ہماری زندگی پر صحبت کا اثر ( دوسرا اور آخری حصہ )

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ بھلا صحبت کا بھی کوئی اثر ہوتا ہے یہ کیسے ممکن ہے اس بات کو سمجھانے کےلئے میں اکثر ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ دو اشخاص لسی پینے کی غرض سے ایک دکان پر پہنچے ایک نے کہا کہ جی مجھے میٹھی لسّی کا گلاس دیجئے اور دوسرے نے کہا کہ مجھے نمکین لسی کا گلاس دیجئے اب دونوں گلاس میں دکاندار نے دودھ اور دہی کا استعمال کیا لیکن میٹھی لسی لے لئے اس نے چینی کا استعمال کیا اور نمکین لسی کے لئے نمک کا اب جس گلاس میں دودھ اور دہی نے چینی کی صحبت اختیار کی وہ گلاس میٹھا ہوگیا اور جس گلاس میں دودھ اور دہی نے نمک کی صحبت اختیار کی وہ گلاس نمکین ہوگیا دودھ اور دہی کی مقدار دونوں جگہ پر ایک جیسی تھی لیکن چینی اور نمک کی صحبت سے دونوں میں تبدیلی آگئی اب جب یہ لسی کیے اندر صحبت کا اتنا اثر ہوسکتا ہے تو ہم تو باشعور سمجھدار اور اشرف المخلوقات میں سے ہیں ہم پر صحبت کا اثر کیسے نہیں ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک تحقیق کے مطابق جب سے یہ دنیا قائم ہوئی تب سے لیکر اب تک آنے والے تمام انسانوں میں وہ لوگ جو 1960 کے بعد پیدا ہوئے انہوں نے ٹیکنولوجی کے ذریعے دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو سب سے زیادہ دیکھا اور محسوس کیا ہے اسی طرح وہ لوگ جو 1999سے لیکر 2022 کے درمیان پیدا ہوئے یعنی زیادہ سے زیادہ 20 یا 22 سال یا لگبھگ 24 سال کے نوجوان اور کم از کم ایک سال سے تین یا چار سال کے بچے آتے ہیں یہ وہ جنریشن ہے جنہوں نے پوری دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکنولوجی کا استعمال کیا ہے اس لئیے ماہرین کا کہنا ہے کہ 1990 کے بعد والی جنریشن کی تربیت کرنا سب سے مشکل ترین کام ہے سب سے پہلی بات جو اس جنریشن میں نظر آتی ہے وہ غصہ ہے یعنی انہیں غصہ بہت آتا ہے اگر ایک چھوٹا بچہ موبائل سے کھیل رہا ہے تو ایک لمحہ کے لئے آپ اس سے وہ موبائل لیکر دیکھیں اور پھر اس کا غصہ دیکھنے کے قابل ہوگا دوسرا یہ کہ یہ نوجوان اس جدید ٹیکنولوجی کے ذریعے جن لوگوں کے ساتھ کنکٹ ہیں اور ان کی صحبت میں وہ اپنا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں تو ان کے سامنے ماں باپ کی اہمیت اور ان کی باتوں کا اثر کم ہوتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں سب سے زیادہ ہماری نوجوان نسل غلط صحبت کے زیر اثر بے راہ روی کا شکار ہوتے ہوئے نظر آتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک علم دین نے بڑی اچھی بات کہی کہ جس طرح ہم اپنے پرس میں پیسوں کے علاوہ کچھ کارڈز اور کچھ کاغذات بھی جمع کرتے رہتے ہیں پھر جب کچھ دنوں میں فرصت ملتی ہے تو ہم اس کی صفائی کرتے ہیں اور بلا ضرورت کے کاغذات اور کارڈز ہم پرس میں سے نکال لیتے ہیں بالکل اسی طرح ہمیں ہر تھوڑے دنوں بعد اپنے دوستوں کی لسٹ میں سے غیر ضروری دوستوں کو نکال دینا ہوگا جن کی وجہ سے ہماری صحبت کا اثر برا ہونے کا اندیشہ ہو تو خود بخود باقی بچنے والے دوست ہمارے اچھی صحبت کے ساتھی ہوں گے ۔ہمارے معاشرے میں صحبت کے اثرات کا ایک ذریعہ بدعقیدہ لوگ بھی ہیں یعنی ہم کسی ایسے شخص کے ساتھ مراسم بڑھالیتے ہیں جو یا تو ہمارا ہم مذہب ہی نہیں یا پھر جو مسلمان تو ہے لیکن دین کے معاملہ میں اس کا عقیدہ درست نہیں ایسے شخص کے ساتھ دوستی یا صحبت اختیار کرنے سے ہمارے لئیے جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ ہے ہمارے ایمان کا بچنا کیونکہ ایسے لوگ آپ کو اپنی صحبت میں لیکر آپ کو گمراہ کرکے آپ سے آپ کا ایمان چھین لیتے ہیں جس کی وجہ سے اپ پوری زندگی مسلمان کی حیثیت سے دنیا میں رہ کر بھی ایمان سے خارج ہوکر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں ایک دوست ہونا چاہئے لیکن دوستی کو سچ اور مخلصی کے پیمانے میں ناپنے کے لئے ہمیں لفظ دوست کے چار حروف پر غور کرنا ہوگا یعنی ہم جس کو اپنا رفیق بنانے جارہے ہیں کیا اس میں درد سہنے اور برداشت کرنے کی طاقت ہے کیا وہ وفادار ہے کیا اس میں ستار ہونے کی خوبی ہے اور کیا اس شخص میں حق اور سچ کے ساتھ تابعداری کرنے کا شوق و جذبہ ہے کیونکہ جس طرح حدیث مبارکہ میں سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو جس شخص کے ساتھ آپ صحبت اختیار کرنے جارہے ہیں کیا وہ ان تمام خوبیوں کا حامل انسان ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھئیے کہ
حضرت یحییٰ بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
صديقك من حذرك من الذنوب.
آپ کا حقیقی دوست وہ ہے جو آپ کو گناہوں سے ڈرائے
(صفة الصفوة: 295/2)
یہاں ایک بات کا ذکرکرنا میں بہت ضروری سمجھتا ہوں ک آج ہم جس معاشرے میں اپنی زندگی گزارنے میں مصروف عمل ہیں یہاں ایک تحقیق کے مطابق ہماری نوجوان نسل کا ایک بہت بڑا حصہ کسی نہ کسی عورت کی وجہ سے غلط صحبت کا شکار ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور شیطان کے لئے کسی بھی انسان کو بہکانے اور اس کو غلط راستے پر ڈالنے کے لئیے عورت کو استعمال کرنا انتہائی آسان ہے اس لئے عورت کو شیطان کا ہتھیار بھی کہا گیا ہے اسی لئے کسی کو صحیح راستے سے ہٹا کر غلط راستے پر لیجانے کے لئے عورت کا استعمال عام ہے اور ہمارے یہاں یہ ایک قابل فکر اور قابل غور بات ہے ماں باپ اور گھر کے دوسرے بزرگوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام اہل سنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فتاوی رضویہ میں ایک واقعہ تحریر فرمایا اور دوسرے کئی محدثین نے بھی اس کو نقل کیا ہے کہ تابعین کے زمانے کا ایک بہت بڑا محدث تھا جس کا نام عمران بن کلاشی تھا وہ بہت بڑا عالم بھی تھا لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے اس سے اپنے مسائل کا حل معلوم کرنے کی غرض سے آتے تھے اور اس کا دعوہ تھا کہ کوئی بھی اپنا مسئلہ لیکر اس کے پاس جائے تو وہ اسے مطمعین کرکے اس کا مکمل حل کرکے اسے رخصت کرے گا اس کو یہ علم ہوا کہ یہاں ایک عورت رہتی ہے جو خارجی فرقہ سے تعلق رکھتی تھی تو اس نے کہا کہ میں اس عورت سے شادی کرکے اسے اپنے مسلک میں لے آئوں گا یعنی سنی بنائوں گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لوگوں نے اس سے کہا کہ اگر بدمذہب یا بدعقیدہ کوئی شخص ہو تو وہ اپنی صحبت سے آپ کے ایمان کو چھین لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے یہ تو پھر عورت ہے اور عورت کو اس سے زیادہ آسانی ہے وہ تو تمہارے ایمان کے ساتھ تمہاری عقل بھی اپنے ساتھ لے جائے گی لیکن اس نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں لہذہ اس نے پیغام بھیجا اور اس عورت سے شادی کرلی وہ عالم دین وہ محدث جسے لوگ مانتے تھے جو لوگوں کے مسائل کو حل کرکے انہیں مطمعین کرکے واپس بھیجتا تھا ٹھیک ایک سال کے بعد اس عورت کے ایسے شکنجے میں آیا کہ اس عورت نے اسے بھی خارجیت میں داخل کردیا میرے امام سیدی اعلی حضرت علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جب ایک معتبر عالم ایک محدث اور اتنا علم رکھنے والا انسان عورت کی بری صحبت کے اثر سے نہ بچ سکا تو ہم اور آج کے ہمارے نوجوان ان کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لئیے بدمذہب اور بدعقیدہ لوگوں کی صحبت سے بچنا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے حجۃ الاسلام، مجتہد، فقیہ، صوفی اور مفکر اسلام حضرت امام غزالی رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں کہ بد مذہب کی صحبت شیطان سے بھی بد تر ہے یہ ایک بہت بڑی بات ہے لیکن آگے اس کی وجہ بتاتے ہوئے امام غزالی علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ شیطان انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور وسوسہ ڈال کر چھوڑ دیتا ہے پھر یہ ہمارا ایمان ہے کہ ہم اس کے وسوسہ میں آکر گناہ کی طرف آتے ہیں یا نہیں جبکہ بدمذہب صحبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باقائدہ آپ کو گناہ کی طرف لیکر جاتا ہے اور اس کے فوائد بتاکر آپ کو آمادہ کرکے گناہ کروانے پر کامیاب ہوجاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ جب کوئی نیا شخص آپ سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے یعنی آپ سے صحبت قائم کرنے کا خواہشمند ہو تو اس سے کوئی سوال نہ کرو بس صرف یہ معلوم کرلو کہ اس کے دوست کون کون ہیں کیونکہ وہ اپنے دوست کی صحبت سے پہچانا جائے گا اور جیسے سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی حدیث ہم نے پڑھی کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوگا اور یہیں اس کی اچھی اور بری صحبت کا ہمیں پتہ چل جائے گا اسی طرح حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللّہ علیہ نے جو پیاری بات اپنی کتاب کشف المحجوب میں لکھی کہ ایک شخص کعبہ کے طواف میں مصروف تھا اور اس کی زبان پر یہ دعا تھی کہ " اے میرے رب میرے دوستوں پر اپنا کرم کردے ان پر رحمتوں کی بارش برسا انہیں اپنے راستے پر چلا انہیں نیک رکھ اور نیک ہی اٹھانا " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا جب اس نے دیکھا تو کہا کہ تم مسلسل ہر چکر میں ایک ہی دعا کررہے ہو اور وہ بھی اپنے دوستوں کے لئے ارے کچھ اپنے لئے بھی تو مانگ لو تو اس نے کہا کہ بھئی میں یہاں تو صرف چند دنوں کے لئے آیا ہوں مجھے واپس تو اپنے دوستوں کے پاس ہی جانا ہے وہیں رہنا ہے اگر وہ نیک اور اچھے رہے تو مجھے بھی اچھی صحبت میسر آئے گی ورنہ میں بھی بری صحبت کا شکار ہو جائوں گا ۔یعنی صحبت کا اتنا گہرا اثر انسان کی شخصیت پر ہوتا ہے یہ ہر ذی شعور اہل ایمان مسلمان انسان کو سوچنا اور سمجھنا چاہئے اور پھر کسی سے دوستی کرکے اس کے ساتھ صحبت اختیار کرے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بات یاد رکھئے کہ ظا ہری طور پر سچ ہمیشہ کڑوہ اور جھوٹ ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے لیکن اندر سے ہمیشہ سچ کی تاثیر میٹھی اور جھوٹ کی تاثیر کڑوی ہوتی ہے بالکل اسی طرح بدمذہب انسان آپ کو اپنی بری صحبت کے تحت آہستہ آہستہ زہر دے رہا ہوگا اور وہ آپ کو میٹھا محسوس ہوگا جبکہ آپ کو اس کی بری صحبت سے روکنے کی نصیحت کرنے والے کا سچ کڑوہ لگے گا اب وہ چاہے آپ کا بھائی ہو یا والدین ان کی باتیں آپ پر اثرانداز نہیں ہوں گی کیونکہ آپ نے اپنی ایک صحبت اختیار کرلی ہے اور اسی کا اثر آپ پر ہوتا نظر آتا رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اچھی یا بری صحبت کے متعلق ہمارے انتہائی معتبر , معزز اور فخر اہلسنت پروفیسر حضرت علامہ محی الدین قادری دامت برکاتہم العالیہ نے بہت اعلی اور پیاری بات بتائی وہ فرماتے ہیں کہ ایک اہل ایمان مسلمان کو اپنی اچھی صحبت کے لئے دوستوں کی ایک لسٹ بنالینی چاہئے اس میں سب سے پہلا نام اپنے مذہب یعنی اسلام کا ہونا چاہئے دوسرا نام قرآن کا اور تیسرا نام حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنت اور احادیث کا ہونا چاہئے یہ تمام صحبتیں انسان کو کبھی گمراہ نہیں ہونے دیتی اور ان سے دوستی کرکے ان کی صحبت اختیار کرکے ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے گا کسی وقت میں کہا جاتا تھا کہ انسان کی سب سے اچھی دوست ایک کتاب ہوتی ہے یہ واقعی صحیح ہے زندگی گزارنے کے ہر راستے کا تعین ہمیں قرآن سے ملتا ہے اگر قرآن سے دوستی کرکے اس سے صحبت اختیار کرلی جائے تو ہمیں بری صحبت سے چھٹکارا باآسانی مل سکتا ہے اب قرآن ہو یا سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم یا احادیث مبارکہ یہ سب ہمارے لئے ہمارے مذہب اسلام کا تحفہ ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس بارےمیں ایک انتہائی قابل غور مثال دیکر پروفیسر صاحب نے اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے آپ نے فرمایا کہ ہمارے جسم کا ہر حصہ اللہ کے حکم کے تابع ہے اور اپنا کام سر انجام دیتا ہے یعنی آنکھ کا کام دیکھنا پائوں کا کام چلنا ناک کا کام سونگھنا اور ہاتھ کا کام پکڑنا ہے جبکہ کوئی عضو دوسرے کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی کسی سے دوسرے کو کوئی سروکار مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کے پائوں میں چوٹ اجائے تو آنکھ کہتی ہے کہ میراپائوں سے کیا لینا دینا اگر ہاتھ میں لگ جائے تو پائوں کہے کہ میرا کیا لینا دینا تو آپ سوچیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر پائوں میں چوٹ لگ جانے کی وجہ سے آکھ سے آنسو کیوں نکلتے ہیں ہاتھ میں درد ہو تو آنکھ آنسو کیوں بہاتی ہے اس لئیے کہ انسان کے تمام اعضاء کو کنٹرول کرنے والی اس کی روح ہوتی ہے اور تمام اعضاء روح کی صحبت میں رہ کر اس کے حکم پر سب کام انجام دیتے ہیں اگر روح پاک اور اچھی ہے تو وہ اپنے ہر عضو سے اچھا کام لے گی اور اگر بری ہے تو برا کام لے گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں اکثر اپنی تحریروں میں یہ بات کہتا ہوں کہ آج ہم جس معاشرے میں اور جس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں سب سے مشکل کام اپنا ایمان بچانا ہے اور ایمان کو بچانے اور اس کے ساتھ دنیا سے رخصتی صرف اور صرف اچھی صحبت سے ہی ممکن ہو سکتی ہے اپنے پیارے مذہب سے دوستی کرکے قرآن کی صحبت اختیار کرلیں حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں پر عمل پیرا ہوکر احادیث مبارکہ میں فرمائے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے فرمان پر اپنی زندگی کو ڈھالنے کی تق ودو میں لگ جائیں پھر ان شاءاللہ کوئی بدمذہب کوئی بدعقیدہ اور کوئی شیطان آپ کی دنیا اور آخرت کو برباد کرنے کی ہمت نہیں کرے گا آخر میں اللّٰہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ہمارے بچوں ہمارے خاندان والوں اور ہمارے اردگرد بسنے والے ہر اہل ایمان مسلمان کو اچھی صحبت کے حامل لوگوں کے ساتھ اپنا وقت گزارنے کی توفیق عطا کرے اور بری صحبت اور اس کے برے اثرات سے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رکھے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 129 Articles with 86524 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.