آپریشن راہ نجات اور بحالی کے اقدامات

جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات کا آغاز 2009ء میں کیا گیا جسکے اثرات کے طورپر ہزاروں کی تعداد میں گھرانے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوگئے۔ یہاں پر کیونکہ مسعود قبائل کے رشتہ دار ، عزیز پہلے سے آباد تھے وہ ان مہاجرین کا سہارا بنے جبکہ دیگر لوگ کیمپوں اور کرائے کے گھروں میں مقیم ہوگئے۔ آپریشن راہ نجات کے باعث جنوبی وزیرستان کے کئی علاقوں سے طالبان نقل مکانی کی یا وہ مارے گئے۔ جسکے اثرات ڈی آئی خان اورپاکستان کے دیگر شہروں پر بھی مثبت پڑے۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی واقع ہوئی۔ آپریشن کے باعث جنوبی وزیرستان کے بیشتر گاؤں جن میں لدھا، مکین، طیارزہ، سلطانہ، کانی گرم و دیگر کئی علاقوں میں سکولوں، کالجوں، مساجد، مدارس، گھروں، آمدورفت کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ جسے پاک فوج نے پہلے سے بھی بہتر اندا زمیں بحال کرنے کا سلسلہ گذشتہ دو تین سالوں سے شروع کررکھاہے۔ ڈیرہ سے ٹانک کے ضلع تک 40میل طویل سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی جسے سابق گورنر کے پی کے جنرل فضل حق مرحوم کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا ، کو اب دوبارہ تعمیر کردیا گیاہے۔ جسکے باعث ڈیرہ سے ٹانک تک کا فاصلہ سمٹ کر رہ گیاہے۔ اسی طرح ٹانک براستہ جنڈولہ ، سراروغہ، مکین لدھا تک اور پھر لدھا سے وانا تک شاندار سڑک بنائی گئی۔ وانا سے براستہ گومل ٹانک تک بھی سڑک تعمیر ہوگئی ہے۔ یہ سڑکیں انگریزکے دور میں تعمیر کی گئی تھیں۔ پہلے ٹانک سے پک اپ گاڑی میں لدھا تک 6گھنٹے کی مسافت تھی جو اب سمٹ کر صرف 2گھنٹے رہ گئی ہے۔ اسی طرح لدھا کانی گرم سے براستہ کڑمہ کی سڑک تعمیر ہونا باقی ہے۔ جبکہ ٹانک سے وانا کا فاصلہ 92کلومیٹر تھا جسے طے کرنے میں 5گھنٹے لگتے تھے اب ٹانک سے براستہ گومل وانا کا راستہ کم ہوگیاہے۔ جنوبی زیرستان کے علاقے کو قدرت نے ہر قدرتی حسن سے نوازا ہے۔ یہاں کے خوبصورت پہاڑ، چشمے، ٹھنڈا موسم، سیب، چلغوزے، بادام، انگور و دیگر فروٹ اپنی مثال آپ ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں کے برے حالات کی وجہ سے یہ مقام عام لوگوں کیلئے تفریحی مقام نہ بن سکا کیونکہ یہاں پر طالبان عنصر سے پہلے ہی اغواء برائے تاوان کی وارداتیں عام تھیں۔ قبائل کی آپس میں خاندانی دشمنیوں نے بھی اس علاقے کو دیگر پاکستانیو ں کی نظر سے دو ررکھا۔ خاص کر ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ جو گرمی کے باعث مری، کاغان، ناران، سوات وغیرہ کا رخ کرتے ہیں اب جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کی کارروائیو ں کے باعث قدرے حالات بہتر اور اور سکون کی طرف مائل ہیں ۔ نقل مکانی کرنے والے محسود قبائل آہستہ آہستہ واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آپریشن کے دوران جسکا مکان مکمل تباہ ہوا اسے 4لاکھ اور جزوی نقصان والے مکان کو ایک لاکھ 60ہزار کی رقم ادا کی جارہی ہے۔ جبکہ کئی علاقوں میں سکولوں، کالجوں، مساجد، پارکوں کی تعمیر مکمل کرلی گئی ہے۔ یو اے ای کی حکومت کی مدد سے دو بہترین ہسپتال تعمیر کئے گئے ہیں جو جدیدمشینری و آلا ت سہولیات سے آراستہ ہیں۔ لدھا میں ڈگری کالج تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ 770دوکانو ں پر مشتمل مارکیٹ بھی تعمیر کی گئی ہے۔ سب ڈویژن لدھا میں گذشتہ دنوں پی اے جنوبی وزیرستان نے مختلف مقامات پر لوگوں میں دو کانوں کی چابیاں تقسیم کیں۔ یہ دوکانیں لدھا، سام اور طیارزہ کے مقام پر تعمیر کی گئی ہیں۔ جنہیں پاک آرمی نے تعمیر کیا ۔ راہ نجات آپریشن کی کامیابی اور بحالی کے سلسلے میں ہونے والی کامیابیوں اور اقدامات کے بارے میں میجر جنرل خالد جاوید نے بتایا کہ یہاں سے شرپسند عناصر کا مکمل خاتمہ کردیاگیاہے۔ اب ان کے یہاں پر کوئی ٹھکانے نہیں ہیں۔ اب قبائل بچوں کے ہاتھوں میں اسلحہ کی بجائے دوات اور قلم ہوگی جس کیلئے 2کیڈٹ کالجز، 3ڈگری کالجز، 3آرمی پبلک سکول کے علاوہ سینکڑوں کی تعدا دمیں دیگر سکول تعمیر کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف جنوبی وزیرستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر کیڈٹ کالج موجود ہے۔ صحت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہاں ایسے جدید ہسپتال موجود ہیں جن کی مثال پاکستان کے دیگر شہروں میں نہیں ملتی۔ انہوں نے گشتہ روز جاوید سلطانی کیمپ وانا میں ایک عشائیہ کے دوران بتایا کہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ زام چنہ سے لیکر شمالی وزیرستان تک بھی ایک بڑی شاہراہ پر کام تیزی سے جاری ہے جبکہ علاقہ محسود کو معاشی استحکام دینے کیلئے مکین سے لیکر پاک افغان سرحد تک جدید سڑک تعمیر کی جائیگی۔

جنوبی وزیرستان میں جاری ترقیاتی اور بحالی کے اقداما ت پر بہتری سے عمل درآمد ہورہاہے۔ سڑکو ں کے جال ، بہتر تعلیم، صحت کی سہولیات کے باعث یہاں پر مقیم برسوں سے پسماندگی کا شکار لوگ دیگر ترقی پذیر شہروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوسکیں گے۔ اب ایم این اے پی ٹی آئی داوڑ خان کنڈی کی کوشش سے ٹانک کے ضلع میں گومل یونیورسٹی کی Affiliatedبرانچ کا اعلان بھی ہوچکاہے۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ سڑکوں کے جال کے باعث دفاعی لحاظ سے بھی اس علاقے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جبکہ تجارتی لحاظ سے ڈیرہ، ٹانک ، وانا، انگور اڈا افغانستان تک رسائی ہوگئی ہے۔ ڈیرہ کا شہر جو پنجاب اور بلوچستان کی بارڈر پر واقع ہے جنوبی وزیرستان کے راستے افغانستان سرحد تک پہنچا بہت آسان اور کارآمد راستہ بن گیاہے۔ اگر یہاں پر امن و امان کی صورتحال مزید بہتری کی جانب گامزن رہی تواسے ترقی و کامرانی کی منازل کو طے کرنے میں زیادہ دیر نہ لگے گی۔ جنوبی وزیرستان کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزگار کے سلسلے میں عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں گئے ہوئے ہیں ان کے اپنے علاقوں میں صورتحال بہترہونے پر انہیں گھر بیٹھے روزگار میسر ہوگا اور ڈیرہ اسماعیل خان ، بھکر، دریاخان، میانوالی، لیہ، کلورکوٹ وغیرہ کے گرمی کے دنو ں میں لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے جنوبی وزیرستان جیسے خوبصورت پر فضاء ٹھنڈے علاقوں سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 138607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.