اپنے اس انجام سے خوف نہیں آتا؟

ابھی حال ہی میں افغان صدراشرف غنی نے پاکستانی چینل کو انٹرویودیتے ہوئے کئی مواقع پراپنے اندرکے زہرکواُگلاہے اور کئی مرتبہ ان کاگفتگوکالہجہ یہ چغلی کھارہاتھاکہ وہ اپنے اندرکی شکست وریخت کوچھپانے کیلئے پاکستان سے اپنی برہمی کانہ صرف کھلااظہارکرہے تھے بلکہ دہمکیوں سے بھی انہوں نے گریزنہیں کیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ جہاں طالبان کے پے درپے حملوں سے پریشان ہیں وہاں اپنے اتحادی عبداللہ عبداللہ کے عدم تعاون اورسازشوں سے نمٹنے کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں۔ انہی پریشان کن حالات میں انہیں اب دوست بھی دشمن نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکی صدر،برطانوی وزیراعظم،اقوام متحدہ کے ترجمان یاامریکی کمانڈرنہیں بلکہ اشرف غنی اپنے انٹرویومیں پاکستان سے اپنی برہمی کاکھلاکھلم اظہارکر رہے تھے…جی ہاں…… اشرف غنی،جوابھی دوڈھائی عشرے قبل پاکستان میں پناہ گزین تھے اوربعدازاں اپنے مربی وآقاامریکاکی قدم بوسی کواپناملجاوماویٰ مان لیا۔ پاکستان میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں آباداسلام آباد کے ایک پر آسائش علاقے میں اوربعدازاں امریکا میں رہائش پذیرتھے اور چین کی بانسری بجاتے تھے۔ وہ ان افغانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے افغانستان میں روسی افواج کے داخلے کے بعد پاکستان کارخ کیاتھا۔نہ وہاں رہ کرمدافعت کی جنگ لڑی نہ یہاں آکر مزاحمت کی کوشش کی۔ ایک قبائلی اور نیم متمدن معاشرے سے نکل کرایک مہذب اورمتمدن سوسائٹی میں آئے توامریکاکی رنگینیوں میں کھو گئے۔ اشرف غنی تو خیرکچھ عرصے بعد خداکی شان دیکھنے امریکا کی طرف نکل گئے لیکن ان کے لاکھوں ہم وطن پاکستان بھرمیں پھیل گئے جوآج بھی لاکھوں کی تعدادمیں موجودہیں۔

انہوں نے پاکستان میں جائیدادیں خریدیں،تجارت کی، پاکستان کی قومیت اختیار کی،پاکستان کاپاسپورٹ حاصل کیااور بھول گئے کہ افغانستان میں ان کے بھائیوں پرکیاگزررہی ہے ۔ افغانستان توخیردورکی بات تھی۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل،ان موقع پرستوں کوتوان افغانوں کی بھی پروا نہیں تھی جوروسی جارح افواج کے ہاتھوں تباہ ہوتے علاقوں سے خالی ہاتھ نکلے تھے اورافغانستان کی سرحدسے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں خاردار تاروں کے پیچھے بسائی گئی خیمہ بستیوں میں ٹھہرادئیے گئے تھے۔ہجرت توگلبدین حکمت یاراوران کے رفقاء نے بھی کی تھی۔ اسلام آبادکاسفرگلبدین حکمت یارنے بھی اختیار کیاتھا لیکن یہاں کی پرآسائش زندگی اختیارکرنے کے لئے نہیں بلکہ یہاں کے حکمرانوں سے اپنے ہم وطنوں کی جدوجہد آزادی میں تعاون حاصل کرنے کیلئے، اپنی زمین کوروسیوں کے نوکیلے پنجوں سے چھڑانے اور ناپاک قدموں سے پاک کرنے کیلئے۔

جب اشرف غنی معطرلباس میں ملبوس محفوظ اورمامون اسلام آباداورامریکا کی خوبصورت اورخشک شاموں میں چہل قدمی کے لئے گھر سے باہرنکلتے تھے تب گلبدین حکمت یارافغان مہاجرکیمپوں میں مقیم پناہ گزینوں کو''مجاہد''بنانے میں مصروف ہوتے تھے یاان مجاہدوں کے ساتھ مل کرافغانستان پر قابض روسی افواج کے محفوظ ٹھکانوں پرشب خون مارنے کی تیاریاں کررہے ہوتے تھے۔ اشرف غنی کوکیامعلوم اس وقت کراچی سے پشاورتک پاکستانیوں کے جذبات کیاتھے۔ وہ افغان مہاجروں کے میزبان بھی تھے اور افغانستا ن کی آزادی کے لئے لڑنے والے مجاہدین کے پشتیبان بھی۔صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھرکے مسلمانوں نے روسی جارحیت کے خلاف مزاحمتی تحریک کی حمایت کی تھی، سرمایہ فراہم کیاتھا،اپنی جوان اولادیں افغانوں کے دوش بدوش لڑنے کے لئے بھیجی تھیں۔ ان مجاہدین کو افغانستان کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں ہی میں اپنے کیمپ قائم کئے تھے۔ ہرچندکہ ایران کی طویل سرحد افغانستان سے ملتی تھی لیکن انقلاب ایران کے شیعہ پس منظرمیں مجاہدین کے لئے وہاں قیام آسان نہیں تھا۔ تب افغانستان کی آزادی کے لئے لڑنے والوں نے پاکستان میں تربیتی مراکزبھی قائم کیے تھے اورگوریلا کارروائیوں کے لئے لانچنگ کیمپ بھی۔ یہ ایک پرخطرراہ تھی جو پاکستانی حکمرانوں اور عوام نے بہت سوچ سمجھ کر اختیارکی تھی۔

تب نورمحمدترہ کئی اورببرک کارمل جیسے حکمران پاکستان کے بارے میں ایسی ہی زبان استعمال کرتے تھے،تب کے جی بی اور خادنے ''را''کے ساتھ مل کر پاکستان کے طول وعرض میں دہشت گردی کابازارگرم کررکھاتھا۔ شہروں شہروں بم دھماکے کئے تھے۔پاکستانیوں کوموت کے گھاٹ اتاراتھااور ان کے پاکستانی ایجنٹوں نے یہ کہہ کر قوم کے زخموں پرنمک چھڑکا تھا کہ جب پاکستانی حکمران افغانستان کے معاملات میں مداخلت کریں گے توجواب میں ان پرپھول نہیں بم ہی برسیں گے۔ لیکن اس تمام اشتعال انگیزی کے باوجودپاکستانیوں نے افغانستان کے جہادکی پشتیبانی کی تھی،اپنے سپوتوں کے وہ لاشے بھی صبر کے ساتھ دفنائے تھے جوپاکستان میں دہشت گردی کاشکار کئے گئے تھے اور ان جوانوں کے لاشوں کو بھی عزیمت کے ساتھ وصول کیاتھا جنہوں نے افغانستان میں جامِ شہادت نوش کیاتھا۔

بات یہیں تک محدودنہیں رہی،وہ فوجیں جواس عزم کے ساتھ دریائے آموکےپاراتری تھیں کہ ان کاایک قدم افغانستان میں اوردوسراپاکستان میں ہوگا،جس کے بعدگرم پانیوں کے سمندران کی دسترس میں ہوں گے اورزمانہ ان کے قدموں میں ،جب افغانستان میں مارکھاکر واپس پلٹیں توکابل کے حکمرانوں کادنیا میں کوئی نام لیوانہیں رہااوردنیا پرحکمرانی کاخواب دیکھنے والے ملک یوایس ایس آرکے ٹکڑے ہوگئے،کوئی یہاں گراتوکوئی وہاں گرا۔

لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان سے روسی پسپائی کے نتیجے میں افغان مجاہدین خوامخواہ اس وہم میں مبتلاہو گئے کہ یہ جنگ انہوں نے جیتی ہے۔ان کاخیال ہے کہ یہ جنگ امریکیوں کے اسلحے،پیسے اورٹیکنالوجی نے جیتی ہے ممکن ہے یہ لوگ ٹھیک کہتے ہوں لیکن ایک مضبوط تھیسس یہ بھی ہے کہ روس نے یہ جنگ افغانیوں کی جانبازی اور پاکستانیوں کی پشت پناہی کے سبب ہاری ہے، تبھی توفلسطینی جنگجوحسرت سے کہتے تھے کہ اگر فلسطین کی سرحدیں پاکستان سے ملی ہوتیں تو اسرائیل کی سرحدیں پھیلنے کی بجائے سکڑناشروع ہوجاتیں۔

روس کی شکست کاسبب افغان جذبہ اورپاکستان کی پشت پناہی ہویاامریکی اسلحہ، سوال یہ ہے کہ اس ساری کشمکش میں اشرف غنی کہاں تھے؟وہ گلبدین حکمت یارکے ساتھ نہیں تھے گوریلاجنگ نہیں لڑی ،وہ حکمت یارکی طرح اپنے بھائی کی لاش کے ٹکڑے نہیں سمیٹے…اگروہ افغان پناہ گزین کیمپوں، مجاہدین کے تربیتی کیمپوں یاطورخم کی سرحد کادورہ کرنے والے امریکی سفیر کے ہمراہ ہوتے اوراس لمحے کے گواہ بن جاتے جب امریکی سفیراللہ اکبر کے نعرے لگا کرافغان مجاہدین سے اظہار یکجہتی کرتاتھا توبھی ہم مان لیتے کہ اشرف غنی کاافغانستان میں بسنے والوں سے کوئی تعلق ہے۔ مجاہدین افغانستان اورپاکستان کے خلاف بات کرنے سے قبل اشرف غنی کوسوچناچاہئے کہ وہ تواپنی''مادر وطن'' کوچھوڑکربھاگ گیاتھا۔ اگرپاکستان اورعرب ملکوں سے آئے ہوئے مجاہدین اپنی جانوں پرکھیل کرروسی ریچھ کوواپس پلٹنے پر مجبور نہ کرتے تو وہ اس وقت کہاں ہوتا؟

اشرف غنی صاحب!آپ کومعلوم ہوناچاہئے افغانستان میں خونریزی اورانتشار کے اصل ذمہ داروہ لوگ ہیں جوروس کی پسپائی کے بعد افغانستان میں اسلام کے غلبے کے تصوّر سے خوفزدہ تھے۔ انہی لوگوں نے افغانستان میں افغانوں کوآپس میں لڑایا، طالبانائزیشن کوفروغ دیااوربالآخرافغانستان پرنیٹوافواج کے ذریعے قبضہ کرلیا۔ مجھے بتائیے کہ افغانستان پرروسی فوج کے قبضے اورنیٹوفوج کے قبضے میں کیا فرق ہے ؟اگرکل روسی فوج کے خلاف جدوجہد جائزتھی،اگر تب آپ کا پاکستان میں قیام جائزتھاتو آج نیٹوافواج کے خلاف جدوجہد کیوں ناجائزہےاورطالبان کی قیادت اگروہ پاکستان میں ہیں بھی،توان کایہاں قیام کیوں ناجائز ہے؟

مجھے نہیں معلوم آپ کاقبیلہ کتنابڑااورکتناطاقتورہے لیکن یہ توآپ بھی جانتے ہیں کہ آل تیمورآپ کے قبیلے ہی نہیں پوری افغان قوم سے تعداد میں زیادہ اور قوت میں بڑھ کرتھےتبھی وہ آپ کو روندتے ہوئے ہندوستان تک آئے تھے اور دہلی میں بیٹھ کرافغانوں پرحکمرانی کی تھی،لیکن اسلام دشمنی اور سیکولرازم نے آل تیمور کوکہیں کانہیں چھوڑا۔ پھر یوں ہوا کہ… حمیت نام تھاجس کا،گئی تیمورکے گھرسے…دلی میں نقارے پرچوٹ لگتی تھی اورنقیب کی صداگونجتی تھی'' ملک اللہ کا،حکومت بہادر شاہ ظفر کی، حکم ایسٹ انڈیاکمپنی کا''لیکن یہ دور زیادہ دیرتک نہیں چلا۔بہادرشاہ ظفر کواپنے جوان صاحبزادوں کے''بریدہ سر''خوانِ نعمت کے طور پرقبول کرنا پڑے۔فرزندِتیمورکو جلاوطن ہونا پڑا اوربات یہاں تک پہنچی کہ..… دوگززمیں بھی نہ ملی کوئے یارمیں۔

اشرف غنی!تم سے پہلے نورمحمد ترہ کئی اورببرک کارمل اور(تمہارے آقاؤں کاتمہاری طرح کامقرر کردہ وحمائت یافتہ)چغہ پوش مسخرہ حامد کرزئی کے زمانوں میں بھی افغان حکومت کابل تک محدودتھی۔تب عملاً یہ صورتحال تھی کہ… ''ملک افغانوں کا، حکومت نورمحمد ترہ کئی، ببرک کارمل کی،حکم روسی افواج کا۔'' آج تمہاری حکومت بھی کابل شہرتک محدود ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ ''ملک افغانوں کا،حکومت اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ کی مگرحکم امریکااوراس کی افواج کا‘‘۔

بھائی!پہلے کابل سے طورخم تک کاعلاقہ اس قابض افواج سے خالی کراؤ، یہاں افغان فوج کوتعینات کرو، پھربے شک پاکستان کو دہمکیوں سے مرعوب کرنے کی طفلانہ کوشش کرنا،اگرتم یہ بھی نہیں کرسکتے اوریقیناًنہیں کرسکتے، اگر امریکی افواج کے بل بوتے پرہم سے بدزبانی کررہے ہوتویادرکھو کہ روسی فوج کے بل بوتے پردھمکیاں دینے والے نورمحمدترہ کئی اورببرک کارمل رہے نہ روسی فوج اورنہ روس…لکھ رکھو،نہ تم رہوگے نہ امریکی فوج وامریکا بہادر اورنہ ہی بھارت جس کے تاریخی رشتوں کی تم مثال دیتے ہو۔تاریخ میں لکھاجا چکا''یوایس ایس آر''تھا۔ تاریخ میں لکھا جائے گا ''یوایس اےاوربھارت بھی تھے‘‘ ،رہ گئے ہم……تواگرہم اپنے گھروں میں قتل کردئیے گئے،تب بھی روزِمحشر سرخرواٹھیں گے اوراگرتم اپنے محل میں برسہابرس جی لیے تب بھی روزِ محشرسیاہ رورہوگے۔کیاتمہیں اپنے اس انجام سے خوف نہیں آتا؟
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.