فقہ اسلامی پر رومن لاءکے اثرات کے استشراقی نظریہ کا ناقدانہ جائزہ

مستشرقین کا فقہ اسلامی پر ایک اور اعتراض یہ ہے کہ وہ رومن لاء سے ماخوذ ہے؛ کیونکہ فقہ اسلامی اور رومی قوانین میں یکسانیت ومماثلت پائی جاتی ہے، فقہی کتابوں کی ترتیب اور رومی قوانین کی ترتیب ایک جیسی ہے، ہوسکتا ہے کہ رومی قوانین کا عربی یافارسی ترجمہ فقہاء کے پیشِ نظر رہا ہو؛ نیزفقہ میں "البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر" کاقانون من وعن رومی قانون سے نقل شدہ ہے، فتح اسلامی کے وقت قیصریہ اور بیروت میں ایسی عدالتیں موجود تھیں جن میں رومی قوانین کے مطابق فیصلے ہوتے تھے اور یہ عدالتیں فتح اسلامی کے بعد بھی وہاں موجود رہیں؛ چونکہ مسلمان اس وقت تک شہر کی متمدن زندگی اور اس کے اصولوں سے زیادہ واقف نہیں تھے اور دوسری طرف قدیم متمدن ممالک کی فتوحات کے نتیجے میں نئے نئے مسائل بڑی سرعت کے ساتھ پیدا ہورہے تھے اور قرآن وحدیث سے حاصل شدہ مواد ان ضروریات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں تھا، اس لیے قدمائے اسلام مفتوحہ ممالک کے سابقہ قوانین کے مطابق فیصل کرتے تھے، اس طرح بہت سے رومی قوانین اسلامی قانون کی شکل اختیار کرگئے۔

فقہ اسلامی کا پِس منظر:
اسلامی قانون یافقہ اسلامی قانون فطرت کے ان انقلابی اصولوں کے مجموعہ کا نام ہے جس کے اندر سارے انسانوں کی حقیقی فلاح وکامیابی کا راز پوشیدہ ہے، جس کو خالقِ فطرت نے اہلِ فطرت کی دنیاوی واخروی کامیابی، جسمانی وروحانی تربیت اورہرخیر کی طرف ان کی رہنمائی کے لیے نازل فرمایا، اسلامی قانون روزِاوّل سے ہی ان خدائی احکامات پر مشتمل ہے جن میں کسی قسم کی بھول چوک اور ذرہ برابر کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ہردوربشمول موجودہ دور کے انصاف پسند طبیعتوں کے مالک مسلم وغیرمسلم اہلِ علم ودانش نے تمام قوانین پر اس کی برتری کا کھلے دل سے اقرار واعتراف کیا؛ لیکن مغربی معاشرہ میں ایسے افراد جنم لینے لگے جنھوں نے محض تعصب وعناد یاجہالت ونادانی کی بناء پر فقہ اسلامی پر بے جااعتراضات کئے اور اس کو اپنی بے دلیل وبے سہارا تنقیدوں کا نشانہ بنایا، ان کی کاوشوں کا محور اور علمی کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے اس عظیم الشان علمی، فقہی اور قانونی ذخیرہ کوبے سند وبے اعتبار اور موجودہ ترقی یافتہ زمانہ میں اسے ناقابلِ عمل قرار دے کر مسلمانوں کواس سے عملی زندگی میں دور کردیا جائے یاکم ازکم کتاب وسنت کے برخلاف چند علماءو فقہاء کی ذاتی رایوں کا مجموعہ قرار دیکر اُس پر سے مسلمانوں کے تیرہ سوسالہ اجتماعی اعتبار واعتماد کو ختم کردیا جائے۔
اس پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں فقہ اسلامی پر کچھ شبہات ہونے لگے، ان میں سےبعض شبہات کا جائزہ سطورِ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
(۱)فقہ اسلامی کے اندر موجودہ دور کی ضروریات اور نت نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے؛ نیزاس میں زمانے کے مسائل اور نئے حالات کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا ہے۔
لیکن اگرحقیقت پسندی کے ساتھ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے اور موجودہ دور کے عالمی منظر نامہ کا ملکی پیمانہ پر جائزہ لیا جائے اورجن عرب ممالک میں کسی حد تک اسلامی حدود نافذ ہیں ان ممالک کے سال بھر کے اور مغربی ممالک کے روزانہ کے جرائم کے اعداد وشمار جمع کئے جائیں تویہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام نے اپنی ابتداء میں جس طرح ایک جاہل وغیر مہذب قوم کوتہذیب وتمدن کا امیرقافلہ بنایا اور نیم وحشی معاشرہ کوانسانیت کے لیے قابلِ فخراور مثالی سوسائٹی میں تبدیل کردیا تھا اسی طرح آج بھی فتنہ وفساد، قتل وغارت، بدامنی وبے اطمینانی کی آگ میں جل رہے انسانی کاروان کونجات دے سکتا ہے اور بھنور میں پھنسی ہوئی انسانیت کی کشتی کوپار لگاسکتا ہے۔
فقہ اسلامی کی اس جامعیت وکاملیت کا اصل سرچشمہ شریعت کی وہ جوہری خصوصیات ہیں جواس کودوسرے قوانین موضوعہ سے ممتاز کرتی ہیں، جہاں تک موجودہ زمانے کے نئے مسائل کا تعلق ہے تویہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ اس بحرذخار سے موتی اور ہیرے چن کرانسانوں کے سامنے پیش کریں؛ تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنی زندگی کاسفر طے کریں اور بحمدللہ وہ اس کام کوبحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور رہتی دنیا تک وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے رہیں گے؛ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا حل علماء نے پیش نہ کیا ہو۔
(۲)مستشرقین کا فقہ اسلامی پر ایک اور اعتراض یہ ہے کہ وہ رومن لاء سے ماخوذ ہے؛ کیونکہ فقہ اسلامی اور رومی قوانین میں یکسانیت ومماثلت پائی جاتی ہے، فقہی کتابوں کی ترتیب اور رومی قوانین کی ترتیب ایک جیسی ہے، ہوسکتا ہے کہ رومی قوانین کا عربی یافارسی ترجمہ فقہاء کے پیشِ نظر رہا ہو؛ نیزفقہ میں "البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر" کاقانون من وعن رومی قانون سے نقل شدہ ہے، فتح اسلامی کے وقت قیصریہ اور بیروت میں ایسی عدالتیں موجود تھیں جن میں رومی قوانین کے مطابق فیصلے ہوتے تھے اور یہ عدالتیں فتح اسلامی کے بعد بھی وہاں موجود رہیں؛ چونکہ مسلمان اس وقت تک شہر کی متمدن زندگی اور اس کے اصولوں سے زیادہ واقف نہیں تھے اور دوسری طرف قدیم متمدن ممالک کی فتوحات کے نتیجے میں نئے نئے مسائل بڑی سرعت کے ساتھ پیدا ہورہے تھے اور قرآن وحدیث سے حاصل شدہ مواد ان ضروریات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں تھا، اس لیے قدمائے اسلام مفتوحہ ممالک کے سابقہ قوانین کے مطابق فیصل کرتے تھے، اس طرح بہت سے رومی قوانین اسلامی قانون کی شکل اختیار کرگئے۔
تاریخ اسلام وتاریخ فقہ کا ادنی طالب علم بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب تک پیغمبرِ اسلامﷺ اس دنیا میں جلوہ افروز رہے اس وقت تک ہرمسئلہ کا فیصلہ وحی الہٰی کی روشنی میں دربارِ رسالت سے ہوتا تھا، جب آپﷺ کی ذات بابرکت سے دنیا محروم ہوگئی اور یکے بعد دیگرے مسلسل فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کو بیشمار نئے مسائل کا سامنا ہوا توخلفاءراشدینؓ نے ان مسائل کے حل کے لیے مدینۃ المنورہ میں جہاں رومن لاء کے اثرات کی پرچھائیاں بھی نہیں تھیں؛ اہلِ فقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت تشکیل دی، جب بھی کوئی نیا مسئلہ کسی ملک میں پیش آتا اور قرآن وحدیث میں اس کا صریح حکم نہ ملتا تووہ دربارِ خلافت مدینہ منورہ لکھ کر بھیج دیا جاتا خلفاء راشدین کے انفرادی اجتہاد یافقہاء کی اجتماعی رائے سے اس مسئلہ کا فیصلہ کیا جاتا؛
اس طرح فقہ اسلامی کے چار ماخذ وسرچشمے قرار پائے۔
(۱)کتاب اللہ
(۲)سنت رسول اللہ
(۳)اجماع
(۴)قیاس واجتہاد۔
جن میں سے تین کی طرف نبی کریمﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ ہی میں صراحت کے ساتھ رہنمائی فرمادی تھی؛ جیسا کہ حضرت معاذرضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے، خلفاء راشدینؓ نے اپنے عہد زرین میں قانون سازی کے معاملہ میں انہی چاروں اصول کی پیروی کی اور فقہ اسلامی کا ایک بڑا حصہ اسی عہد کے فیصلوں پر مشتمل ہے، عہدِ صحابہؓ کے اختتام پر مدینہ منورہ ہی میں تابعین میں سے فقہاء سبعہ کی ایک جماعت موجود تھی جوقرآن وحدیث اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں اپنے اجتہاد سے پیش آمدہ مسائل کوحل کرتی تھی اور ان کے فیصلوں کا فقہ اسلامی میں اعتبار کیا جاتا تھا، ان فقہاء سبعہ میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے رومی قانون کی تعلیم حاصل کی یاکسی رومی کتاب کا مطالعہ کیا تھا، جب دوسری صدی میں مذاہب اربعہ کا ظہور ہوا توکتاب وسنت کے بعد ان کا سب سے بڑا ماخذ یہی فیصلے تھے۔
اسی کے ساتھ ایک نگاہ چاروں مکاتب فقہ پر بھی ڈال لیجئے، عقیدہ اہلِ سنت کے مطابق جن میں حق منحصر ہے:
(۱)فقہ حنفی:
یہ اکثرمسلمانوں کا فقہ ہے جوامام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے، آپ کی پوری زندگی کوفہ، مکہ، بغداد کے ان علاقوں میں گذری جہاں رومی قوانین کوکوئی جانتا بھی نہ تھا اور نہ اس دور میں کسی رومی کتاب کا عربی یافارسی میں ترجمہ ہوا تھا، تدوین فقہ یااسلامی قانون سازی کے بارے میں آپؒ نے کن ماخذ ومصادر سے استفادہ کیا اور اس میں آپ کا طریقۂ کار کیا تھا آپؒ خود بیان فرماتے ہیں:
"میں کتاب اللہ کو لیتا ہوں؛ اگراس میں حکم نہیں پاتا توسنتِ رسولؐ کو لیتا ہوں اورجب معاملہ ابراہیم ، شعبی، ابنِ سیرینؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے توجیسے انہوں نے اجہتاد کیا میں بھی اجتہاد کرتا ہوں"۔
(المیزان الکبری:۱/۲)
فقہ حنفی تنہا آپ کی محنتوں کا نتیجہ نہیں؛ بلکہ چالیس ائمہ اسلام کے علم وفہم کا عطر مجموعہ ہے، ان میں بڑے بڑے ائمہ حدیث اورماہرین لغت عربی تھے، ایسے بھی تھے جوتفسیر وفقہ میں امام مانے جاتے تھے؛ لیکن ایسا ایک شخص بھی وہاں نظر نہیں آتا جس نے رومی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی ہو یارومی قوانین سے متاثر ہو۔
(۲)فقہ مالکی:
یہ امام مالک بن انسؒ کی طرف منسوب ہے، آپ کی پوری عمر مدینۃ النبیﷺ ہی میں گذری، اس ڈر سے کہ مدینہ منورہ سے باہر موت نہ آجائے، آپؒ نے کبھی دوردراز کا سفر نہیں کیا، آپؒ کے نزدیک کتاب وسنت کے بعد اہلِ مدینہ کا عمل بھی حجت ہے، بے ضرورت قیاس کوآپؒ سخت ناپسند فرماتے تھے، اس لیے آپ کے مذہب میں قیاس بہت کم پایا جاتا ہے، تقریباً یہی حال امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے فقہ کا ہے، ان میں سے کسی نے کبھی کسی رومی علاقہ کا سفر کیا نہ کسی رومی کتاب کا مطالعہ کیا؛ بلکہ خالص کتاب وسنت، اجماع وقیاس ابتداء سے انتہا تک ان کا مرجع وماخذ ہے؛ لہٰذا یہ کہنا کہ فقہ اسلامی اور خصوصاً فقہ حنفی رومن لاء سے ماخوذہے ،آفتاب کے نور کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔

یہ تو مستشرقین کے وہ اعتراضات تھے جوانہوں نے فقہ کوجزءاسلام مانتے ہوئے اس پر کئے تھے، اس کے برعکس بدقسمتی سے امتِ مسلمہ میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جوفقہ اسلامی کوکتاب وسنت کا مخالف قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف برسرِپیکار ہے، ان کا گمان یہ ہے کہ:
فقہ اسلامی چند علماء کی رایوں کا مجموعہ ہے، کتاب وسنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان حضرات کا یہ اعتراض درحقیقت فقہ کی حقیقت سے ناواقفیت پر مبنی ہے، الموسوعۃ الفقہیۃ میں فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے، تفصیلی دلائل سے عملی فروعی اور شرعی احکام کوجاننے کا نام فقہ ہے"۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۲)
مذکورہ عبارت میں تفصیلی دلائل سے مراد قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس ہیں؛ چنانچہ فقہ کا ایک حصہ وہ ہے جوکتاب وسنت پر مبنی ہے، ایک حصہ وہ ہے جواجماع سے مستنبط ہے اور ایک حصہ وہ ہے جوقیاس سے ماخوذ ہے، فقہ کا جوحصہ قیاس پر مبنی ہے، اس کے بارے میں بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ علماء کی آراء کا مجموعہ ہے؛ لیکن یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ فقہ میں علماء وفقہاء کی وہی رائے قابلِ قبول ہے، جس کا دارومدار قرآن وحدیث کی کسی نص پر ہو۔

فقہ اسلامی اور رومن قوانین:
علومِ اسلامی میں علوم القرآن اور علوم الحدیث کے بعد جس علم کوسب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ "فقہ" ہے اور اسلامی تاریخ کی بہترین ذہانتیں اور صلاحیتیں اس فن کی آبایاری اور نشوونما میں صرف ہوئی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ایک "نبی اُمی" (فداہ روحی) کا لائی ہوئی شریعت کے ایک ایک حکم کی عقدہ کشائی کے لیے زمانہ کے اتنے ذکی، عالی حوصلہ بالغ نگاہ اور وسیع النظر شخصیتوں کا شب وروم اورسحر وشام مصروف عمل ہوجانا بجائے خود آپﷺ کا ایک معجزہ اور آپﷺکی صداقت وحقانیت کی دلیل ہے۔
"فقہ اسلامی" نے جس وسعت اور ہمہ گیری کے ساتھ انسانی زندگی کا احاطہ کیا ہے اور زندگی کے تمام مسائل ومشکلات میں رہبری کافریضہ انجام دیا ہے؛ نیز اس کی تمام جزئیات میں جونظم ونسق اور ربطِ باہم ہے، ایک خاص قسم کا توازن واعتدال ہے، عصری تغیرات کواحتیاط کے ساتھ مناسب طور پرقبول کرنے کی صلاحیت ہے اور اس کی منصوبہ بندی کے لیے علماء نے احکام کے استنباط کے جوطریقے مقرر کئے ہیں، مسائل واحکام کی درجہ بندی کی ہے، شریعت کے مقاصد متعین کئے ہیں، مصلحتوں کوقبول کرنے کے اصول وضع کئے ہیں، جن کو"اصول فقہ" کہا جاتا ہےـــــ وہ بقول مشہور محقق ڈاکٹر حمیداللہ (پیرس) قانون کی تاریخ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔
(خطباتِ بھاولپور، خطبہ:۴۔ تاریخ اصول فقہ واجتہاد:۱۱۸، فقہ:۱۱۰، ڈاکٹر صاحب نے اصولِ فقہ کومسلمانوں کی ایجادِ خاص قرار دیا ہے)

مستشرقین علماء جن کومشرق اور خصوصیت سے اسلام کی کوئی خوبی ایک نظر نہیں بھاتی؛ اگرہنرکو عیب بنانے میں کامیاب نہ ہوں توکم ازکم اتنا توکرتے ہی ہیں کہ مسلمانوں اور عربوں کے کارناموں کا رشتہ کسی اور قوم اور خاص کرروم ویونان سے جوڑ دیتے ہیں؛ تاکہ یہ مسلمانوں کے کھاتہ میں نہ رہ سکے؛ یہی کام ان حضرات نے فقہ کے بارے میں کیا اور اسلامی فقہ اور خصوصیت سے "حنفی فقہ" کو"رومن قوانین" سے ماخوذ ومستفاد اور قرآن وحدیث سے بے تعلق قرار دیا ہے، ان سطور میں اسی پرروشنی ڈالی جانی ہے۔
تین بحث طلب نکات:
1. اس کے لیے اوّل یہ بات دیکھنی ہوگی کہ کیا امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ تک رومن قوانین کی رسائی تاریخی قرائن کی روشنی میں ممکن ہے؟
2. دوسرے امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے فقہاء اسلام نے احکام شریعت کے لیے جومصادر مقرر کئے ہیں ان میں کسی اجنبی قانون کے لیے کوئی جگہ ہے یانہیں؟ اور وہ کس حد تک کتاب وسنت سے متعلق یاغیرمتعلق ہیں.
3. تیسرے رومن قوانین اور فقہ اسلامی کا مسائل زندگی کے مختلف شعبوں میں موازنہ کرنا ہوگا کہ ان میں کس درجہ مطابقت اور ہم آہنگی ہے اور جن احکام میں مطابقت ہے اس کی بنیاد کتاب وسنت اور عقل عام کے تقاضے ہیں، یارومی قوانین سے استفادہ.
یہ تین نکاح ہیں، جن کی روشنی میں بہ سہولت اس دعوے کوکہ فقہ حنفی رومی قوانین سے مستفاد ہے، پرکھا جاسکتا ہے ۔
تاریخی قرائن:
امام ابوحنیفہؒ (۸۰۔۱۵۰ھ) ارانی النسل تھے، اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ آپ فارسی زبان سے واقف رہے ہوں گے؛ لیکن امام صاحب کے زمانہ تک عراق اور خلافتِ اسلامی کے مشرقی صوبہ جات میں عربی پوری طرح حاوی ہوچکی تھی؛ یہی تصنیف وتالیف، تدریس وقضاء، سرکاری دفاتر وامثلہ جات؛ یہاں تک کہ وعظ اور روزمرہ بول چال کی زبان تھی، اس کی ایک وجہ تواس پورے خطہ کا دامنِ اسلام میں آجانا اور اسلام کے بنیادی لٹریچر قرآن وحدیث کا عربی زبان میں ہونا ہے، دوسرے عربوں کا سیاسی غلبہ اور تیسرے مفتوح قوموں پرفاتح اقوام کا ایک نفسیاتی اثر اور زبان وتہذیب میں فاتحین کے مقابلے کمتری اور مرعوبیت کا احساس بھی اس کی وجہ ہوسکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بھی اصل زبان یہی تھی اور اسی میں آپ کے علوم کا تمام خزانہ محفوظ ہے، نہ ہی آپ رومی زبان سے واقف تھے، نہ شام وفلسطین کے ایسے علاقوں سے آپ کا تعلق رہا جوپہلے رومی سلطنت کا حصہ تھے اور یہ توبہت قدیم عہد ہے، اس صدی سے پہلے تک عربی زبان میں رومی قوانین کے ترجمہ کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ رومی قوانین کے عربی زبان میں منتقل نہ ہونے کا ایک خاص سبب ہے، مسلمانوں کا شروع سے یہ تصور رہا ہے کہ ان کواپنے نظامِ زندگی کے معاملہ میں دوسری اقوام سے ممتاز رہنا چاہیے، یہ چیز ان کوکتاب وسنت اور اسلامی روایات پر انحصار کا پابند کرتی ہے اور دوسری قوموں کے طریقوں اور اطوار سے بازرکھتی ہے، ہاں وہ علوم وفنون جومحض وسائلِ زندگی سے متعلق ہیں، یاانتظاماتِ ملکی میں معاون ہیں ان کوقبول کرنے اور پروان چڑھانے میں مسلمانوں نے نہایت فراخ دلی اور کشادہ قلبی سے کام لیا ہے، جیسے فلکیات، ریاضی، جغرافیہ، طب، طبعیات وغیرہ، پس امام ابوحنیفہؒ رومی زبان سے واقف تھے، نہ رومی قانون کا لٹریچر عربی میں منتقل ہوا تھا اور نہ روم کی سابق ریاستوں سے آپ کا وطنی، تجارتی یاعلمی علاقہ تھا، اس لیے تاریخی اعتبار سے کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جوامام ابوحنیفہؒ اور فقہ حنفی کے رومی قوانین سے تأثر اور استفادہ کوکسی درجہ میں بھی ظاہر کرتا ہو۔
فقہ اسلامی کے مآخذ:
فقہائے اسلام نے بنیادی طور پرقانون کے چارسرچشمے (Sourcessot Law) مقرر کئے ہیں، ان میں ترتیب اس طرح ہے کہ!
۱۔ اوّل قرآن مجید کوپیشِ نظر رکھا جائے۔
۲۔ پھررسول اللہﷺ کی حدیثیں سامنے رکھیں جائیں۔
۳۔ اس کے بعد ان احکام کا درجہ ہے،جن پر امت کا اجماع واتفاق ہے، ظاہر ہے کہ امت کا کسی ایسی بات پراتفاق ممکن نہیں جوقرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہو۔
۴۔ چوتھا درجہ "قیاس" کا ہے، قیاس یہ ہے کہ کتاب وسنت میں کسی مسئلہ میں جس سبب خاص کی بناء پرکوئی حکم لگایا گیا ہو، وہ سبب جہاں جہاں پایا جائے وہاں وہی حکم لگایا جائے۔
مثلاً حدیث میں کتے کے جھوٹے کوناپاک قرار دیا گیا، حدیث سے بعض اور جانوروں کے جھوٹے کے متعلق بھی ایسا ہی حکم ملتا ہے، لہٰذا فیصلہ کیا کہ تمام جانور جن کا گوشت ناپاک اور حرام ہے، ان کا جھوٹا بھی حرام اور ناپاک ہے؛ اسی کا نام "قیاس" ہے؛ اسی طرح قیاس کی اصل غایت کتاب وسنت کے احکام کے دائرہ کوسیع اور ان صورتوں تک متعدی کرنا ہے، جن کا کتاب اللہ اور سنتِ رسولﷺ میں ذکر نہیں؛ گویا فقہ کے اصل مآخذ "کتاب وسنت" ہی ہیں اور اجماع وقیاس میں بھی بالواسطہ کتاب وسنت ہی کی اطاعت وفرماں برداری ہے۔
رومی قانون کے مآخذ سے تقابل:
اب ایک موازنہ فقہ اسلامی کے ان مآخذ اوررومن لا کے مآخذ (Sourcees) کے درمیان کرنا چاہئے کہ اس سے مسئلہ زیربحث کوسمجھنے میں آسانی ہوگیـــــ بنیادی طور پررومی قوانین دوطرح کے ہیں:
۱۔ مکتوبی
۲۔ غیرمکتوبی
" مکتوبی" سے مراد سرکاری قوانین ہیں اور "غیرمکتوبی" سے مراد وہ قوانین ہیں جوعوام کے رسم ورواج کی وجہ سے ازخود قانون کا درجہ حاصل کرگئے ہیں، گیس (Gaius) کے بقول مکتوبی قانون کے چھ مآخذ ہیں:
1. قانون موضوعہ اعلیٰ ترین (Leges) یعنی شاہان قدیم شرفاء روما کی مجلسِ عشریہ، غیررومی باشندوں کی مجلسِ مأۃ وغیرہ کے طئے کئے ہوئے قوانین۔
2. قانون موضوعہ مجلس عوام
3. سینٹ کی تجاویز
4. فرامینِ شاہی
5. مجسٹریٹ کے اعلانات۔
6. مجتہدین، یعنی مذہبی راہبوں کے فتاویٰ اور دوسرے قانون دانوں کی توضیحات۔
(ملاحظہ ہو، احمدعبداللہ المسدوسی کی کتاب، قانونِ روما برائے ایل، ایل، بی:۱۲۔۱۷)
اب غور کرو کہ "قانونِ مکتوبی" کے ان تمام مآخذ میں انسان کواصل واضح قانون اور اس کے فہم واختیار اور حکم وفیصلہ کوقانون کی اساس مانا گیا ہے؛ کہیں یہ حیثیت بادشاہ کوحاصل ہے، کہیں قاضی کو؛ کبھی شرفاء روم کی جماعت کو، کبھی اہلِ روم کے ساتھ دوسری اقوام کے صدرایوان کو، کہیں مجلس عوام اور مذہبی یاقانونی علماء کو۔
مگراسلامی قانون کا تصور اس سے یکسر مختلف ہے؛ یہاں قانون کا سرچشمہ ذاتِ خداوندی ہے "أَلَالَهُ الْحُكْمُ" (الأنعام:۶۲) اور اسی کے ہاتھ فیصلوں کی زمام ہے "إِنِ الْحُكْمُ إِلَّالِلَّهِ" (یوسف:۴۰) یہی مسلمانوں کے تمام مکاتب فقہ کا مزاج ومذاق ہے، رومی نظامِ قانون میں رائے ایے قابلِ تحسین بات اور مفخرہ ہے اور فقہاء اسلام کے ہاں خودرائی ایک تہمت اور عیب ہے جس کی طرف اس کی صحیح یاغلط نسبت کردی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں فقہاء کے ہاں کثرت سے کتاب وسنت پرانحصار، اس کی بالادستی اور اس کے مقابلہ "رائے" کی مذمت اور اس کی بے اعتباری کے اقوال ملتے ہیں۔
(المیزان الکبریٰ کا ابتدائی حصہ دیکھا جائے)
ممکن ہے بعض حضرات کوقانون کے اس ماخذ میں اور فقہ اسلامی میں کوئی خاص فرق کا اعتبار کئے جانے میں یکسانیت نظر آئے؛ لیکن اپنی روح کے اعتبار سے ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے "رومن لا" چونکہ انسانی خواہشات پرہی مبنی ہے، اس لیے اس قانون میں رسم ورواج کوخاصی اہمیت حاصل ہے؛ بلکہ بعض اوقات موضوعہ قانون پرفائق ہوجانا عین مطابقِ فطرت ہے۔
ابوابِ قانون کی تعیین وترتیب:
ماخذ قانون کے بعد ایک قانون دوسرے قانون کا اثرابواب قانون کی تعیین وترتیب میں قبول کرتا ہے اس پہلو سے جب کوئی شخص فقہ اسلامی اور رومن لا کا جائزہ لے گا تودونوں میں اسی درجہ تفاوت نظر آئے گا جتنا کہ خودمآخذ ومصادر میں، رومن لا میں قوانین کے چار حصے کئے گئے ہیں:
• اوّل قانونِ ملک جورومی نسل کے شہریوں کے لیے مخصوص تھا۔
• دوسرے قانونِ اقوام، جوبین ملکی اور بین قومی تعلقات سے متعلق تھے۔
• تیسرے قانونِ قدرت، یہ عام اصولِ انصاف تھے، جس کے تحت روم کے غیررومی نسل کے باشندوں کے معاملات طے کئے جاتے تھے۔
• چوتھے قانونِ حکام عدالتی، یہ قاضیوں کے وہ عدالتی تشریحات تھیں، جن سے بعض نئے قوانین کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔
(قانونِ روما:۲۲۔۲۵)
فقہ اسلامی کے ابواب اس سے یکسر مختلف ہیں اور اس سے بہت زیادہ جامع، ہمارے یہاں ابواب فقہیہ کی ترتیب اس طرح ہے:
(۱) عبادات:
یعنی وہ افعال جوبراہِ راست بندے اور خداکے درمیان ہیں، مثلاً ارکانِ اربعہ۔
(۲) مناکحات:
وہ احکام جوشخصی زندگی سے متعلق ہیں، نکاح، طلاق، رضاعت، نفقہ، میراث وغیرہ۔
(۳) معاملات:
وہ احکام جودوآدمیوں کے درمیان مالی لین دین وغیرہ سے متعلق ہیں، خریدوفروحت، اجارہ، شرکت وغیرہ۔
(۴) اجتماعی احکام:
اس میں امارت وقضا، جہاد، بین ملکی اور بین قومی تعلقات وغیرہ کی بحثیں آتی ہیں اور عام طور پر ان کوذکر کیا جاتا ہے۔
(۵) عقوبات:
جرائم اور سزاؤں کا ذکر خواہ یہ سزائیں شریعت کی طرف سے مقرر ہوں یانہ ہوں، کوئی بھی صاحب انصاف معمولی غوروفکر سے اندازہ کرسکتا ہے کہ ان دونوں قوانین کے مزاج میں کس قدر فرق ہے۔
مختلف احکام کا تقابل:
اب ایک سرسری نظر فقہ اسلامی اور رومی قانون پرڈال کراس امر کا اندازہ کرنا چاہئے کہ احکام کی تفصیلات میں یہ کس حد تک ایک دوسرے سے قریب ہیں؟ اس پہلو سے بھی ان دونوں مکاتب قانون میں خاصا فرق نظر آتا ہے، رومی قانون کی طرح اسلام نے بھی ابتداً غلامی کوایک قانونی عمل تسلیم کیا تھا؛ لیکن پیدائشی طور پر آزاد شخص کے غلام ہونے کی صورت اس کے سوا کوئی نہ تھی کہ وہ جنگ میں گرفتار کیا جائے اور یہ غلامی کوتسلیم کرنا بھی کچھ اس وجہ سے نہ تھا کہ رومی قانون اس کا قائل تھا؛ لیکن رومی قانون میں جنگ میں گرفتاری کے سوا مزید سات اسباب ہیں جن کی وجہ سے آزاد انسان کوغلام بنایا جاسکتا ہے۔
1. کوئی شخص سازشی طور پر اپنے آپ کو غلام ظاہر کرکے فروخت کردے ۔
2. آزاد شدہ غلام آقاء سابق سے احسان فراموشی کا سلوک کرے۔
3. مردم شماری یافوجی خدمت سے گریز کرے۔
4. مقروض ہو اور قرض ادا نہ کرے۔
5. چور چوری کرتا ہوا پکڑا جائے۔
6. آزاد عورت کسی غلام سے اس کے آقا کی رضامندی کے بغیر مباشرت کرے۔ (قانون روما:۲۲۔۲۵)
اسلام نے شہری اور بنیادی حقوق میں نسل وخاندان کی کوئی تفریق نہیں کی ہے؛ لیکن رومی قانون حق رائے دہی، خدماتِ عامہ کے حصول کے حق، حقِ تجارت، یہاں تک کہ حقِ ازدواج، جس سے بچوں پراختیارِ پدری حاصل ہوتا ہے سے بھی غیررومی نسل کے لوگوں کومحروم رکھتا ہے (قانونِ روما:۴۸) لیکن شاہ جسٹینن کے زمانہ سے مملکت روما کے تمام باشندوں کو "رومی" تسلیم کرلیا گیا تھا۔
اسلامی فقہ ہربالغ شخص کوــــــ سوائے اس کے کہ وہ عقل کے اعتبار سے متوازن نہ ہوـــــــ اپنے بارے میں مکمل خود اختیاری قرار دیتا ہے؛ لیکن رومی قانون میں "مورثِ اکبر" کا تصور ہے، مثلاً اگردادا زندہ ہے تووہ اپنے صاحب اولاد فرزندوں پربھی اسی طرح ولایت رکھتا ہے جس طرح کہ کسی نابالغ بچہ پر۔
(قانونِ روما:۵۰)
اسلام میں ثبوتِ نسب نکاح، یااپنی باندی سے وطی یاوطی بالشبہ، انہیں تین ذرائع سے ہوسکتا ہے، زنا کی وجہ سے نسب کا ثبوت نہیں ہوتا؛ لیکن رومی قانون میں ازواج، ماں باپ کے ذریعہ بھی نسب کوصحیح تسلیم کیا جاتا ہے (قانونِ روما:۵۰)اسلام میں رشتۂ ولدیت ایک فطری اور طبعی رشتہ ہے، یہ کوئی عقد اور معاملہ نہیں ہے، جوزبان کے بول کے ذریعہ پیدا ہوجائے، رومی قانون "تبنیت" کو تسلیم کرتا ہے "تبنیت" کے ذریعہ مصنوعی طور پر جس شحص سے اس کا رشتہ فرزندی قائم ہوا ہے وہ اس کے خاندان میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کا اپنے اصل خاندان سے رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔
(قانونِ روما:۵۱۔۵۳)
اسلام میں باپ دادا کوبھی ولایت حاصل ہے؛ مگروہ ایک بہت محدود نوعیت کی ہے اور اس کے لیے کسی تصرف کی اجازت نہیں جوزیرولایت بچوں کے مفاد میں نہ ہو؛ نیز اولیاء کو ان کے مال پرمالکانہ حقوق بھی حاصل نہیں ہیں، اس کے برخلاف قانون روما میں باپ کے اختیارات بہت وسیع ہیں؛ یہاں تک کہ اسے اپنی اولاد کوبیچنے اور قتل کرنے تک کی اجازت تھی اور جس طرح آقا اپنےغلام کوآزاد کرسکتا تھا؛ اسی طرح باپ کے اپنی اولاد کوآزاد کرنے کا تصور تھا۔
(قانونِ روما:۵۴۔۵۶)
قانون ازدواج میں بھی ان دونوں کے درمیان خاصا فرق پایا جاتا ہے، قانون روما میں اصولی طور پرعورت شادی کے بعد اپنے خاندان سے کٹ جاتی ہے اور شوہر کے خاندان میں ضم ہوجاتی ہے (قانونِ روما:۵۷) اسلام کا تصور یہ ہے کہ نکاح محض ایک معاہدہ ہے، نکاح کے بعد بھی عورت کا اپنے خاندان سے تعلق باقی ہے، وہ اپنے خاندان سے میراث اور مختلف حقوق پانے کی حقدار ہوتی ہے اور شادی کے بعد بھی تمام انسانی اور بنیادی حقوق اسے حاصل ہوتے ہیں ۔
قانونِ روما شادی شدہ شخص اور غلام کے لیے نکاح کوجائز نہیں رکھتا، نہ صغرِسنی کے نکاح کوجائز قرار دیتا ہے (قانونِ روما:۵۷،۵۸) اسلام نے ان تمام صورتوں میں نکاح کی اجازت دی ہے، مذہبی رسوم کے ساتھ نکاح کے علاوہ ایک عرصہ تک ناجائز طریقہ پرمردوعورت ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور میاں بیوی کا ساسلوک کریں تواس سے بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے (قانونِ روما:۵۸،۵۹) اسلام اس طرح کے بے ضابطہ نکاح اور بے شرمی پرمبنی نکاح کروا نہیں رکھ سکتا۔
اسلام میں نکاح میں عورتو ں کی طرف سے جہیز کا کوئی تصور نہیں؛ بلکہ مرد کومہر ادا کرنا ہے؛ لیکن رومی قانون اس کے برعکس جہیز کا تصور پیش کرتا ہے اور اکثراوقات شوہر کواس کا حقدار قرار دیتا ہے، مہر کا کوئی تصور قانونِ روما میں نہیں(قانونِ روما:۹۱) قانونِ روما کی رو سے عورتیں کبھی بھی اپنے نفس کی مالک نہیں ہوتیں؛ بلکہ ولی کی ولایت اس پردائمی رہتی ہے(قانونِ روما:۹۱) اسلام میں بالغ ہونے کے بعد عورت کواپنے نفس اور مال پرخود ولایت حاصل ہوتی ہے۔
قانونِ روما سود کوجائز قرار دیتا ہے؛ یہاں تک کہ امین امانت کی ادائیگی میں تاخیر کرے تواس سے بھی سود لیا جاسکتا ہے (قانونِ روما:۱۴۱) اسلام میں سود شدید ترین خبائث میں سے ہے۔
یہ محض چند مثالیں بطورِ نمونہ کے ذکر کی گئی ہیں؛ ورنہ اگرمختلف شعبہ حیات کا تفصیل کے ساتھ تقابلی مطالعہ کیا جائے تواندازہ ہوگا کہ فقہ اسلامی اور قانونِ روما کے درمیان اس قدر جوہری اختلاف ہیں کہ کوئی صاحب بصیرت اس طرح کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ فقہ اسلامی "رومن لا" سے ماخوذ ہے۔

کلمہ آخریں:
پس حقیقت یہ ہے کہ فقہ اسلامی کی اپنی مستقل بنیادیں ہیں اور اس کا غالب حصہ کتاب وسنت سے ماخوذ ہے، جوتھوڑے سے احکام سے صراحۃ یااشارۃ ثابت نہیں وہ بھی ایسے قیاس پرمبنی ہیں کہ جن کی جڑیں کتاب وسنت میں پیوست ہیںــــــ اسلامی فقہ اور انسان کے خود ساختہ قوانین کے درمیان دوایسے جوہری فرقہ ہیں، جن کا قدم قدم پرمشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور جن سے فقہ اسلامی کا امتیاز اور بہ مقابلہ دوسرے قوانین کی برتری واضح ہوتی ہے۔
 

Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 262028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.