گیلی پولی سے ۱۶ جولائی تک کے سو سال

انسانی یادداشت محدود ہوتی ہے اور پھر ایک صدی کا طویل عرصہ بھی کم نہیں ہوتا۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کا جزیرہ نما گیلی پولی ایک تاریخی جنگ کا میدان تھا۔ گیلی پولی اسی استنبول کے جنوب میں واقع ہے جہاں ابھی حال میں ترکی عوام نے فوجی بغاوت کا سر کچل دیا۔ اپریل ؁۱۹۱۵سےجنوری ؁۱۹۱۶ کے درمیان یہاں عثمانی ترکوں اور اتحادیوں یعنی سلطنت برطانیہ اور فرانس کے مابین پہلی جنگ عظیم کی ایک اہم معرکہ آرائی ہوئی۔ اس جنگ میں ترکوں نے فتح حاصل کی۔اس جنگ کا مقصد سلطنت عثمانیہ کو شکست دے کر جنگ سے علیحدہ کرنا تھا اس بار پھر ترکی کو مشرق وسطیٰ میں اہم کردار ادا کرنے سے روکنا اور اپنا حلیف بنا ئے رکھنا تھا ۔ اس جنگ میں ۷ لاکھ ترک اور ساڑھے ۵ لاکھ اتحادی فوجی مارے گئے تھے لیکن اتحادیوں کا حملہ ترکوں کی بے مثل مزاحمت اور شجاعت کی تاب نہ لاسکا تھا۔ ۹ جنوری ؁۱۹۱۶ کو اتحادی فوجیں شکست فاش سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑی ہوئی تھیں ۔ اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اتحادی کمانڈر ونسٹن چرچل کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور برطانوی وزیر اعظم ایسکویتھ کو بھی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑاتھا۔اس فتح نے ترکوں کے حوصلے بلند کر دئے تھے اور اس بار پھر یہی ہوا ہے۔

پہلی جنگ عظیم کی نہ تو ابتداء مسلمانوں نے کی تھی اور نہ ہی اس کا خاتمہ مسلمانوں کی مرضی سے ہوا۔ اس جنگ کا آغاز آسٹرو ہنگری شہنشاہیت میں ولیعہد شہزارہ فرنانڈو کے قتل سے ہوا تھا جسے پڑوسی ملک سربیاکے ایک قوم پرستنے قتل کردیا تھا ۔ یہ دونوں عیسائی ممالک تھے ۔ اس کے بعد آسٹریا کے ساتھ جرمنی ، ترکی اور اٹلی آگئے جبکہ سربیا کے ساتھ فرانس ،برطانیہ، روس، بیلجیم ،جاپان اور امریکہ نے دیا۔ جرمنی کے ہتھیار ڈال دینے سے ترکی بھی شکست خوردہ اتحاد کا بن گیا تھا ۔ اس خونخوار جنگ میں ۹۰ لاکھ فوجی مارے گئے اور دو کروڈ دس لاکھ فوجی زخمی ہوئے۔ شہریوں کی موت کا تخمینہ ایک کروڈ ہے جس میں سب سے زیادہ جرمنی اور فرانس کے لوگ تھے ۔ اس جنگ کے خاتمہ پر خلافت عثمانیہ کے علاوہ روسی، آسٹریا اور ہنگریائی نیز جرمنی کی شہنشایت کا سورج غروب ہوگیا۔ اس جنگ کے بعد خود ترکی تو مغرب کی غلامی سے محفوظ رہا لیکن خلافت عثمانیہ میں شامل دیگر ممالک کو فتحیاب اتحادیوں نے آپس میں تقسیم کرلیا۔ ان میں سے کچھ ممالک میں اپنے پٹھو مسلط کردئیے اور کچھ میں براہ راست حکومت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ پہلامتبادل کسی قدر کامیاب رہا لیکن جن ممالک میں برطانیہ اورفرانس نے اپنی نوآبادیات قائم کیں وہ یکے بعد دیگرے آزاد ہوتے چلے گئے۔

انگریزوں کی غلامی کے خلاف مسلم دنیا میں مذہبی طبقات نے مزاحمت کی اس لئے وہ حکمرانوں کی نظر میں مشکوک و مقہور ٹھہرے۔ اس کے برعکس انگریزی داں روشن خیال لوگوں نے انگریزوں کی چاکری اختیار کرکے اپنا مستقبل روشن کرنا شروع کردیانتیجتاًوہ اپنےآقاوں کے منظور نظر بن گئے۔ فوج میں شامل ہوکر بھیوہی لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے اور مغرب کے فکروعمل کی مکمل غلامی اختیار کرلی ۔ انگریزوں کیلئے جب عوامی مزاحمت کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوگیا تو وہ اقتدار کی باگ ڈور اپنے غلاموں کے حوالے کرکے لوٹ گئے۔ آگے چل کر جب سرد جنگ کا زمانہ آیا تو یہ حالت ہوئی کہ مغرب نواز بادشاہ امریکی سامراج کے باجگذار بن گئے اور فوجی آمر سوویت یونین کی وفاداری کا دم بھرنے لگے ۔ اس طرح مسلم دنیا مغرب ہی کے دو غلام آپس میں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار تھے اور ان کا مشترکہ دشمن اسلام پسند تحریکیں تھیں ۔ اسلام کے علمبردار چونکہ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کو چیلنج کرتے تھے اس لئےدونوں بڑی طاقتیں اپنے غلاموں کی مدد سے اسلام کی سرکوبی میں مصروفِ عمل تھیں ۔
ایرانی انقلاب کے بعد مسلم دنیا میں پہلی تبدیلی یہ آئی کہ نئے حکمرانوں نے امریکہ کے مہرے شاہ ایران کو بے دخل کرنے کے بعد سوویت یونین کے کیمپ میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ ایران کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے پہلی مرتبہ امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے مل کر صدام حسین کی حمایت کی ۔ سرد جنگ کے زمانے یہ تصور محال تھا۔ مغرب کو دوسرا جھٹکا اس وقت لگاجب مجاہدین افغانستان نے سوویت یونین کو ملک سے نکالنے کے بعد امریکہ کو بھی راستہ ناپنے کا حکم دے دیا۔امریکہ بہادر کو یہ توقع ہرگز نہیں تھی۔ اس دوران ترکی اور غزہ میں اسلام پسندوں کو کامیابی ملی اور پھر عرب بہار نے اخوان المسلمون کو بر سرِاقتدار کرکے مغرب کی نیند اڑا دی ۔ مغرب کے سارے منصوبوں پر پانی پھیرنے والی یہ تبدیلیاں اسکے خواب و خیال سے پرے تھیں۔ اس لئے پھر ایک بار فوجی بغاوت والافرسودہ حربہ آزمایا گیا۔ مصر کے اندرتومغرب کا میاب ہوا لیکن ترکی میں یہ آزمودہ نسخہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکا۔

گیلی پولی کی شکست کے بعد یوروپ نے ترکی کو غلام بنانے کا خیال اپنے دل سے نکال دیا ۔ اب یہ حکمتِ عملی اختیار کی گئی کہ جس مصفیٰز کمال اتاترک نے اتحادی افواج کو میدان جنگ میں ناکوں چنے چبوا دئیے تھے اسی کو اپنا حلیف بنا لیا اور اس کے ذریعہ اسلام کی بیخ کنی میں لگ گئے ۔ مغرب جانتا تھا کہ اصل مسئلہ رہنما کا نہیںدین کا ہے اگر عوام کو دین اسلام سے برگشتہ کردیا جائے تو سیاسی غلبہ کے بغیر بھی انہیں غلام بنایا جاسکتا ہے۔ اس لئے بیرونی حملے کے بجائے اندرونی فوجی بغاوت کا استعمال ہونے لگا۔ اس قابلِ مذمت سلسلہ کی بنیاد بدقسمتی سے جدید ترکی کے معمار سمجھے جانے والے مصطفیٰ کمال اتاترک سے ہوئی جس نے ؁۱۹۲۰ میں خلافت عثمانیہ کے آخری تاجدار خلیفہ وحید الدین سریر آرائے کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا تھا۔

اتاترک کی موت کے ۲۲ سال بعد ؁۱۹۶۰ میں ایک اور خونی فوجی بغاوت کے ذریعے وزیر اعظم عدنان مینڈیرس کو معزول کردیا گیا ۔ جنرل جمال گورسل ترکی نے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کے بعدانہیں پھانسی دے دی ۔ اس کے بعد ؁۱۹۷۱ اور ؁۱۹۸۰ میں بھی اقتدار پر جابرانہ قبضے کی کوششیں کی گئیں اور جرنیلوں نے عوام کے نمائندوں کو ہٹا کر ملک کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ ؁۱۹۹۸ میں آخری بار جب وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی مذموم حرکت کی گئی تھی تو اس وقت رجب طیب اردغان کو استنبول کے میئر کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا پڑا تھا لیکن ۱۶ جولائی ؁۲۰۱۶ کو جب پھر سے اس کا اعادہ کیا گیا دلیر و بیدار مغز ترک عوام نے اسےناکام بنا دیا۔

رجب طیب اردغان گزشتہ ۱۳ سالوں سے برسرِ اقتدار ہیں ۔اس سے قبل ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے چار سے پانچ بار کوششیں کی گئیں جنہیں ابتدائی مراحل ہی میں ناکام بنا دیا گیا۔ ایک مرتبہ تقسیم اسکوئر پر ہنگامہ اور احتجاج اس قدر بڑھ گیا تھا کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں یوں لگنے لگا تھا گویا اے کے پی کی حکومت بس چند دنوں کی مہمان ہے۔ خود مجھے اس دوران استنبول جانے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ شہر کے حالات بالکل معمول پر ہیں ۔ لوگ اپنے روزمرہ کے کام کاج میں مصروف ہیں ۔ ایک میدان میں چند سواشتراکی مظاہرین ڈیرہ ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں جسے بین الاقوامی سطح پر یوں پیش کیا جارہا ہے گویا کوئی عظیم سرخ انقلاب انگڑائیاں لے رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے استنبول کے دورے نے میری ساری تشویش دور کردی اس لئے کہ حقیقت وہ نہیں تھی جو اخبارات میں یا ٹیلی ویژن کے پردے پر دکھائی دیتی تھی۔ اس دوران ایک جلوس کا آنا اور تشدد برپا کردینا نیز حفاظتی دستوں کے ذریعہ آنسو گیس کے ذریعہ ان کا منتشر کردیا جانا بھی میں نے دیکھا اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ تحریک عوام کی بڑی حمایت سے محروم ہے۔ اس وقت دہلی میں بابا رام دیو اور انا ہزارے کے ذریعہ چلائی جانے والی تحریکیں بھی استنبول کی تحریک سے زیادہ مقبول تھیں۔

اس دوران دستور میں جائز ترمیم کے بعد اردغان عوام کی براہِ راست رائے سے صدر بن چکے تھے۔ اردغان پر الزام لگ رہا تھا کہ وہ ملک کو آمریت کی جانب لے جارہے ہیں ۔ یہ عجیب لطیفہ تھا کہ امریکی صدر کا براہ راست منتخب ہونا جمہوریت ہے اور اردغان کی اسی حرکت کو آمریت قرار دیا جارہا تھا ۔ پچھلے سال کے انتخاب میں جب اے کے پی کو واضح اکثریت نہیں ملی تو اس نے حلیف جماعتوں کی مدد سے حکومت سازی کی اورسابق وزیرخارجہ داود اوغلو کو وزیراعظم بنایا گیا۔ یہ نئی حکومت بہت جلدحلیف جماعتوں کی حمایت واپس لے لینے کے سبب اقلیت میں آگئی۔ دنیا بھر کے اسلام دشمنوں کو امید تھی کہ ترکی میں اب یا تو ارکان پارلیمان کی خرید و فروخت ہوگی اور جوڑ توڑ سے نئی سرکار بنے گی یا صدر اردغان اپنے اختیارات کا استعمال کرکے مارشل لگا دیں گے لیکن انہوں نے پھر اپنے مخالفین کو مایوس کیا اور خود اپنی پارٹی کی حکومت کوبرخواست کرکے نئےسرے سے انتخاب کا اعلان کردیا ۔

رجب طیب اردغان نے ایک زبردست خطرہ مول لیا تھا لیکن انتخابی نتائج نے اے کے پی کی مجبوری دورکردی۔ دیگر جماعتوں پر اس کا انحصارختم ہوگیا اوروہ اپنے بل بوتے پر اکثریت میں آگئی۔ اے کے پی کے تنگ دل مخالفین نہ تو اردغان کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کو اور نہ اس کے اکثریت کو سراہ سکے۔ اس بیچ کبھی تو سابق صدر محمد گل تو کبھی سابق وزیراعظم داود اوغلو کے ساتھ اردغان کے اختلاف کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ گویا ترکی میں نہ جانے کون سا سیاسی آتش فشاں پھٹنے والا ہے لیکن ۱۶ جولائی کی شرانگیزی کے بعد ساری دنیا نے دیکھا کہ اے کے پی کی صفوں میں کوئی دراڑ تو دور مخالف سیاسی جماعتوں تک نے ایک آواز میں فوجی بغاوت کی مذمت کردی۔ اب تو کچھ دور کی کوڑی لانے والے اشتراکی اس فوجی بغاوت کو بھی اردغان کی اپنی سازش قرار دے رہے ہیں۔

حکومت ترکی نےویسےداعش کی سرکوبی کیلئے قائم کی جانے والی امریکی ائیر بیس کو بند کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اس کو کس پر شک بلکہ یقین ہے۔ گزشتہ سو سالوں میں پانچ اور ۶۰ سالوں میں ۴ مرتبہ فوج کے ذریعہ تختہ الٹنے کی جو کوششیں ہوئیں اور اسبار جو کچھ ہوا اس میں فرق تھا کہ ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام گھروں سے نکل کر ٹینکوں کے آگے سو گئے یا اس کے اوپر چڑھ گئے ۔ عوام اور فوج کے درمیان برپا یہ کشمکش دراصل کفر اسلام کی جنگ ہے۔ اس لئے کہ مصطفیٰ کمال اتاترک سے لے کر اب تک ہر بغاوت اسلام پسندوں کے خلاف اور سیکولرزم و جمہوریت کے علمبردار روشن خیال فوجی جرنیلوں کے ذریعہ ہوئی ہے۔ سارے وردی پوشلادینی جمہوری اقدار کو قائم کرنے اور مذہب کے اثرات کو زائل کرکے اپنے مغربی آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مغرب نواز دانشوروں نے ہمیشہ ہی اسلام پسندوں کے بغض میں کبھی کھلے تو کبھی ڈھکے چھپے انداز فوجی ڈکٹیٹروں کی تائیدو حمایت کی ہے۔

مغرب کی منافق حکومتیں اول تومعمولی زبانی جمع خرچ کرنے کاپاکھنڈ کرتی ہیں لیکن جب فوجی آمروں کے قدم جم جاتے ہیں تو ان کی حمایت میں کمربستہ ہوجاتی ہیں لیکن یہ حسن اتفاق ہے عوام کو جب بھی آزادانہ طور اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا موقع ملتا ہےان کی نظر انتخاب اسلام پسندوں پر جاکر ٹک جاتی ہے ۔ لاکھ پروپگنڈہ کے باوجود وہ اسلام پسندوں کو منتخب کرکے اقتدار ان کے ہاتھوں میں سونپ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مورسی کو سارا مغرب مصر کا واحد منتخبہ صدر کے لقب سے یاد کرتا ہے جبکہ مصر کے ہر سربراہ نے انتخاب کا ڈھونگ رچایا ہے۔ اسی آزادانہ انتخاب کی آزادی کے نتیجے میں جب اربکان یا اردغان آگے آتے ہیں تو وہ دشمنان اسلام کی آنکھوں میں کانٹے کی مانند کھٹکنے لگتے ہیں ۔ رابرٹ فسک جیسے عظیم روشن خیال دانشور کو بھی اس بار ترکی کی فوجی بغاوت کے ناکام ہوجانے پر افسوس ہوتاہے اور وہ بہت جلد ایک کامیاب فوجی بغاوت کی بشارت دیتے نظر آتے ہیں ۔

ایک مسلم دانشور نے حال میں ایک گروپ کے اندر یہ سوال کردیاکہ آخر اس طرح کا سیاسی خلفشار یوروپ اور امریکہ میں کیوں برپا نہیں ہوتا ؟یہ نہایت سنجیدہ سوال ہے۔ عام طور پر جب اس طرح کا سوال ابھرتا ہے تو ہم لوگ یا تو اپنے آپ کو کوسنے میں لگ جاتے ہیں یا مسلکی اختلافکی بنیاد پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے لگتے ہیں ۔ حالانکہ اس سنجیدے کے ساتھ غوروخوض ہونا چاہئے۔ ویسے ترکی کی ناکام بغاوت کےپیش نظر اس سوال ایک جواب تو یہ ہے کہ ترکی سے لے کر تیونس تک جب بھی آزادانہ انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے تو کہیں رجب طیب اردوان ، کہیں اسماعیل ہنیہ ، کہیں ڈاکٹر مورسی تو کہیں غنوشی جیسے صالح لوگ منتخب ہوجاتے ہیں جو مغرب کے استحصالی نظام کے آگے سپر نہیں ڈالتے اس لئے فوجی بغاوت کی مدد سے انہیں سازش کرکےبزور قوت ہٹانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔

جہاں تک مغرب کا سوال ہے وہاں تو جمہوری طریقہ پر جارج بش اور ٹونی بلئیر جیسے جنگی مجرم میسر آجاتے ہیں ۔ چلکوٹ کمیٹی کی رپورٹ میں اس حقیقت کا ا اعتراف موجود ہے اور آگے بھی امریکہ کے اندر ڈونالڈ ٹرمپ جیسا بددماغ اقتدار سنبھالنے کیلئے پرتول رہا ہے۔مغربی ممالک میں چونکہ استحصالی سرمایہ کاروں کا گھی سیدھی انگلی ہی سے نکل جاتا ہے اس لئے اسے ٹیڑھا کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی؟ مغرب کے یہ حکمراں اپنے عوام کا خون تو چوستے ہی ہیں لیکن اپنے سرمایہ دار آقاوں کے اشارے پر دنیا بھر میں بشمول مسلم کے بدامنی پھیلاتے ہیں ۔ فوج سے ساز باز کرکے عوامی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں۔ اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے کیش زمانے میں اشتراکیت کے پیچھے پڑے رہتے تھے آج کل اسلام کو بدنام کرنے میں لگے رہتے ہیں تاکہ عوام اس دین حنیف سے بدظن ہوجائیں اور ان کی مانند کفر و الحاد میں مبتلا رہیں ۔

مسلم عوام کی اکثریت کو مرعوب کرنے کا یہ حربہ پچھلے سو سالوں کےاندر توکا میاب نہیں ہوسکا لیکن ایک محاذ ایسا ہے جس پر مغرب نے کامیابی ضرور حاصل کی ہے ۔ گزشتہ صدی کی ابتداء میں مغرب نے جب اپنا موازنہ خلافت عثمانیہ سے کیا کہ یوروپ کا یہ ’’مرد ضعیف‘‘اپنے تمام تر انحطاط کے باوجود گبرو جوان یوروپ سے بہتر حالت میں کیوں ہے؟ تواس سوال کا جواب اسے یہ ملا کہ مسلمان ممالک میں امن و امان ہے اس کے برعکس یوروپ بدامنی کا شکار ہے۔یوروپی ممالک مشترکہ مذہب کے باوجود منقسم ہیں جبکہمسلمان آپس میں متحد ہیں ۔ یوروپی دانشوروں نے اپنے انتشار اور مسلمانوں کے اتحاد کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہمغرب کی تقسیم وطن پرستی کی بنیاد پرہے جبکہ توحید نے مسلمانوں کو متحد کررکھا تھا ۔ امریکہ نے مسلمانوں کی مانند اپنی ۵۰ ریاستوں کو خلافت عثمانیہ کے خطوط پر متحد کرلیا لیکن یوروپ کیلئے اپنے قومی تشخص کو بالائے طاق رکھنا ناممکن تھااس لئے ان لوگوں نے قوم پرستی کے جراثیم مسلم ممالک میں پھیلا کر ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعداس کی ابتداء جغرافیائی تقسیم سے کی گئی اور پھر عرب و عجم کا فرق آیا اور بالآخر مسلکی اختلافات کو اس قدر ہوا دی گئی کہ ہم غیروں کے حلیف اور ایک دوسرے کے حریف ہوگئے۔ دشمنوں کو دوست بنا لیا اور دوستوں کے دشمن بن گئے۔

گیلی پولی کی فتح کے باوجود مسلمانوں کے شکست ریخت کی بنیادی وجہ محاذِ جنگ میں عسکریفتح کے بعد ہمارے حکمرانوں اور دانشوروں کی فکری مرعوبیت ہے۔ افسوس کے امت نے بھی وطنیت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے قومی مفادات کو دینی مفادات پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے ۔اس لئےمیدان عمل کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ فکری محاذ پر بھی مغرب سے پنجہ آزمائی کرکے اسے زیر کرنا ضروری ہے۔ اس امت کی پائیدار فتح مندی کیلئے یہ لازمی ہے کہ ہماری جدوجہد کا محور کوئی فرد نہیں بلکہ اسلامی فکرو عقیدہ ہو۔ اسلام پسندوں کو جب شکست ہوتی ہے تو اسے اسلامی نظام حیات سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ حال میں سبکدوش لیفٹنٹ کرنل پیٹرس نے فوکس ٹی وی پر کہا کہ اگر یہ بغاوت کامیاب ہوجاتی تو ہم جیت جاتے اور اسلام پسند ہار جاتے۔ بشارالاسد نے بھی ڈاکٹر مورسی کی برطرفی کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ہم تو یہی کہتے ہیں کہ اسلام قابل عمل نظریہ نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جب کوئی کامیابی ملے تب بھی اس کو اسلامی نظام حیات سے جوڑ کر پیش کیا جائے۔ اس کی توقع ہم اسلام دشمن مفکرین سے نہیں کرسکتے۔ یہ کام ہمیں خود کرنا ہوگا۔

۱۶ جولائی کو جب میں نماز فجر کیلئے اٹھا تو واٹس اپ پر ترکی کے تختہ پلٹنے کی خبر تھی۔ نماز کے بعد دل پکار پکار کر کہتا تھا کہ اے مالک الملک تو اپنے دین کی اور اس کے علمبرداروں کی مدد و استعانت فرما ۔ یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہی جب تک کہ سب کچھ واضح نہیں تھا ۔پھر جیسے جیسے دن چڑھنے لگا اور فوجی بغاوت کی ناکامی یقینی ہوتی چلی گئی تو کبھی رجب طیب اردغان ، کبھی ان کا اعلان، عوام کا جوق درجوق نکلنا، ٹینکوں پر چڑھ جانا، حزب اختلاف کا متحد ہو کر فوج کی مخالفت کرنا اور عالمی برادری کا مذمت کرنا اہم سے اہم تر ہوتے چلے گئے۔ اب جبکہ یہ مضمون ختم ہورہا ہے ایک نیا واٹس ایپ پیغام سامنے ہے جس میں اردغان کی دس سماجی و معاشی اصلاحات کو فوجی بغاوت کی ناکامی کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ ان تمام چیزوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن میں سوچتا ہوں کہ کیا وہ علی الصبح کا رجوع الی اللہ بالکل بے مصرف تھا نعوذ بااللہ۔ کیا اس نشیب و فراز میں مشیت الٰہی کا کوئی رول نہیں ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کس قدر احسان فراموش ہوں میں ؟ ایسے موقع پر مجھے وہ قرآنی تلقین کیوں یاد نہیں آتی کہ ۔ ’’جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے ۔ اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لےتو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وه بڑا ہی توبہ قبول کرنے واﻻہے ( سورۃالنصر)۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1237280 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.