جنرل پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی……؟؟؟

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ملک سے جانا تھا سو وہ چلا گیا …… نواز حکومت اپنی تمام تر خواہشات کے باوجود اس کے ملک چھوڑنے کے آگے بند نہ باندھ سکی۔ نواز حکومت نے اس کے باوجود سابق آمر کوملک چھوڑنے کی اجازت مرحمت فرمادی گئی کہ اسکے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اس کے علاوہ اس پر عبدالررشید غازی کے قتل کا مقدمہ بھی چل رہا ہے……

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت آغاز میں مشرف کو قانون اور انساف کے کٹہرے میں لانے کی آرزو مند تھی لیکن آہستہ آہستہ حکومت کے ذمہ داران نے محسوس کرلیا کہ مشرف کو غداری سمیت کسی بھی مقدمہ میں سزا دلانا اتنا آسان نہیں ہے جتنا وہ خیال کرتے ہیں۔پھر رفتہ رفتہ مشرف حکومت کے گلے کی ہڈی بنتا گیا…… مشرف کے سابق رفقائے کار کسی قیمت پر بھی اپنے ’’بگ باس‘‘ مشرف کو عدالت سے مجرم کی سند عطا ہونے کو تیار نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ پہلی پیشی پر مشرف کو عدالت کی بجائے ملٹری کے ہسپتال پہنچا دیا گیا…… ایان علی کو محض اس لیے بیرون ملک نہیں جانے دیا جا رہا کہ اسکے خلاف عدلت میں منی لانڈرنگ کا کیس زیر سماعت ہے……جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اس لیے روانہ ہونے دیا گیا کہ اسکے حلقہ انتخاب بہت بڑا طاقتور ہے۔ اور ایان علی کو سابق صدر زرداری سے نتھی کر دیا گیا ہے۔

بعض لوگ میڈیا پر جنرل پرویزمشرف کی روانگی اور حکومت کے طرز عمل کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں عدالت کے احکامات کی روشنی میں جانے دیا گیا،احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اسے روکنے کی کوشش کرتی تو حکومت کو ظالم قرار دیا جاتا۔ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے نئی منطق بیان کی کہ پرویز مشرف ایک پریشانی تھے اچھا ہوا چلے گئے۔وفاقی وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں کا موقف کافی دلچسپ بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی…… انکا کہنا ہے کہ’’ حکومت نے انہیں بیرون ملک اس یقین دہانی پر جانے کی اجازت دی ہے کہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک واپس ضرور آئیں گے‘‘ مضحکہ خیز اس لیے کہا ہے کہ کیا چودہری نچار علی خاں پاکستان بھر کی جیلوں مین قید عام قیدیوں کو بھی ایسی ہی یقین دہانی یا وعدے پر بیرون ملک جانے یا علاج کروانے کی غرض سے بھیجنا پسند کریں گے؟میرا چودہری نچار علی کان سے سوال ہے کہ بے چاری ایان علی کا کیا قصور ہے اسے بھی ملک سے باہر جانے دیں وہ بھی آپکو یقین دلاتی ہے کہ وہ بھی وطن واپس آ جائے گی۔

ہمارے میڈیا کی ہرتان کراچی پر آکر ٹوٹتی ہے اور اسکا نزلہ سندھ حکومت پر گرتا ہے۔ جبکہ کراچی جیسے مسائل ملک کے ہر شہری کو درپیش ہیں۔لاہور کے اندر اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں گلی محلوں کے گٹر،نالیاں روازنہ بند رہتی ہیں اور نمازی حضرات سمیت یہاں سے گزرنیوالوں کے لباس کو ناپاک بناتے،سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کے گرد غبار نے لوگوں کو مریض بنا کے رکھدیا ہوا ہے۔مجال ہے کسی چینل کو کہ وہ یہ مناظر دکھائے کیونکہ پنجاب حکومت کی ناراضگی اس چینل اور اسکے اخبار کو کروڑوں کے اشتہارات سے محروم کرنے کا باعث بن سکتا ہے جو اسکا ادارہ برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔سچا کہا میرے والد محترم نے کہ ’’گل گئے گلشن گئے گلگتورے رہ گئے، بندے بندے چلے گئے الو کے پٹھے رہ گئے‘‘ اب اس دھرتی پر پیام جہان پوری، چراغ حسن حسرت، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفرعلی خان، مجید نظامی، حمید نظامی، جناب نثار عثمانی، منہاج برنا، ایچ ایم راشد میں سے کسی نے نہیں پیدا ہونا جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات پوری کرنے، اپنی زندگی کو آسائشوں سے لبریز کرنے کی بجائے ملک اور قوم کے مفادات کو مقدم جانا اور اس ملک اور اسکے آئین سے کھلواڑ کرنے والے ٓامروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوائی دیوار بن گئے۔لیکن آج کے جرآت و بے باکی کا راگ الاپنے والے صحافی ،صحافتی اقدار، ملکی وقار کو اپنے ذاتی مفادات پر قربان کردیتے ہیں۔ جو اخباری اور نجی ٹی وی چینلز اپنے اداروں کے لیے نامہ نگار مقرر کرنے کے لیے ہزاروں ، لاکھوں روپے وصول کریں اور انہیں خدمات کے عوض کسی قسم کا معاوضہ بھی ادا نہ کیا جائے تو ان اداروں سے وابستہ ہونے والے صحافی کہا ں سے اپنے گھریلو اخراجات برداشت کریں گے؟ یہی کرپشن ہے اور اسکو پروان چڑھانے والے یہ ادارے اور انکے مالکان ہیں۔ ایسے ادارے اور انکے مالکان بھلا ملک کے مفاد اور صحافتی اقدار کی ترویج کیا سوچیں گے۔نیب کو دیگر افراد اور اداروں کی کرپشن کی انکوائریوں کے ساتھ ساتھ اخباری ادروں اور نجی ٹی وی چینلز کی کرپشن کی انکوائری کرنی چاہیے کیونکہ یہ کوئی مقدس گائے نہیں ۔

خیر یہ باتیں تو ایسے ہی بیچ میں آ گئیں اصل موضوع تو سابق آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے بیرون ملک چلے جانا ہے، حکومت اور اسکے وزرا اب میڈیا کے سامنے جو چاہئیں کہتے پھریں لیکن اندرون خانہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مشرف انکے لیے درد سر بنا ہوا تھا۔ اسکی وجہ سے جمہوری حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ اب مشرف کے بیرون ملک جانے سے حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ملٹری اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کے آگے حکومت زیادہ دیر مزاخمت نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی اس سے زیادہ ٹھہر نا اس کے اپنے مفاد میں تھا ۔سو مشرف نے باہر جانا تھا لہذا وہ چلا گیا، اب ایک طویل عرسہ تک وہ وطن کی مٹی کی خوشبو کو سونگنے کو ترسے گا، اسکا حکومت سے وطن واپس آنے کا وعدہ ایسے ہی ہے جیسے زرداری ،بے نظیر بھٹو اور خود میاں نواز شریف جدہ روانگی کے وقت پاکستانی قوم سے کر کے گئے تھے کہ وہ بہت جلد وطن واپس آئیں گے لیکن وہ پورے دس سال نہیں تو کم از کم سات آٹھ سال بعد واپس تشریف لائے۔ اب مشرف بھی کم و بیش اتنا ہی عرصہ دیار غیر میں بسر کرنے پر مجبور ہونگے۔ جن کو میری باتوں پر اعتبار نہ ہو وہ بے شک کسی کاغذ پر لکھ کے رکھ لیں وقت آنے پر میری باتوں کی سچائی خود ثابت ہوجائے گی۔ہاں ایک بات ہمارے سیاستدانوں کو اپنے پلے باندھ کے رکھنی ہوگی کہ فوجی جوان اور افسر اپنے ادارے سے وابستہ افراد یعنی سابق اور حاضر فوجیوں کی عزت و اابرو کا بھرپور خیال رکھتے ہیں اور اسکی حفاظت بھی کرتے ہیں……لیکن یہ سیاستدان ہی ہیں جو خود اپنی ہم پیشہ کو نہ صرف بدنام کرتے ہیں بلکہ انہیں پھانسی گھاٹ تک پہنچانے میں سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے معاون و مددگار بنتے ہیں۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.