تدوین قرآن پر مستشرقین کے اہم اعتراضات کا ناقدانہ جائزہ

تدوین قرآن کی تعریف: تدوین قرآن سے مراد ایساعمل جس کی بدولت قرآنی آیات مبارکہ کو ترتیب دی گئی ہو یا قرآن پاک کو کتابی صورت میں جمع کرنے کےعمل کوتدوین قرآن کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ مستشرقین کی تعریف: مشرقی علماء کا ایسا گروہ جس کو مشرقی زبانوں،ثقافت وکلچر،تہذیب وتمدن ، تاریخ اور ادیان پر مکمل عبور حاصل ہونے کےساتھ ساتھ شریعت محمدی کی تعلیمات پر بھی مکمل عبور حاصل ہو اُسے "مستشرق "کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

تدوین قرآن کی تعریف:
تدوین قرآن سے مراد ایساعمل جس کی بدولت قرآنی آیات مبارکہ کو ترتیب دی گئی ہو یا قرآن پاک کو کتابی صورت میں جمع کرنے کےعمل کوتدوین قرآن کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
مستشرقین کی تعریف:
مشرقی علماء کا ایسا گروہ جس کو مشرقی زبانوں،ثقافت وکلچر،تہذیب وتمدن ، تاریخ اور ادیان پر مکمل عبور حاصل ہونے کےساتھ ساتھ شریعت محمدی کی تعلیمات پر بھی مکمل عبور حاصل ہو اُسے "مستشرق "کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

تدوین قرآن پر مستشرقین کے اعتراضات کا پسِ منظر:

مستشرقین نے اپنے مقاصد اور اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسلام پر ہر طرف سے وار کئے ۔ ویسے تو مستشرقین نے اسلام اور مسلمانوں کو ہر دور میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ قرآن کریم مستشرقین کا سب سے بڑا ہد ف ہے۔یہ لوگ جانتے ہیں کہ جب تک مسلمان قرآن کریم کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں گے تب تک ان کو صراط مستقیم سے ہٹانا نا ممکن ہے۔
ولیم جیفورڈ بالگراف لکھتا ہے کہ جب قرآن کریم اور مکہ کا شہر نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے تو پھر ممکن ہے کہ ہم عربوں کو اس تہذیب میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے دیکھ سکیں جس تہذیب سے ان کو محمد ﷺ اور ان کی کتاب کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک سکتی ۔چنانچہ مسلمانوں کو ان کی بنیاد سے ہٹانا مستشرقین کے نقطۂ نظر سے انتہائے ضروری تھا ، انہوں نے اس عظیم الشان کلام پر ایسے اعتراضات کئے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کئے تھے۔ مستشرقین نے قرآن کریم پر ہر طرح سے اعتراضات کرکے اسے (نعو ذ باللہ ) تحریف شدہ اور بے بنیاد کلام ثابت کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہیں۔مستشرقین کےان اعتراضات میں سے ایک اعتراض "تدوین قرآن"بھی ہے۔
تدوین قرآن پرمستشرقین کے اعتراضات:
دین اسلام کا پہلا مآخذ قرآن پاک ہے ۔ اس لیے ہر مسلمان اس الہامی کتاب کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور ہر مسلمان قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش میں لگاہوا ہے۔ تاکہ وہ فلاحِ دارین حاصل کر سکئے۔ یہ وجہ ہے کہ چند مغربی علماء نے اس کلامِ الہی کی حفاظت کو مشکوک بنانا شروع کردیا۔ اور اس کی آیات مبارکہ کا غلط ترجمہ پیش کرکے اس پر اپنے اعتراضات کو پیش کیا۔ ان مستشرقین کے اعتراضات میں سے چند اعتراضات مندرجہ ذیل یہ ہیں:
اعتراض نمبر ۱: ابتدائی زمانے کی آیات مبارکہ کا تعلق حافظِےسے ہے :
ایف ،بہل نے دعویٰ کیا ہے کہ عہد رسالت ﷺ کی ابتداء میں قرآن پاک کی آیات مبارکہ کو لکھا نہیں گیا ۔ بلکہ ان کو یاد کیا گیا تھا ۔اس لیے ان آیات مبارکہ کا تعلق رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے حافظِ پر ہے اس لیے عین ممکن ہے کہ ابتدائی زمانے کی آیات مبارکہ محفوظ نہیں رہیں۔ اور اُس نے اپنے اس دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کے لیے قرآنِ پاک کی دو آیات مبارکہ کو بھی پیش کیا ۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ﴿۶﴾ اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ ؕ اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَہۡرَ وَ مَا یَخْفٰی ؕ﴿۷﴾
اب ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم نہ بھولو گے ۔ مگر جو اللّٰہ چاہے بے شک وہ جانتا ہے ہر کُھلے اور چُھپے کو۔
(سورۃ اعلیٰ :۶)
مَا نَنۡسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنْہَاۤ اَوْ مِثْلِہَا ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۶﴾
جب کوئی آیت ہم منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے کیا تجھے خبر نہیں کہ اللّٰہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔(سورۃ البقرۃ: ۱۰۶)

اعتراض کاجواب:
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں جو اعتراض کیا گیا ہے وہ اعتراض رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے حفاظِ پر کیا گیا ہے ۔ مگر اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کی تفسیر تھوڑی سی بھی جانتا ہے تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ ان دونوں آیات مبارکہ میں قرآن کریم کی منسوخ آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

اعتراض نمبر۲: رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ ایک آیت مبارکہ یاد نہیں رہی:
مارگولیوتھ نے بخاری شریف اور مسلم شریف میں موجود اس حدیث مبارکہ کو بنیاد بناکر کہا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ :
"ایک رات رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو مسجد میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہو سُنا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ! اللہ اُن پر رحم کرئے ، انہوں نے مجھے ایک ایسی آیت یاد دلادی جو مجھ سے بھول گئی تھی"۔
مارگولیوتھ اس مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کو بیان کرنے کے بعد کہتا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ ایک آیت مبارکہ کو بھول سکتے ہیں تو یہ عین ممکن ہے کہ آپ ﷺ معاذ اللہ ابتداء زمانے کی بہت ساری آیات مبارکہ بھی بھول گیے ہوں گئے ۔ کیونکہ ابتدائی دور میں قرآنِ پاک کو لکھا نہیں جاتا تھا بلکہ یاد کیا جاتا تھا۔ اور اگر ایسا نا ہوتا تورسول اللہ ﷺ اس طرح کی کوئی حدیث بیان نہ کرتے۔
اعتراض کاجواب:
مذکورہ بالا واقعے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بسااوقات ایک عام انسان کو ایک بات یاد نہیں ہوتی مگر جیسے ہی دوسرا شخص اس کے سامنے اس بات کا ذکر کرتا ہے تو وہ اس کو فوراً یاد آجاتی ہے ۔ اور اس کے حافظے میں تازہ ہو جاتی ہے ۔ اس لیے اس حدیث مبارکہ کو بنیاد بناکر آپ ﷺ کی طرف کو یہ ثابت کرئے کہ آپ ﷺ نے خود ایسا کہا ہے تو یہ صرف تعصب ہے اور کچھ نہیں ۔
اعتراض نمبر۳: امام بخاری پر مارگولیوتھ کا ایک الزام
مارگولیوتھ نے قرآن کریم کی حفاظت پر ایک ایک چوتھا اعتراض ان الفاظ میں کیا ہے:
"امام بخاری کا کہنا ہے کہ یہ جملہ بذریعہ وحی نازل ہوا تھا کہ تم اُس رشتہ داری کا پاس کرو جو میرے اور تمہارے درمیان موجود ہے۔ لیکن مفسرین قرآن کےمطابق یہ جملہ قرآن پاک میں نہیں ملتا، اس لئے وہ اس جملے کو سورۃ شوریٰ ،آیت نمبر ۲۳کی تشریح قرار دیتےہیں"۔

اعتراض کا جواب:
مارگولیوتھ کے اس بیان میں یہ بات ثابت کرنےکی کوشش کی گئی ہے کہ امام بخاری ایک ایسے جملے کو قرآن پاک کا جُز مانتے ہیں جو اس وقت قرآن پاک میں موجود نہیں ہے، حالانکہ ہر شخص صحیح بخاری اٹھا کر دیکھ سکتا ہے کہ امام بخاری نے آیت مبارکہ کے وہی الفاظ نقل کئے ہیں جو قرآن پاک میں موجود ہیں ۔
اعتراض نمبر۵: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کچھ آیات مبارکہ گم ہو گئیں تھیں:
مارگولیوتھ نے پانچواں اعتراض یہ کیا ہے کہ مسند احمد بن حنبل کی ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کچھ آیتیں گم ہو گئیں تھیں۔ جن کو ہمارا پالتو جانور کھا گیا تھا۔ یہ آیات مبارکہ ایک تخت کے نیچے پڑی ہوئیں تھیں۔
اعتراض کا جواب:
لیکن یہ حقیقت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جن آیات مبارکہ کا ذکر فرمایا ہے شریعیت محمدی کی رو سے یہ وہ آیات مبارکہ ہیں جو منسوخ ہو چکی تھیں۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ بھی عقیدہ تھا۔ اگر یہ آیات مبارکہ قرآنِ پاک کا حصہ ہوتیں تو وہ کم از کم ان کو یاد ہوتیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو قرآن پاک کے نسخوں میں ضرور درج کرواتیں۔ لیکن انہوں نے ساری عمر ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ آیات مبارکہ منسوخ تھیں اور وہ قرآن پاک کا حصہ نہیں تھیں۔
اعتراض نمبر۶: عہدرسالت میں حفاظ کی تعداد :
کچھ مستشرقین کا اعتراض یہ ہے کہ ایک صحیح بخاری شریف کی حدیث کے مطابق قرآن پاک کے چار حفاظ نے جمع کیا تھا۔ اور عہد رسالت ﷺ میں قرآن پاک کے یہ صرف چار حفاظ ہی تھیں ۔ لہذا اس قرآن کی جمع مشکوک ہے۔
اعتراض کا جواب:
حالانکہ کہ تاریخ اسلامیہ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عہدِ رسالت ﷺ میں بہت سارے حفاظ کرام موجود تھے ۔ مگر جن حفاظ کرام آپﷺ کے وصال کے بعد قرآنِ پاک کو جمع کرنے کے لیا مقرر کیا گیا تھا ان کے نام (حضرت ابی بن کعب،حضرت معاذ بن جبل، حضرت زید بن ثابت اور ابوزید رضی اللہ تعالیٰ عنہم)یہ چار تھے۔
دوسری بات یہ کہ مذکورہ حدیث میں قرآن کریم کو جمع کرنے کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کے مفہوم سے مراد یہ ہے کہ عہدِ رسالت میں ان چار اصحابہ کرام کےپاس پورا قرآن ِ پاک لکھا ہوا محفوظ تھا ۔ عہدِ رسالت میں۔
اعتراض نمبر۷: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معوذتین :
بعض لوگ مُسند احمد کی اس روایت کو بہت اُچھالتے ہیں جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ فلق اور سورۃ الناس کو قرآن پاک کا حصہ نہیں مانتے تھے۔
اعتراض کا جواب :
دراصل یہ واقعہ بالکل غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی پوری امت کی طرح معوذتین کو قرآن پاک کا جزء قرار دیتے تھے اور جن روایتوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ان دو سورتوں کے قرآن پاک ہونے کے قائل نہ تھے وہ درست نہیں ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قرآن پاک کی جو متواتر قرأتیں منقول ہیں اُن میں یہ سورتیں شامل ہیں۔
اعتراض نمبر۸: خلافتِ صدیقی میں جمع قرآن کی روایت مستشرقین کا :
بعض مستشرقین نے اس واقعے ہی کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں سرکاری سطح پر قرآن کریم کی جمع وترتیب کی کوشش نہیں ہوئی ، بلکہ سرکاری سطح پر اس نوعیت کا پہلا کارنامہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انجام دیا ۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جس نسخے سے استفادہ کیا تھا وہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذاتی نسخہ تھا۔ کوئی سرکاری طور پر تیار کیا ہوا نسخہ نہیں تھا ۔ اس دعوے کے ثبوت میں انہوں نے صحیح بخاری کی اُس روایت پر متعد د اعتراضات کئے ہیں جو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اور جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جمعِ قرآن کا واقعہ بیان کیا ہے۔
اعتراض کا جواب:
صحیح بخاری کی جس حدیث شریف کو یہ لوگ بنیاد بناکر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے کہ جنگ یمامہ میں حفاظ قرآن کی کثیر تعداد شہد ہوئی ۔ حالانکہ تاریخی طور پر یہ واقعہ درست نہیں ہے کیونکہ جنگ یمامہ کے شہدا کی فہرست میں ایسے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، جو قرآن کریم کے حافظ ہوں کیونکہ شہداء زیادہ تر نو مسلم تھے۔

Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 259138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.