حقیقی پاکستانیت کیا ہے ؟

 شاعر مشرق علامہ محمد اقبال
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمیعت کا ہے ملک و نسب انحصار
قوت مذہب سے مستحکم جمیعت تیری
آج پاکستان میں جتنے بھی مسائل پیدا ہو چکے ہیں یہ تمام نظریہ پاکستان سے دوری کی بنیاد پرہیں پاکستان کیلئے نظریہ پاکستان اس سے زیادہ ضروری ہے جتنا مچھلی کیلئے پانی ضروری ہے ظاہرہے جب مچھلی کو پانی نہیں ملے گا تو وہ تڑپتی رہے گی بالاآخر اپنی جان دیدے گی آج کی مادہ پرست سوچ ،لبرل نظریات ،نام نہاد روشن خیالی اور غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے دن بدن پاکستان اورنظریہ پاکستان کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے پاکستان کے استحکام کیلئے اور حقیقی پاکستانیت کو واضع سمجھنے کیلئے پاکستان کا اپنے نظریئے کے ساتھ ملن از حد ضروری ہے اس مقصد عظیم کیلئے نظریہ پاکستان کو درست ماننا پاکستان اور اس کے نظریہ کی یکجائی کا اہتمام ضروری ہے لیکن افسوس کہ اگر موجودہ پاکستان کے خدو خال کو دیکھا جائے تو پاکستان کے روپ میں اس کا نظریہ کم نظر آتا ہے پاکستان کے پیش منظر میں سب سے پہلے نظر آنے والے اس کے حکمران ہیں جب پاکستان کے حکمران امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے اشارہ آبرو کے منتظر ہوں اور ان کی خواہشات کی تکمیل کیلئے سر گرداں نظر آئیں تو پاکستان کی اپنے نظریئے سے رفاقت کیسے رہے گی ۔

جب پاکستان کی نہایت ہی مقدس پارلیمان کا کردار پارلیمنٹ لاجز کی لاج نہ رکھ سکے اور وہاں سرعام شرا ب و شباب کا دھندہ کیا جاتا ہو تو پاکستان کے گلی کوچوں کے تقدس کی لاج کون رکھے گا جہاں کرپشن ہی کرپشن ،فراد ہی فراڈ ،سکینڈل ہی سکینڈل ہوں جہاں آزانوں کی آوازیں دبا دی جائیں اور گانوں کی آوازیں بڑھا دیں جائیں عریانی و فحاشی حیا سوز پروگراموں کی حوصلہ افزائی ہو اسلامی اور روحانی اقدار کوفروغ دینے والوں سے لڑائی ہو جہاں’’ سرعام جھوٹ کا دھندہ ہو اور سچائی کا مندہ ہو‘‘ ،’’جہاں سیاست ملک و قوم کی خدمت کی بجائے کارو بار بن جائے اقتدار بیو پار بن جائے ‘‘’’جہاں راہزن رہبری کے بھیس میں ہوں ‘‘اور ’’ قومی نمائندگان خود ہی بڑ ے سے بڑے کیس میں ہوں‘‘’’ جہاں نجات دھندے ہی نادھندے ہوں ‘‘وہاں پاکستانیت کا دفاع کیسے ہو گا ۔جس دیس کے مخصوص مفتیوں کا قوم کے اربوں ہضم کرنے کا ’’مضاربہ سکینڈل ــ‘‘ زبان زد خلق ہو اس دیس کے باسیوں کی اداسیاں کیسے دور ہوں گی ؟جس پاکستان کے قیام کے وقت ملت از وطن است کہہ کر مخالفت کرنے والے اکھنڈ بھارت مزاج کو مراعات سے یوں نوازا جائے کہ وہ اکڑ کر آئین پاکستان کی ایک شق بھی اسلام کے مطابق تسلیم نہ کرے اور پھر مذاکرات کے نام پر اس کی ناز برادری کی جائے وہاں نظریہ پاکستان کا پرسان حال کیسا ہو گا جب لوگ اپنے ماضی کو بھول کر محض نظریہ ضرورت کے تحت نظریہ پاکستان ریلیاں منعقد کرنے لگیں تو قوم میں نظریاتی پختگی اور وطن سے غیر مشروط وابستگی کسے آئے گی آیئے اپنے نظریئے سے بچھڑے ہوئے پاکستان کو اس کے نظریے کے ساتھ یکجا رکھنے کیلئے پاکستان کا ساتھ دیں اسے بے گناہ مسلمانوں کا خون کرنے والے امریکی ڈرون سے بھی بچائیں اور اسے شریعت کے نام پر مارے جانے شب خون سے بھی بچائیں 20 لاکھ شہیدوں کے خون سے بننے والی اس مسجد کو نام و نہاد روشن خیالی کا مندر بننے سے بھی بچائیں اور اسے بندوق و بارو کا مورچہ بننے سے بھی بچائیں ۔

اسے لسانی اور علاقائی تعصبات اور سامراج کی پیدا کردہ مشکلات سے بھی بچائیں اسے انگریز کے وفادار موروثی سیاستدانوں اور کانگریسی سوچ رکھنے والے مذہبی پنڈتوں سے بھی بچائیں اسے بیورو کریسی کی میلی نگاہوں اور ڈپلومیسی کی پھرتیلی اور شوخ اداؤں سے بھی بچائیں یہی پاکستانیت ہے

دفاع پاکستان ہم پر فرض ہی نہیں قرض بھی ہے تحریک آزادی کے بیس لاکھ شہیدوں جن میں مجاہدین ،غازی ،بزرگ ،جوان ،مائیں بہنیں ،بیٹیاں اور بچے بھی شامل ہیں کی جدو جہد کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں صفحہ ہستی پر نقش ہوا 14 اگست یوم پاکستان کی تقریبات کا انعقاد کرتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے پیارے پاکستان کے وجود میں پاکستانیت کی روح کی دیکھ بھال ضروری ہے اس کے بغیر دفاع وطن کا فریضہ سر انجام نہیں دیا جاسکتا آج غیروں کے فکری فیڈرز پر جوان ہونے والی نسل کو اور غیروں کے سانچے میں ڈھلے نصاب تعلیم پڑھنے والوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ آزادی کی منزل کا راستہ کتنی شہادت گاہوں سے گزر کر آتا ہے آج یوم آزادی کو بھنگڑے ڈال کر باجے بجا کر میوزیکل شو سجا کر گزارنے والی قوم کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مادر وطن کیلئے ’’کتنے بدن کٹے اور کتنے کفن سجے ‘‘ آزادی آزادی کا راگ اُلاپنے والوں کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ کس کس کی غلامی کے شکنجے سے رہائی کیلئے کن کن راہوں سے تین صدیوں کی آبلہ پائی کے بعد صبح آزادی میسر آئی کہ وہ اکھنڈ بھارت ،مغربی افکار اور لبرل سوچ کی گلیوں کے دلفریب نظاروں میں مست ہو کر کہیں پھر غلامی کے پھندوں تک نہ جاپہنچیں آج اہل پاکستان کو اسی پاکستانیت کا نصاب پڑھانا ضروری ہے ۔

mehar sultan mehmood
About the Author: mehar sultan mehmood Read More Articles by mehar sultan mehmood: 9 Articles with 6443 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.