑکوں پر آنیوالوں پر گولیاں چلادو؟ بھارت میں سرجیکل آپریشن پر ملک کے اندر مچی سیاسی جنگ میں ٹی وی چینلز جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ان کا ماٹو ہی شاید جنگ ہو۔

کشمیر ایک حقیقت ہے جسے بھارت دو دہائیوں تک تسلیم کرتا آیا ہے کہ یہ مقبوضہ علاقہ ہے اور اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری سے نکالا جاسکتا ہے،اب ایسا کیا درد ہے جو اچانک بھارتی پیٹوں میں اٹھنے لگا ہے کہ ’’کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے‘‘حقیقت یہ ہے پاکستان سے تعلقات اب مزید خراب ہو چکے ہیں۔ اور بات چیت کے سارے راستے بند ہیں۔ یہ تنازع جہاں سے شروع ہوا تھا وہاں کی صورتحال اب بھی جوں کی توں ہے۔مقبوضہ کشمیر اب بھی کشیدگی اور ٹکراؤ کی گرفت میں ہے، وادی میں آج بھی بچے مررہے ہیں اور جنازے کے ساتھ آج بھی مظاہرے ہورہے ہیں، بھارت میں ان حقائق پر بھلے ہی بحث نہ ہو لیکن ان زمینی حقیقتوں کو فراموش تو نہیں کیا جا سکتا،عالمی ضمیر اس پر جاگے نہ جاگے کشمیریوں کا ضمیر کل بھی جاگ رہا تھا تو آج بھی جاگ رہا ہے،یہ کل بھی آزادی مانگ رہے تھے آج بھی آزادی کیلئے نعرہ زن ہیں۔

Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 62444 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.