راستے دو ہی ہیں

 تخلیق کائنات سے ہی انسان کے سامنے دو راستے رکھ دئیے گئے تھے، ایک راستہ وہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا کی عارضی زندگی عیش و عشرت سے بسر کرسکتا ہے۔ مزے کی زندگی جینے اور دنیا کی تمام آفات و بلیات ،مصیبت اور تکلیف سے بے خبر مزے لوٹ لے۔اور یہ راستہ جھوٹ کا راستہ ہے،دوسرا راستہ سچ کا راستہ ہے اس کو اختیار کرکے سارے جہاں کو اپنا دشمن بنا لیا جائے۔ اور سچ کی صراط مستقیم پر چلتے ہوئے اسکی قیمت بھی چکائے…… ان دو راستوں کے سوا تیسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ہابیل اور قابیل کی باہمی رنجش ہو، فرعون اور موسی کا ٹکراؤ ہے، عیسی اور اس کے مخالفین کی بحث و تکرار کا معاملہ ہو ، ابراہیم علیہ السلام اور نمرود مردود کی لڑائی ہویا سرداران قریش کی خاتم النبین یا پھر کربلا کے میدان میں امام حسین اور یزید پلید کے درمیان ہونے والے حق و باطل کا معرکہ ہو سب انہیں دو راستوں پر چلنے کا سلسلہ ہے۔ موسی علیہ السلام، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام،پیغمبر اعظم ﷺ اور امام حسین علیہ السلام سب سچ کے راستے کے راہی تھے اور ان کے مقابلے کے لیے میدان میں آنے اور انہیں للکارنے والے جھوٹ کے پیروکار اور مبلغ تھے۔

آج کے حالات میں بھی انہی دو راستوں پر چلنے والوں کے مابین لڑائی جھگڑے ہیں۔ گاندھی ،جواہر لعل نہرو ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک سب جھوٹ کے پیروکار، حرص و ہوس کے پوجاری اور اقتدار کے ذریعے اپنی ذاتی نمود نمائش کے خواہاں تھے جب کے قائد اعظم سے لیکر قائد ایشیا ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹواور نواز شریف تک سب سچ اور حق کے راستے کو اختیار کرنے والے تھے۔میرے مرشد سینئیر کالم نگار ،صحافی اور تجزیہ نگار حیدر جاوید سید کے بقول ’’ دو ہی راستے ہیں……ایک جھوٹ سے سمجھوتہ کرلواور مزے کرو اور دوسرا راستہ……سچ بولو اور پھر اسکی قیمت چکاؤ‘‘

آج ضمیر پیدار ہونے کے بہت قصے کہانیاں میڈیا کی بریکنگ نیوز بن رہی ہیں اور پرنٹ میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع بھی ہو رہی ہیں۔ جن مردہ ضمیروں کے ضمیر جاگ اٹھے ہیں ماضی کے بہت بیانک واقعات ان سے بھی منسلک رہے ہیں، اور آج وہ محض اپنے سابق قائد پر الزام تراشی کرکے اپنے لیے نیٹ اینڈ کلین ہونے کی چٹ حاصل کر رہے ہیں۔ اس سارے کھیل کی فنڈنگ کون کر رہا ہے اور کہاں سے ہو رہی ہے ، نئے نئے باضمیر ہونے والوں کے حوالے سے ’’جناب انور سن رائے‘‘ نے درست موقف اختیار کیا ہے ان کا کہنا یا سوال یہ ہے کہاگر مصطفی کمال کے ساتھ آنے اور آتے جانے والوں نے کبھی کوئی جرم نہیں کیا توپھر ایم کیو ایم میں مجرم کون ہے؟ اگر کل ایم کیو ایم کے تمام رہنما مصطفی کمال کے ہمراہ چلے جائیں گے اور انہیں کلین چٹ ملتی جائے گی توایم کیو ایم کے خلاف کیے جانے والے تمام آپریشنو ں اور ان میں مارے جانے والوں اور مارنے والوں کی قانونی حثیت کیا ہوگی؟ ملک کی مجموعی سیاست اوروقت کے تناظر میں کمال کے اس کھیل کی اصل ضرورتاور اہمیت کیا ہو سکتی ہے اور اس سے کسے فائدہ حاصل ہوگا؟ شائد اسی لیے مرشد حیدر جاوید سید یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ جاہل صرف وہ نہیں ہوتا جو تعلیم یافتہ نہ ہو، جاہل وہ بھی ہوتا ہے جس سے ڈگریوں کے ڈھیر لگا رکھے ہوں ، مگر اپنے ظرف میں وسعت،لہجے میں نرمی ، اور طبیعت میں انکساری نا پیدا کرپایا ہو ‘‘ان جاہلوں کی صورت ناپید نہیں ہے اور نہ ہی دیکھنا آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہے۔ بقول انور سن رائے’’ باکمال ڈیفنس پارٹی کی فنڈنگ س کون کرہا ہے ؟برطانیہ میں منی لاندرنگ کا مطلب کیا ہے ؟ الطاف حسین پر لگنے والے منی لانڈرنگ کے الزام میں شریک ملزم سرفراز مرچینٹ سارا الزام کس لگارہے ہیں؟ روشن ضمیروں کے لیے ان سولات میں بہت کچھ پوشیدہ ہے اور مردہ ضمیروں کے نزدیک محض چند الفاظ کے سوا کچھ نہیں۔

ویسے تو ہمارے تمام پرجوش اینکرس پرسن ہر چسکیدار موضوع پر ٹاک شو کرتے ہیں گھنٹوں عوام کا وقت برباد کرتے ہیں لیکن ملکی سلامتی کے حوالے سے حساس نوعیت کے اہم موضوعات کو ہنسہی مذاق میں اڑا دیتے ہیں ……کراچی کے سابق ناظم جو برسوں پہلے خاموشی سے بیرون ملک جا بسے تھے واپسی پر انکا اور انکے قافلے میں شامل ہونے والوں کے ضمیر نیند غفلت سے بیدار ہونے لگے ہیں اور سید مصطفی کمال کا دعوی ہے کہ ان کے قافلے میں شامل ہونے کے لیے ایم کیو ایم کے اندر کھلبملی مچی ہوئی ہے سنجیدہ حلقوں اور سنجیدگی کے حامل دانشوروں کی جانب سے کراچی کی سیاست میں طوفان برپا کرنے کے دعویدار مصطفی کمال ،انیس قائم خانی ،ڈاکٹر صغیر احمد اور دیگر کے ضمیر بیدار کہانی کے ھوالے سے سوال اٹھا یا جا رہا ہیکہ کراچی کی سیاست میں کمال دکھانے کے دعویدار کمال اینڈ کمپنی کو کلین اینڈ نیٹ کی چٹیں دینے والوں کو یونہی کلین چٹیں تھمائی جاتی رہیں اور ساری ایم کیو ایم کمال پارٹی میں چریک ہوگئی تو پھر کراچی میں جرائم کی سیاست کا الزام کس کے سر دھرا جائے گا؟سوال بڑا اہم ہے لیکن ہمارا میڈیا خاموش ہے اسے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چائیں اور سیاستدانوں سے مذاکرے کرکے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ اپنی تحقیقاتی رپورٹس کے ذریعے قوم کو اصل تصویر دکھائے ورنہ غیر ذمہ دار صحافت کا الزام اس کے اوپر بھی فکس ہوجائے گا۔مرشد حیدر جاوید سید اور محترم انور سن رائے نے بڑی جرآت و بے باکی اور ہمت دکھائی ہے تاریخ انہیں اس حوالے سے خصوصی ٹربیوٹ پیش کرے گی۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144425 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.