صرف ردعمل کیوں؟

پاکستان دشمنی بھارت کی سیاست میں بہت چلنے والی پروڈکٹ ہے، چناں چہ اقتدار کے ایوانوں سے سیاست کے گلیاروں تک بھارت میں پاکستان دشمن جذبات کا ہمیشہ غلبہ رہتا ہے، مگر چار موسموں کی طرح بھارتی سرزمین پر ہر کچھ عرصے بعد پاکستان دشمنی کا ایک موسم آتا ہے، جس میں حکومت وسیاست کے مراکز سے میڈیا اور ثقافت کے حلقوں تک ہر جگہ پاکستان پر الزامات کی بارش ہوتی ہے، دھمکیوں کا طوفان آتا ہے، گالیوں کی گرد اُڑتی ہے۔ ان دنوں بھی بھارت میں یہی موسم آیا ہوا ہے۔ ایک طرف دہلی میں راج کرتے حکم راں پاکستان کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے ہمیں ڈرا دھمکا رہے ہیں، دوسری طرف چیختا چنگھاڑتا بھارتی میڈیا پاکستان کو نشانہ بناکر ریٹنگ بڑھانے کی جنگ میں مصروف ہے۔ کہیں اسٹریجک حملے کا جھوٹا دعویٰ کرکے سینہ پھلایا جارہا ہے، تو کہیں سفارتی سطح پر پاکستان کو تنہا کردینے کا سپنا پورا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، سرحد پر آتش وآہن کا کھیل کھیل کر پاکستانی فوج اور قوم کا صبروضبط آزمایا جارہا ہے، تو کہیں بولی وڈ میں کام کرنے والے پاکستانی اداکاروں کے خلاف مہم چلاکر اپنا بغض نکالا جارہا ہے۔

بھارت کی طرف سے اتنا سب کچھ ہونے کے بعد ہماری حب الوطنی نے انگڑائی لی اور بھارتی ٹی وی چینلوں پر پابندی اور پاکستانی نجی چینلوں کے پروگراموں سے بھارتی گانوں کے خاتمے کا اعلان اور عمل سامنے آیا۔ ظاہر ہے ان حالات میں یہی ہونا تھا، اسی کی توقع تھی اور یہی کچھ کرنا چاہیے تھا، لیکن یہ صرف ردعمل ہے، بھارتی کے جارحانہ رویے پر بہ حیثیت پاکستانی ہمارا ردعمل۔ بھارت پاکستان دشمنی میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ ہمیں یہ اقدام کرنا پڑا، تاہم اس اقدام کے پیچھے پاکستانی ثقافت اور اقدار کے تحفظ سے زیادہ جوابی کارروائی کا تاثر ملتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کسی دوست ملک کی ثقافت کو بھی اپنے ملک میں اتنی آزادی اور رسائی دی جاسکتی ہے کہ ہماری ثقافت اور ثقافتی ادارے خطرے میں پڑ جائیں؟ ثقافت کسی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ جس طرح زبان اور لباس کسی قوم کی شناخت ہوتے ہیں اسی طرح دیگر ثقافتی مظاہر اور روایات واقدار بھی کسی قوم کو انفرادیت عطا کرتی ہیں۔ یہ معاملہ دوستی اور دشمنی، جنگ اور امن کا نہیں، یہ تو وہ بنیاد ہے جس پر قومی تشخص استوار ہوتا ہے۔ ہم نے انفرادی طور پر، حکومت اور حکومتی اداروں اور نجی اداروں کی سطح پر کبھی اس بات کی پروا نہیں کی کہ ہمیں اپنی ثقافت کا کس طرح تحفظ کرنا ہے اور اسے کس طرح فروغ دینا ہے۔ اس کے بہ جائے ہم تو اپنی ثقافت اور ثقافتی اداروں کی تباہی کا سامان کرتے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں فلم جیسے اہم شعبے کو جس طرح تباہ کیا گیا اس کے بارے میں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہی کچھ آرٹ کے دیگر شعبوں کے ساتھ بھی کیا گیا۔ اور اب ایک عرصے سے بھارتی ڈراموں اور فلموں کو ہمارے عوام کی تفریح کا بنیادی ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ یہی نہیں خبروں اور دیگر پروگراموں میں بھارتی گانوں کا تواتر سے اور بھرپور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا کہ کوئی غیرملکی یہ سب دیکھ کر کیا رائے قائم کرے گا؟ کیا وہ یہ نہیں سوچے گا کہ پاکستانی قوم کے پاس نہ اپنی موسیقی ہے، نہ شاعری اور نہ فلم کا شعبہ۔
بات صرف اتنی ہی نہیں۔ ہمارے یہاں اس بات پر کبھی غور بھی نہیں کیا گیا کہ فلم کتنا موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس کے لوگوں کے ذہنوں پر کتنے گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمیں تو بھارتی حکم رانوں کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ باربار اپنے رویے سے ہمیں یاد دلا دیتے ہیں کہ دوستی اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کے جھوٹے دعوؤں اور ساری فریب کاریوں کے باوجود بھارت ہمیں اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ہم سے دشمنی کا رشتہ نبھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ دہلی کی گدی پر بیٹھے حکم راں اور بھارتی سیاست داں اگر پاکستان سے اپنی نفرت اور تعصب کے یہ مظاہرے نہ کرتے تو اب تک شاید ہم بھارت کی فلموں کا شکار ہوکر بھارتی پروپیگنڈے کے اسیر ہوچکے ہوتے اور بھارتی ثقافت ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہوتی۔

ایک طرف ہم نے اپنے ثقافتی اداروں کو مضبوط کرنے پر توجہ نہیں دی، دوسری طرف بھارتی ثقافت اور پروپیگنڈے کو بولی وڈ کی فلموں اور بھارتی ڈراموں کے ذریعے جانتے بوجھتے یا ان جانے میں اپنے یہاں فروغ دیتے رہے ہیں۔ مزید کسر خبروں اور مختلف پروگراموں میں بھارتی گانوں کے بے جا استعمال نے پوری کردی ہے۔ اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جاتا، اسے ایک اہم ایشو سمجھا جاتا اور اس کے خطرات پر غور کیا جاتا تو بھارتی چینلز اور گانوں وغیرہ پر جو پابندی آج عاید کی گئی ہے وہ برسوں پہلے لگادی جاتی، لیکن بھارت کی طرف سے یہ ثقافتی سرجیکل اسٹرائیکس ہوتی رہیں اور ہم ان کی روک تھام تو کیا کرتے یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے ہیں کہ یہ ثقافتی جارحیت اور حملے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ بھارت جیسا دشمن ملک ہو یا کوئی دوست ملک، اس کی فلموں، ڈراموں اور دیگر ثقافتی مواد کو ایک حد سے زیادہ ہمارے ابلاغی اداروں کی نشریات اور اشاعت کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے حکومت کی طرف سے مؤثر ثقافتی پالیسی بنائی جانی چاہیے اور خاص طور پر اچھی فلمیں بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جانے چاہیں۔ پابندی مسئلے کا حل نہیں ہے، بل کہ مسئلے کا اصل حل یہ ہے کہ ہم لوگوں کو متبادل فراہم کریں، اور ہم یہ کرسکتے ہیں۔
 
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283146 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.