پینے کا پانی ہمیں خانہ جنگی کی طرف لے جا رہا ہے

پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے لگ بھگ 69 سال ہو چکے ۔ کہتے ہیں کہ 12 سالوں بعد تو روڑی کے بھاگ بھی جاگ جاتے ہیں مگر شومئی قست کہ ایسانہ ہوسکا اور پاکستان کے 20 کروڑ عوام گوناں گوں مسائل کا شکار ہیں۔ ہماراملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر ہم آج تک آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور بیرونی ممالک کے قرضوں کی بیساکھیوں پر چل رہے ہیں ۔ ہمارے ملک کی 65فیصد آبادی جو دیہاتوں میں بستی ہے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ نہ پینے کیلئے صاف پانی میسر ہے نہ بجلی ہے اور نہ ہی گیس ہے اور ذندگی کی ان تمام بنیادی سہولوتوں سے محروم ہے جو انسانی ذندگی کیلئے انتہائی اہم اور ضروری ہوتی ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں امیر امیر تر بنتا جا رہا ہے جبکہ غریب غیرب تر ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے 15-20 برسوں سے پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اس دہشت گردی سے تقریباً 50 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ دنیا کی کسی بھی کونے میں کوئی نا گہانی واقعہ سر زد ہو جائے اسکے تانے بانے پاکستان سے ملائے جاتے ہیں۔ تقریباً ہر قسم کے مسائل جن میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، پینے کا صاف پانی، ڈوبتی ہوئی معیشت، تعلیمی فقدان، ہسپتالوں کی کمیابی، روز مرہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری ، کرپشن اور سیاسی نا ہمواری، بیرونی مداخلت،بڑھتی ہوئی آبادی اوردہشت گردی ایسے مسائل ہیں جنکی طرف کسی بھی حکومت نے توجہ نہیں دی اور آج یہ مسائل ایک بہت بڑی افریت کی شکل میں ہمارے لئے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود ہمارے مسائل حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے اور ہر آنے والی حکومت جانے والوں پر بہتان تراشی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور خزانے کے خالی ہونے کا راگ الاپتی ہے۔ جہاں پاکستان کو موجودہ دور میں انتہائی بڑے بڑے مسائل سے نبٹنا ہے وہیں ہم پاکستان کے ایک اہم مسلئے کی طرف اپنی عوام اور حکمرانوں کی توجہ مبذول کروانا چاہیں گے اور وہ گھمبیر مسئلہ پینے کا صاف پانی ہے جسے ہم دہشت گردی سے بھی ذیادہ شدید اور اہم سمجھتے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہمارے لئے ایک ایسا مسئلہ ہے جسے کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا آنے والی دیہائیوں میں پاکستان کا ایک عام آدمی ہاتھوں میں بالٹیاں اور کین اٹھائے ہوئے نظر آرہا ہے اور ایسے میں پاکستان خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑاہا نظر آتا ہے کیونکہ پانی ایک ایسی نعمت اور انسانی جسم کیلئے اتنا ضروری اور اہم ہے کہ اسکے بغیر انسانی زندگی کے وجود کو قائم رکھنا نہ صرف محال بلکہ نا ممکن بھی ہے۔ آبادی کے روز بروز بڑھنے سے جہاں پانی کا استعمال حد سے ذیادہ بڑھ گیا ہے وہیں پانی کی سطح کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اور یہ ہمارے لئے ایک چونکا دینے والی بات ہے۔ پاکستان میں 65 فیصد لوگ ایسے ہیں جو پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور ہر سال ہز اروں لوگ ا سہال ، قے ، ہیپاٹاٹیس اور دوسری متعدی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ پینے کا صاف پانی انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے اسے استعمال کرنے میں قاصر ہیں ۔پانی کی ایک ڈیڑھ لیٹر والی بوتل کی قیمت اس وقت تقریباً 35روپے ہے اور ایک غریب آدمی اسے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ہمارے ملک میں پائی جانے والی کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو انسانوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں اور وہ لوگ جسمانی اور دماغی طور پر اپاہج ہو ررہے ہیں۔بین الاقوامی تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہمارے یہاں پانچ سال اور اس سے کم عمر کے 1000میں سے 105 بچے صاف پانی کی کمیابی سے مر جاتے ہیں۔ پاکستان میں ذیادہ تر لوگوں کی آبادی زیر زمین پانی پیتی ہے۔ یہ پانی دیہاتی علاقوں میں نلکوں، کنوؤں اور ٹیوب ویل کے ذریعے نکال کر پیا جاتا ہے۔ پنجاب ایک ایسا صوبہ ہے جہاں پر شہروں اور دیہاتوں کے لوگ نلکوں اور ٹیوب ویل یا پھر تالابوں میں پانی اکٹھا کرکے پیتے ہیں۔ اسکے علاوہ جو پانی نہروں اور ندی نالوں سے اکٹھا کیا جاتا ہے و ہ پانی پینے کے قابل بنانے کیلئے ابال لیا جاتا ہے۔ مگر دیہاتوں کے وہ لوگ جہاں پر اب بھی تعلیم کا فقدان ہے وہاں پر اس پانی کو ڈائریکٹ ہی پییا جاتا ہے جس سے یہ لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر پانی کی کمیابی کا شدید خطرہ لاحق ہے اور اس صورت حال سے نبٹنے کیلئے پاکستان کوجلد از جلد ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے پینے کے صاف پانی کا مسئلہ حل ہو سکے ۔ پاکستان میں پانی کے معاملے پر بویا جانے والا یہ بیج جہاں ہمارے حکمرانوں کی بے توجہی کا شکار ہوا ہے وہیں ہمارے وہ ادارے بھی برابر کے شریک ہیں جنہوں نے اس مسئلہ کیلئے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی۔ پانی کی تقسیم کا معاملہ جہاں ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے وہیں پانی کے اس مسلئے کیلئے جہاں حکومت اس موضوع پر کوئی لائحہ عمل اختیار کرتی ہے وہیں اداروں اور عوام الناس کو بھی ان مسائل پر اکٹھا ہو کر کام کرنا ہوگا اور ایسی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی جس سے پانی کا زراعتی اور صنعتی استعمال کے علاوہ پینے کے پانی کیلئے ایسے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہونگے جو آنے والے ماہ و سال میں کارگر ثابت ہو سکیں۔اب ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صدیوں سے پانی کے استعمال میں ذیادتی اور پانی کا ضیاع ہمارے لئے ایک خطرے کی گھنٹی بنتا جا رہا ہے اور اب ہمیں اپنی اس روش کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہو گی جس سے ہم پانی کو بچا کر اسکا اچھی طرح اہتمام کر سکیں اور ہماری آنے والی نسلیں پانی کی اس بحرانی کیفیت سے دو چار نہ ہوں۔اب ہمیں بحیثیت ایک قوم کے پانی کے اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ہر چیز کو حکومت کے کھاتے میں نہیں ڈالنا ہوگا کیونکہ یہ ہمارا اجتماعی مسئلہ ہے اور ہمیں ہی اسے حل کیطرف لیجانا ہے۔ اپنے گھر سے لیکر حکومت کے ایوانوں تک ہم سب اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ پانی کو ضائع نہ کریں کہ یہ ہماری زندگی کیلئے ایک اہم عنصر ہے اور اسکے بغیر ذندگی ایک خواب کی مانند ہے۔

پانی قدرت کا وہ انمول تحفہ ہے جو ہماری زندگیوں کی بقا ء کیلئے ضروری ہے اور اس پر کسی قسم کی کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی اور یہ ہماری ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھپاکستا مین رہنے والے انسانوں کیلئے نا گزیر ہے۔ ہماری موجودہ حکومت نے تا حال اس گھمبیر مسئلے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے اور میٹرو بس، اورنج بس یا پھر بائی پاس اور اور ہیڈ برج بنانے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس عوام الناس کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہے اور نہ وہ موجودہ حکومت عوام کے ان مسائل کی طرف اپنی توجہ مائل کرنا چاہتی ہے جس سے عوام الناس کو بیماریوں اور موت سے بچایا جا سکے۔ ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ وہ عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات اٹھائے جس سے عام عوام ، محنت کش اور غریبوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہو سکے ورنہ آنے والی دیہائیوں میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں پانی حاصل کرنے کیلئے خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

Anis Bukhari
About the Author: Anis Bukhari Read More Articles by Anis Bukhari: 136 Articles with 140331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.