انسداد فواحش کا اسلامی نظام اور اہل مغرب کارونا

 فواحش ، بدکاری ، زنا اور اس کے مقدمات دنیا کی ان مہلک برائیوں میں سے جن کے مہلک اثرات صرف اشخاص وافراد ہی کو نہیں بلکہ قبائل اور خاندانوں کو اور بعض اوقات بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ دنیا کےاس موجودہ دور میں مغربی اقوام نے اپنی مذہبی حدود اور قدیم قومی روایات سب کو توڑ کر زنا کو اپنی ذات میں کوئی جرم نہیں رکھا، اور تمدن و معاشرت کو ایسے سانچے میں ڈھال دیا ہے جن میں ہر قدم پر جنسی انارکی اور فواحش کو دعوت عام ہے ، مگر ان کے ثمرات اور نتائج کو وہ بھی جرائم سے خارج نہ کرسکے ، عصمت فروشی ، زنا بالجبر، منظر عام پر فحش حرکات کو تعزیری جرم قرار دینا پڑا۔ جس کی مثال اس کے سوا کچھ نہیں کہ کوئی شخص آگ لگانے کے لئے سوختہ کا ذخیرہ جمع کرے، پھر اس پر تیل چھڑکے ، پھر اس میں آگ لگا دے اور جب آگ کے شعلے بھڑکنے لگیں توان شعلوں پر پابندی اور روکنے کی کوشش کرے۔ اس کے بر خلاف اسلام نے جن چیزوں کو جرم اور انسانیت کے لئے مضر سمجھ کو قابل سزا جرم قرار دیا ہے انکے مقدمات اور مبادیات پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ان کو ممنوع قرار دیا ہے، مثلاً اصل مقصد زنا اور بدکاری سے بچانا تھا، تو زنا کی پیش بندی کے طور پر نظریں نیچی رکھنے کے قانون سے ابتداء کی، عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو روکا ، اور عورتوں کو چار دیواری میں رہنے کی تاکید کی، اور اگر ضرورت کے وقت نکلنا پڑے تو پردے اور حجاب کے ساتھ سڑک کے ایک کنارے چلنے کی ہدایت کی خوشبو لگا کر یا بجنے والا زیور پہن کر نکلنے کی ممانعت کردی، اس کے باوجود اگر کوئی شخص ان تمام حدود وقیود اور پابندیوں کے حصار کو پھاند کر باہر نکل جائے تو اس پر ایسی عبرتناک اور عبرت آموز سزا جاری کی کہ ایک مرتبہ کسی بدکردار پر جاری کردی جائے تو پوری قوم کو مکمل سبق مل جائے۔

اہل مغرب اور ان کے مقلدین نے اپنی فحاشی اور عیاشی کے جواز میں عورتوں کے پردے کو عورتوں کی صحت اور اقتصادی اور معاشی حیثیت سے معاشرہ کے لئے مضر ثابت کرنے اور بے پردہ رہنے کے فوائد پر بحثیں اور سیمینار کئے ہیں، اس کا جواب بہت سے علماء عصر نے بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اس کے متعلق یہاں اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ فائدہ اور نفع سے تو کوئی جرم اور گناہ بھی خالی نہیں، چوری، ڈاکہ، دھوکہ، فریب ایک اعتبار سے بڑا نفع بخش کاروبار ہے، مگر جب اس کے ثمرات ونتائج میں پیدا ہونے والی مضرتیں سامنے آتی ہیں تو کوئی شخص ان کو نفع بخش کاروبار کہنے کی جرأت نہیں کرتا بے پردگی میں اگر کچھ معاشی فوائد ہوں بھی مگر جب پورے ملک اور قوم کو ہزاروں فتنہ و فساد میں مبتلا کردے تو پھر اس کو نافع کہنا کسی دانشمندکا کام نہیں ہوسکتا۔

روس کے سابق صدر میخائیل گوربہ چوف اپنی کتاب پروسٹاٹیکا میں رقمطراز ہیں : ”ہماری مغربی سوسائٹی میں عورت کو باہر نکال دیا گیا، اور اس کو باہر نکالنے کے نتیجے میں نے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد بھی حاصل کئے اور پیداوار میں کچھ اضافہ بھی ہوا، اس لئے کہ عورتیں بھی کام کررہی ہیں، اور مرد بھی کام کررہے ہیں ، لیکن پیداوار میں اضافہ کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا خانہ داری یعنی فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور فیملی سسٹم تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصان اٹھانا پڑا ہے، وہ نقصان ان فوائد کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے جو پیداوار کے اضافہ کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوا ہے، لہٰذا میں اپنے ملک میں پروسٹاٹیکا کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں، اس سے میرا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے اس کو گھر میں واپس کیسے لایا جائے ، اور اس کے طریقے سوچے جائیں، ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوا ہے اسی طرح ہماری قوم بھی تباہ ہوجائے گی۔

انسداد جرائم کے لئے انسداد ذرائع کا زرّین اصول : سابقہ شریعتوں میں اسباب و ذرائع کو مطلقاً حرام نہیں قرار دیا گیا تھا جب تک کہ ان کے ذریعہ کوئی جرم واقع نہ ہوجائے ، شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ قیامت تک رہنے والی شریعت ہے اس لئے جرائم و معاصی کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اسباب و ذرائع کو بھی حرام قرار دیدیا گیا جو عادت غالبہ کے طور پر ان جرائم تک پہنچانے والے ہیں، مثلاً شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا تو شراب کے بنانے ، بیچنے ، خریدنے، اور کسی کودینے اور اس کی تیاری میں کسی بھی قسم کی براہ راست مدد کو بھی حرام قرار دیدیا گیا، اسی طرح سود کو حرام قرار دینا تھا تو سود سے ملتے جلتے معاملات کو بھی ناجائز قرار دیدیا گیا، شرک اور بت پت پرستی کو قرآن نے ظلم عظیم اور نا قابل معافی جرم قرار دیا ، تو اس کے اسباب وذرائع پر بھی سخت پابندی لگادی، آفتاب کے طلوع ، غروب اور وسط میں ہونے کے اوقات میں چونکہ مشرکین آفتاب کی پرستش کرتے تھے، اگر اب اوقات میں نماز پڑھی جاتی تو آفتاب پرستوں کے ساتھ ایک طرح کی مشابہت ہوجاتی ، پھر یہ مشابہت شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بن سکتی تھی، اس لئے شریعت نے ان اوقات میں نماز اور سجدہ کو بھی حرام و ناجائز کردیا ، اسی طرح بتوں کے مجسمے اور تصویریں چونکہ بت پرستی کا قریبی ذریعہ تھیں اس لئے بت تراشی اور تصویر سازی کو حرام قرار دے دیا۔

تنبیہ : شریعت اسلام نے جن کاموں کو گناہ کا سبب قریب درجۂ اول قرار دے کر حرام کردیا، اس کے حکم حرمت کے بعد وہ سب کیلئے مطلقاً حرام ہے خواہ ابتلاء گناہ کا سبب بنے یا نہ بنے ، اب وہ خود ایک شرعی حکم ہے جس کی مخالفت حرام ہے۔

 

syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 323292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.