آپ ﷺ پر "صرف درود پڑھنا"بغیر سلام کے

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بغیر سلام کے صرف صلوٰۃ پڑھنے کا بلاکراہت جواز ہے
علامہ نووی شافعی اور بعض دیگر علماء شافعیہ نے کہا ہے کہ صلوا علیہ وسلم وا (الاحزاب : ٥٦) کا تقاضا یہ ہے کہ صلوٰۃ اور سلام دونوں کو ایک ساتھ پڑھنا واجب ہے اور صرف صلوٰۃ کو بغیر سلام کے پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ ہمارے نزدیک صرف صلوٰۃ پر اقتصار کرنا مکروہ تحریمی نہیں ہے‘ زیادہ سے زیادہ خلاف اولیٰ ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بہ کثرت احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف صلوٰۃ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ سلام پڑھنے کا حکم نہیں د یا گیا۔ اگر صلوٰۃ کے ساتھ سلام پڑھنا بھی واجب ہوتا تو آپ متعدد مواقع پر صرف صلوٰۃ کا حکم نہ دیتے۔ ہم نے اس سے پہلے ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی فضیلت میں احادیث اور آثار“ کے عنوان کے تحت ٤٠ احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے ١٣٧ احادیث ایسی ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ مواقع پر صرف صلوٰۃ (درود) پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

اب اگر یہ کہا جائے کہ صلوا علیہ وسلم وا (الاحزاب : ٥٦) کا تقاضا یہ ہے کہ صلوٰۃ اور سلام دونوں کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر دو یا دو سے زائد احکامات ایک ساتھ بیان فرمائے ہیں‘ لیکن ان میں کہیں بھی احناف یہ موقف اختیار نہیں کرتے کہ ان احکامات پر بیک وقت عمل کرنا واجب ہے اور اس کے خلاف کرنا مکروہ تحریمی یا حرام ہے۔ احناف کا اصول یہ ہے کہ وائو مطلق جمع کے لیے آتا ہے۔ یعنی جب دو چیزوں کو وائو کے ذریعہ ایک ساتھ بیان کیا جائے تو ان میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ان دونوں پر ایک ساتھ عمل کیا جائے‘ بلکہ علیحدہ علیحدہ عمل کرنا بھی جائز ہوتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ(البقرہ : ٤٣) نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔ نیز فرمایا : اذکروا اللہ ذکراً کثیرا لا وسبحوہ بکرۃ واصیلا (الاحزاب : ٤١‘ ٤٢) کثرت سے اللہ کا ذکر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔

مذکورہ دونوں آیات میں کوئی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ نماز اور زکوۃ کو ایک ساتھ ادا کرنا ضروری ہے اور اللہ عزوجل کا ذکر اور تسبیح (صبح وشام) ایک ساتھ کرنا ضروری ہے۔ سو اسی طرح الاحزاب کی آیت : ٥٦ میں جو حکم دیا گیا کہ ” صلوا علیہ وسلم وا تسلیما“۔ اس میں بھی یہی کہا جائے گا کہ نبی علہ الصلوۃ والسلام پر درود اور سلام دونوں پڑھو‘ لیکن یہ ضروری نہیں ہے تو شرعاً یہ ممنوع نہیں ہے۔ اگر آیت مذکورہ (الاحزاب : ٥٦) میں یہ صراحت ہوتی کہ درود اور سلام دونوں کو ایک ساتھ پڑھو تو پھر کہا جاتا کہ ان کو علیحدہ کرنا حکم قرآن کے خلاف ہے‘ لیکن آیت میں اس طرح کی نہ کوئی صراحت ہے نہ اشارت‘ لہٰذا احناف کے اصول کے مطابق صلوا اور سلموا کے حکم پر علیحدہ علیحدہ عمل کرنا جائز ہوگا۔

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ٠ ١٢٧ ھ لکھتے ہیں :
الاحزاب : ٥٦ سے یہ استدلال کرنا کہ ” صلوٰۃ اور سلام کو علیحدہ پڑھنا مکروہ ہے“ میرے نزدیک بہت ضعیف استدلال ہے۔ کیونکہ زیادہ سے زیادہ اس آیت مبارکہ سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ صلوٰۃ اور سلام دونوں کو پڑھنے کا مطلقاً حکم ہے۔ اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ دونوں کو بیک وقت پڑھنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس طرح کہ دونوں کو ای دوسرے کے ساتھ ملا کرپڑھا جائے لہٰذا جس شخص نے مثلا صبح ” صلوۃ“ پڑھی اور شام کو ” سلام“ پڑھا تو یقیناً اس نے بھی آیت مبارکہ کے حکم پر عمل کیا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ” نماز قائم کرو اور زکوۃ دو“ نیز یہ ارشاد ہے کہ ” کثرت سے اللہ کا ذکر کرو اور اس کی تسبیح بیان کرو‘ اور اس طرح کے دیگر احکامات جو ملا کر (ایک ساتھ) دیئے گئے ہیں۔ البتہ چونکہ اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ صلوٰۃ اور سلام دونوں کو ایک ساتھ پڑھا جائے اس لیے میں اس سے عدول کو اچھا نہیں سمجھتا‘ خصوصاً اس لیے بھی کہ صلاۃ کے ساتھ ساتھ سلام پڑھنے میں ان شکوک و شبہات سے سلامتی مل جاتی ہے جو بیمار ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

نیز علامہ آلوسی نے اس عبارت سے پہلے یہ بھی لکھا ہے جن لوگوں نے بغیر سلام کے فقط صلوٰۃ پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے‘ علامہ ابن حجر ہیتمی نے یہ لکھا ہے حق یہ ہے کہ اس کراہت سے مراد خلاف اولیٰ ہے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ کراہت اس وقت ہوتی ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصیت کے ساتھ کسی کام سے منع فرمایا ہو اور یہاں فقط صلوٰۃ پڑھنے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع نہیں فرمایا‘ اس لیے فقط صلوٰۃ پر اقتصار کرنا مکروہ نہیں ہوگا (بلکہ ہمارے علماء احناف میں سے علامہ انب نجیم اور علامہ شامی نے یہ تصریح کی ہے کہ کسی کام کے مکروہ تنز یہی ہونے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسم نے خصوصیت کے ساتھ اس سے منع فرمایا وہ‘ سو فقط صلوٰۃ پر اقتصار کرنا مکروہ تحریمی تو کجا مکروہ تنز یہی بھی نہیں ہے۔ سعیدی غفرلہ) اس کے بعد علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ ہمارے اصحاب میں سے علامہ حموی نے منیۃ المفتی سے نقل کیا ہے کہ صرف صلوٰۃ پڑھنا یا صرف سلام پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔ (روح المعانی‘ جزء ٢٢ ص ١١٩۔ ١٢٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت‘ ١٤١٧ ھ)

اسی بحث میں علامہ سید احمد طحطاوی متوفی ١٢٣١ ھ لکھتے ہیں :
امام طحاوی نے یہ کہا ہے کہ ایک مجلس میں جتنی بار سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ذکر کیا جائے ہر بار آپ کے نام کے ساتھ صلاۃ(درود) پڑھنا واجب ہے۔ (علامہ طحطاوی فرماتے ہیں) امام طحاوی نے حضور پر سلام پڑھنے کا ذکر نہیں کیا‘ حالانکہ آیت میں ” صلوا علیہ وسلم وا“ دونوں کا ذکر ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ” وسلم وا“ کا معنی نہیں ہے کہ آپ پر سلام پڑھو‘ بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ پر صلوٰۃ پڑھنے کے حکم کو مان لو۔ اسی وجہ سے آپ پر صرف صلوٰۃ پڑھنا مشہور مذہب کے مطابق مکروہ نہیں ہے۔ اس کے بعد آیت میں ” تسلیما“ کا جو ذکر ہے اسکی وجہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھنے کے حکم کی تاکید ہے۔ اور اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں‘ ان کے سلام پڑھنے کا ذکر نہیں ہے‘ اس سے معلوم ہوا کہ ” وسلم وا“ کا حکم اس حکم کو تسلیم کرنے کے لیے ہے۔ (حاثیتۃ الطحطاوی علی الدر المختار ج ١ ص ٢٢٧‘ مطبوعہ دارالمعرفہ‘ بیروت‘ ١٣٩٥ ھ)
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 323275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.