ترکی میں فوجی بغاوت اسلام پر حملہ

 ترکی میں 15 جولائی 2016 ء کو طیب اردگان کی حکومت کو گرانے کیلئے ترک فوج میں سے چند فوجیوں نے بغاوت کردی جس سے مسلم دنیا میں ایک غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی کہا جارہا ہے کہ ترکی میں اس بغاوت میں ایک فوجی کرنل محرم کوسا کا نام سامنے آیا ہے جس نے دوہرا کردار ادا کیااس کے امریکہ میں موجود فتح اﷲ گولن گروپ اور شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ روابط تھے،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکہ اور ایران اس بغاوت کے مرکزی کرادر ہیں کرنل محرم کوساترک فوج کے آرمی چیف بلوزی اکار کے لیگل ایڈاوئزر تھے جنھیں پروفیشنل فرائض میں بے ضابطگیوں کے باعث بغاوت سے چند گھنٹے قبل عہدے سے برطرف کیا گیا۔جب یہ بغاوت ہوئی تو دمشق اور حلب میں جشن منایا گیا کہ ہمارے مذہب کے لوگوں نے ترک پر قبضہ کرلیا مگر درحقیقت باغی ناکام ہو چکے تھے اس بغاوت میں 5جرنیل اور 29 کرنل شامل تھے ایک سو کے قریب لوگ قتل ہوئے 2839کو گرفتار کرلیا گیا ۔

ترکی میں فوجی بغاوت کرنے والوں کو امت مسلمہ کامجرم قرار دیا جارہا ہے کہا جارہا ہے کہ طیب اردگان مسلمانوں کا حقیقی لیڈر ہے جس کی پالیسیاں امت مسلمہ کے جذبات کی عکاس ہیں طیب اردگان نے امت مسلمہ کو ایک مثبت پیغام دیا ہر برے وقت میں مسلمانوں پر دست شفقت رکھاجس کے باعث طیب اردگان مسلمانوں کا ایک حقیقی لیڈر بن کر ابھرا ، اسلام دشمنوں کو ایسا جرأت مند لیڈر قبول نہیں اس لئے ترکی کو کنٹرول کرکے امریکی کٹھ پتلی حکومت قائم کیلئے پروگرام بنایا گیا تاکہ کہ مسلمانوں سے جرأت مند لیڈر چھین لیا جائے مگر سلام ہے ترک عوام کی جرأت کو کہ انھوں نے اپنے مخلص لیڈر کو کمیوں اور کوتاہیوں چند ناپسندیدہ پالیسیوں کے باوجود تحفظ دیا ٹینکوں کے آگئے لیٹ کر اپنی جانیں قربان کردیں مگر اپنے مسیحا پر آنچ نہیں آنے دی۔

غور کا مقام ہے کہ سعودی عرب پر حملے کروانے والے ہی ترک بغاوت کے مجرم کیوں ٹھہرے ہیں؟ اس میں کیا رزا ہے جو ابھی تک مسلمان نہیں جان سکے ؟افغانستان کی اسلامی حکومت خاتمے سے ترک میں فوجی بغاوت تک ایران کا نام ہی کیوں آتا ہے ؟کیا کبھی مسلمانوں نے ایران کے مکروہ کردار پر غور کرنے کی کوشش کی ؟کیا اسلام کے روپ میں اسلام دشمن کا چہرہ سب کے سامنے آیاں نہیں ہو گیا؟ امریکہ اور ایران کا ترک بغاوت میں بطور سر پرست نام آنا ظاہر کر رہا ہے کہ اسلام کا ازلی دشمن امریکہ ایران کو بطور ایجنٹ استعمال کرکے مسلم دنیا میں بدامنی پھیلا نا چاہتاہے آخر کب تک امت مسلمہ ایران کے اس منفی کردار پر خاموش تماشائی کے مجرمانہ کردار کو ہر بار دہراتی رہے گی؟کیا امت مسلمہ کو ان حالات میں نہیں چاہیے کہ وہ ایران کو سخت پیغام دے کہ اپنے گھٹیا کردار پر نظر ثانی کرے بصورت دیگر امت مسلمہ ایران سے تعلقات ختم کردے گی ۔دانشوران امت کی طرف سے کئی بار یہ کہا جا چکا ہے کہ ایران کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا امریکہ کے ہاتھوں ٹشو پیپر کی طرح ایران کا استعمال یقیناً امت مسلمہ کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ایران شائد ان کاروائیوں سے یہ چاہتا ہے کہ مسلم دنیا پر شیعہ مذہب کی حکومت قائم کرلے گا تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ مسلمان ایسا کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے عقائد کے شدید اختلافات کے باعث ایسا کسی صورت ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔سعود ی عرب میں حملے کے باغیوں کو بھی ایران نے اسی لئے سپورٹ کیاتھا کہ اگر یہ حملہ کامیاب ہوجاتا ہے تو سعودی عرب ایران کے کنٹرول میں آجائے گا جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظرمیں ایران کا گراف بری طرح گرا تحفظ حرمین شریفین تحریک چلائی گئی جو اس وقت حالیہ خود کش حملوں کے باعث کافی متحرک ہو گئی ہے،سعودی عرب کے مضبوط دفاع کے پیش نظر ایک فوجی اتحاد بھی معرض وجود میں آیاجس ایسی طاقتوں کو شامل نہیں کیا گیا۔اب ترک میں پھر ایران کا نام آیا ہے ،میڈیا رپورٹ کے مطابق شیعہ اکثریتی ممالک میں جہاں ان کی حکومتں قائم ہیں وہاں جشن منایا جانا ان کے عزائم کا واضح اظہار ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ تو اسلام دشمن ہے ہی اس نے تو ہر حال میں اسلام دشمنی کرنی ہی ہے مگر اسلام،مسلمان ہونے کا دعویدار ایران ایسی حرکتیں کرکے کس بنیاد پر خود کو مسلمان کہلا کر اسلام دشمنی کر رہا ہے ؟ایران کو چاہیے کہ اسلام دشمنی ،مسلم ریاست دشمنی،مسلم ریاستوں کو فسطائیت کے ذریعے یرغمال بنانے کی روش چھوڑ دے ورنہ مسلم دنیا اس سے اظہار لا تعلقی کرنے پر مجبور ہوجائے گی اور ایران مسلم دنیا میں تنہا رہ جائے ایران کے اس کردار کے باعث مسلم ممالک میں ایران یا شیعہ مذہب کے حامیوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔اگر ایران اپنی روش درست نہیں کرتا تو مسلم دنیا کو چاہیے کہ کہ وہ فوری امریکہ اور ایران کے سفیروں کو اپنے ممالک سے ملک بدر کریں اور اس سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرے۔مسلمان سمجھ رہے ہیں کہ ترکی میں فوجی بغاوت کرنے والے سلام پر حملہ آور ہوئے ہیں انھیں کسی قیمت پر معاف نہ کیا جائے امت مسلمہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے،تاکہ آئندہ کسی کو ایسا حرکت کرنے کی جرأت نہ ہو ۔ترک صدر طیب اردگان کا مسلم دنیا مکمل ساتھ دے ،آخر میں ساری دنیا کی مسلم عوام کے نام پیغام ہے کہ اپنے اندر ترک عوام جیسی جرأت پیدا کریں وہ لیڈران کرام جو اسلام اور مسلمان عوام کے سچے خیر خواہ ہیں ان کے تحفظ اور انھیں اقتدار تک لانے ،ان کے اقتدار کو بچانے اور اپنی مملکتوں میں اسلامی نظام قائم کرنے کیلئے اپنے اندر جرأت وبہادری پیدا کریں اس وقت مسلم دنیا میں عوام دوست لیڈرشپ کی اشد ضرورت ہے ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.