پاناما لیکس اوراپوزیشن کے سات سوال

پاناما لیکس کا جس دن سے نُزُول شروع ہوا ہے ، پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ انکشافات کی دو قسطیں منظر عام پر آچکی ہیں تیسری آنے کو ہے۔ پہلی قسط سے جو انکشافات ہوئے دوسری قسط نے ان میں اور زیادہ اضافہ کردیا ۔ انکشافات کا سلسلہ ابھی رکا نہیں ، سنوائی ہے کہ بہت جلد تیسری قسط بھی اسی آب تاب اور چمک دمک سے جلوہ افروز ہوگی اور اس میں بھی کئی سیاسی پردہ نشینوں کے اسمائے گرامی پاکستانی قوم کو دیکھنے کو ملیں گے۔ پاناما لیکس کے ذریعہ جو آف شور کمپنیاں اور ان کے مالکان سامنے آرہے ہیں ، تجارتی نقطہ نظر سے یہ کوئی خاص بات نہیں۔تاجر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ، جس ملک میں چاہے تجارت کرے، اسٹیٹ کا کاروبار کرے ، اسٹیل مل خریدے یا اسے بیچ دے ، محل خریدے یا اسے بیچ دے، فلیٹس خریدے یا بیچ دے یا کوئی اور کاروبار کرے، قانون اسے یہ حق دیتا ہے۔ آف شور کمپنیاں خاموشی کے ساتھ، چوری چھپے، پردے میں رہتے ہوئے تجارت کا ذریعہ ہوتی ہیں ،یہ ٹیکس بچانے یا کم سے کم ٹیکس دے کر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ وہاں یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آف شور کمپنی قائم کرنے والے کے پاس دولت کہاں سے آئی، جائز ہے یا ناجائز ، آف شور کا مطلب ہی چھپاہوا، مخفی، پردے میں ، چوری کو چھپانا، کالے دھن کو تجارت میں لگانا ، اور اس دولت سے یا تجارت سے جو آمدنی ہو اس پر ٹیکس کی بچت کرنا، ٹیکس نہ دینا ہے۔ اس قسم کی تجارت اور کاروبار کسی بھی تاجر کے لیے تو ٹھیک ہوسکتا ہے اس لیے کہ اس کی زندگی کا مقصد ہی جائز و ناجائز دولت کو اس طرح چھپانا اور ایسے کاروبار میں لگانا کہ کالا دھن بھی محفوظ رہے اور اس کالے دھن میں خاموشی کے ساتھ تیزی سے اضافہ بھی ہوتا رہے۔ آف شور طریقے سے چھپائی گئی دولت کی ایک مثال چند روز قبل ہی سامنے آچکی ہے ، بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ کے گھر سے 73کروڑ نوٹوں کی گڈیاں ، ایک کلو سے زائد سونے کا خزانہ قومی احتساب بیورو نے برآمد کیا۔ اب اگر سیکریٹر خزانہ کو کوئی آف شور کمپنی قائم کرنے کی راہ دکھا دیتا تو آج پاناما لیکس میں موصوف کا نام بھی کسی آف شور مالک کی حیثیت سے شامل ہوتا۔ لاعلمی ، ڈر اور خوف کے باعث موصوف دولت اپنے گھر ہی میں جمع کرتے رہے ۔ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے گھر کون آسکتا ہے ، داد دینی پڑتی ہے نیب کو کہ اس کے جاسوسوں نے کس طرح غیر قانونی طریقے سے جمع کی گئی ملکی دولت کا پتا لگایا۔ پاکستان میں یہ کوئی پہلی مثال نہیں،ماضی میں نوٹوں کی گڈیاں ندی اور نولوں پڑی ہوئی مل چکی ہیں۔

بات یہ شروع کی تھی کہ آف شور کمپنی قائم کرنا اس میں سرمایا کاری کرنا، قانونی طریقے سے یا غیر قانوی طریقے تاجروں کے لیے ، دولت کی حوص رکھنے والوں کے لیے تو جائز بھی اور ناجائز بھی ہوسکتا ہے لیکن سیاست دانوں کے لیے کسی بھی طورمناسب نہیں، پاناما لیکس میں ہزاروں لوگوں کے نام ہیں لیکن واویلا کن ناموں پر ہورہا ہے ان لوگوں کے ناموں پر جو کسی نہ کسی طور سیاست سے وابستہ ہیں، حکومت میں ہیں،وزیر اعظم ہیں، وزیر ہیں، سیاسی جماعت میں اہم عہدہ رکھتے ہیں، یا وزیراعظم کے خاندان کے لوگ بیٹی یا بیٹے،کسی وزیر یا سابق وزیر کے بچے وغیرہ، کسی سیاسی پار ٹی میں ہیں یا رہ چکے ہیں، حتیٰ کہ ایسے افراد کے قریبی رشتہ دار بھی اس میں شامل ہیں تو بھی اصل ذمہ دار سیاست داں ہی ٹہرایا جارہا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا نام پاناما لیکس کی اب تک آنے والی کسی فہرست میں شامل نہیں اس کے باوجود اپوزیشن وزیر اعظم کی سخت گرفت کررہی ہے عام پاکستانی بھی اس سوچ میں ہے کہ وزیر اعظم کے بچے باوجود اس کے کہ وہ جدی پشتی تاجر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اتنی کم عمر میں اتنا کچھ اپنے طورپر کیسے حاصل کر لیا ، سوچ کا دھارا وزیر اعظم کی حیثیت کی جانب بڑھتا ہے اور سوال ذہن میں آتے ہیں ، یہی سوال جو اپوزیشن نے وزیرا عظم کے سامنے رکھے ہیں اور وہ ان کے جواب چاہتی ہیں۔ اسی طرح کے سوالات ان تمام سیاست دانوں سے بھی کیے جانے چاہیے جن کے نام یا ان کے خاندان میں سے کس کا نام پاناما پیپرز میں شامل ہو۔ سیاست دانوں کے پاس اس قدر کثیر سرمائے کا انکشاف ہو تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سیاست دان نے اپنے منصب اور اختیار کا استعمال کرتے ہوئے دولت کمائی ہوگی۔ سیاست داں تو غریبوں سے ہمدردی کا نعرہ لگا کر میدان میں اترتا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا نعرہ لگا تا ہے، عوام کو خوش حالی دینے کی بات کرتا ہے۔ اس کا عمل اگر ایسا ہو کہ وہ خود اور اس کا خاندان امیر سے امیر تر اور عوام غریب سے غریب تر ہوجائیں تو اس سیاست داں یا ان سیاست دانوں سے سوال تو بنتے ہیں۔ قوم ان سے پوچھنے کا حق رکھتی ہے۔ ان پر لازم ہے کہ وہ جواب دیں، تاکہ اگر ان پر غلط الزام لگایا جارہا ہے توان کے دامن پر لگے داغ دھل جائیں۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم صاحب سے سات سوالات کیے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
۱۔ مے فیئر میں فلیٹس پر وضاحت کریں، فلیٹس کب خریدے گئے؟
۲۔ اگر فلیٹس وزیر اعظم کی ملکیت نہیں تو برطانوی اخبارات میں خبروں کی وضاحت کی جائے؟
۳۔ وزیر داخلہ نے فلیٹس پر جو بیان دیا وزیر اعظم صاحب اس کا جواب دیں؟
۴۔ وزیراعظم 1985سے 2016تک بیرون ملک جائیداد کی تفصیلات پیش کریں؟
۵۔ 1985سے 2016تک وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ نے کتنا ٹیکس دیا؟
۶۔ وزیر اعظم اپنے اہل خانہ کے نام آف شور کمپنیوں کی تفصیلات بتائیں؟
۷۔ آف شور کمپنیوں کی مالیت کیا ہے اور سرمایہ کاری کتنی کی گئی۔ لندن کے اپارٹمنٹس کے واجبات کی ادائیگی کے 22ملین ڈالر آپ نے کہاں سے ادا کیے؟

وزیر اعظم صاحب کی جانب سے تمام سوالوں کے جوابات ان کے قریبی اور بہ اعتماد وزیر پریس کانفرنسز میں دے چکے ، ان سوالات کے جواب میں اپوزیشن کو خوب تنقید اور جواب شکوہ پیش کر کے اپوزیشن کی طبیعت صاف کر نے کی پوری کوشش کی۔ خود وزیر اعظم نے واضح طور پر کہا کہ میں اپوزیشن کے کسی سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں، یہ بھی کہ وہ پارلیمنٹ میں بھی نہیں جائیں گے ، جب ان کے اس فیصلہ پر تنقید ہوئی تو انہوں نے فیصلہ واپس لیا،پہلے خبر تھی کہ وہ جمعہ کے اجلاس میں جائیں گے جو ملتوی ہوگیا اب خبر ہے کہ وزی اعظم پیر کے روز پارلیمنٹ میں تقریر کریں گے ، نہیں معلوم کہ وہ سوالوں کے جوابات دیتے ہیں یا نہیں۔ پارلیمنٹ سے فرار کو تنقید کا نشانہ بنا یا گیااس پر تنقید کرنا جائز بھی ہے ،تحریک انصاف کی جانب سے جب دھرنے دئے گئے تو یہ میاں صاحب ہی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ جو بھی پریشانی ہے اس کا اظہار پارلیمنٹ میں آکر کیا جائے ، دھرنے مسائل کا حل نہیں۔ اب کیا ہوگیا؟ اپنے لیے یہی بات درست ہوگئی۔ عجیب منطق ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ پارلیمنٹ نے تو آپ کو جنم دیا ہے، آپ اس سے ہی فرار اختیار کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ کی تو اس میں اکثریت ہے پھر کس بات کا ڈر اور خوف۔

پاناما لیکس کابم سیاست دانوں پر خاص طور پر وزیر اعظم صاحب پر آسمانی بجلی بن کر ایسا گرا ہے کہ اس سے نکلنا مشکل نظرآرہا ہے۔ صاف صاف بتاتے ہیں تو پکڑے جاتے ہیں، جھوٹ اب چل نہیں سکتا، کمیشن اگر بن بھی گیا تو اس میں بھی اسی قسم کے سوالات میا ں صاحب کا پیچھا کریں گے۔ اب تو چیف جسٹس صاحب نے بھی کمیشن کے قیام کے لیے مشکلات کا خط لکھ دیا ہے جس سے معاملا دو دھاری تلوار کی طرح حکومت پر لٹک چکا ہے۔ سنوائی ہے کہ میاں صاحب نے مولانا ’اقتدار ‘(مولانا فضل الرحمٰن) کے ذریعہ زرداری صاحب سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، یہ وہی زرداری صاحب ہیں جن پر بڑے اور چھوٹے میاں صاحب کرپشن کے کیا کیا الزامات لگایا کرتے تھے۔ اقتدار بھی کیا بلا کی چیز ہے بندے کو کیسی کیسی قلابازیاں کھانے پر مجبور کردیتاہے۔ لگتا ہے سیاست نام ہی غلط بیانی کرنے، جھوٹ بولنے، دوسروں پر کیچڑ اچھالنے، الزام تراشی کرکے مکر جانے کا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاناما لیکس کا معاملا جو پیچیدہ صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ کمیشن بنانے پر اتفاق ہوجائے گا، ٹرم آف ریفرنس دونوں افہام و تفہیم سے بنا لیں گے، دونوں جانب سے سیز فائر ہوجائے گا، کمیشن اپنا کام سبک رفتاری سے جاری رکھے گے، اپوزیشن ٹھنڈی ہوجائے گی، حکومت سکھ کا سانس لے گی۔ جب کمیشن کی رپورٹ آئے گی میاں صاحب کے دن پورے ہوچکے ہوں گے، یعنی 2018آچکا ہوگا، الیکشن تمام پارٹیوں کو اپنی جانب متوجہ کر لے گا اور میاں صاحب جیسے اس پہلے بحرانوں سے نکلتے رہے ہیں ۔ پاناما لیکس کے بحران سے بھی نکل جائیں گے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281408 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More