مفرور باغی(حکایت)

 انسان کے عجیب ہونے سے کسے انکار ہے۔بلکہ اس کا توتمام تخلیق میں سے عجیب ترین ہونا بھی آسانی سے سمجھ آنے والی حقیقت ہے۔ انسان ابھی تک اپنا سراغ نہیں پا سکا کہ اسے قدرت نے کن کن صلاحیتوں اور ماہیتوں کے ساتھ اس جہانِ رنگ و بو میں پیدا فرمایا ہے۔وہ قدرت کے احسانات کا ممنون ہونے کی بجائے اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ اور جس قدرت میں اس کی بقا پنہاں ہے اسی کی جڑکاٹنے لگتا ہے۔موجودہ دور میں انسان کا روپ فطرت کُش کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جو کہ اس کے سب گناہوں اور جرائم میں سے زیادہ مکروہ اور قابلِ تعزیر ہے۔ اسے کون سمجھائے کہ وہ کیا کر رہا ہے ۔ وہ مانتا کس کی ہے۔اس کا سب سے بڑا بھگوان وہ خود ہے جو بات اسے اچھی لگی مان لی اور جو نا پسند ہوئی چھوڑ دی۔ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب کے ساتھ ایک جیسے انسانی رویوں سے ہی پیش آتے ہیں۔

مدت ہوئی نوشیرواں نے اپنی ایک ریاست اپنے ایک عزیز دوست کے حوالے کر دی اور اس سے وہ ریاست، اپنے طے کردہ، اصول و ضوابط کے مطابق چلانے کا پیمان لیا۔وہ دوست با وفا تھا، اسی لئے تو اس پر اعتمادکیا گیا ۔ لیکن یہ بھی اسی دنیا کی تاریک حقیقت ہے کہ وفا کے گھر میں ہی بے وفائی جنم لیتی ہے۔ انسان کی سرشت میں خود پسندی ہے جو حالات و واقعات کے تناظر میں مختلف رویئے اپناتی ،اور حسبِ موقع ، اپنا آپ دکھاتی ہے۔ اس وفاداراور با اعتماد دوست نے بھی ایسے ہی اپنی مکمل اطاعت و اتباع کا نوشیرواں کو یقین دلایا اور ایک ریاست کی بادشاہی کے احکامات واختیارات لے کر اس ریاست کی راجدھانی پر تخت نشین ہو گیا۔

بادشاہ کو کچھ عرصے تک وہ طے شدہ معاہدے کے مطابق رقوم ونذرانے بھیجتا رہا اور بادشاہ بھی باقاعدگی سے اپنے دوست کے لئے ہر موسم اور اس کی پسند کے مطابق تحائف سے نوازتارہا ۔کیوں کہ بادشاہ کو اس دوست سے محبت بھی تھی اور وہ ویسے بھی بہت فراخ دل تھا۔ وہ کسی پر مہربانی کر کے جتاتا نہیں تھا ، اس کا بس ایک ہی تقاضا تھا کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اسے بڑا بادشاہ مانا جائے ۔ اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی بھی اسے پسند نہ تھی لیکن اس کے اندر معاف کرنے کا جذبہ باقی سب جذبات سے زیادہ تھا ۔وہ معاف کرنے میں بہت تسکین اور اطمینان پاتا، ساتھ ہی وہ کسی پر ظلم و زیادتی کا بھی سختی سے نوٹس لیا کرتا اور مجرم کو ، ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے، سزا دینا بھی ضروری سمجھتا تھا۔

وقت گزرتا گیا ، ذہن بدلتے گئے ۔ خاص طوراس دوست کا ذہن بھی بدلنے لگا جس پر اس کے دوست بادشاہ نے بہت بڑا احسان کیا ہوا تھا۔یہ حقیقت تو سرِ عام آشکار ہے کہ اپنا دیجیئے، دشمن کیجیئے۔ اس دوست کا ذہن بدلتا بدلتا کافی بدل گیا ۔ اسے اپنے دوست کا احسان بہت بوجھل محسوس ہونے لگا ۔ وہ اپنی انا کے گرداب میں ڈوبتا چلا گیا اور پرلے درجے کا احسان فراموش بن گیا۔ اگرچہ وہ بہت اچھا انسان تھا لیکن حالات نے اسے جو موقع فراہم کر دیا تھا اس میں اس کی سرشت کی برائی نے سر اٹھا لیا اور وہ بجائے اس کے کہ اپنے دوست کا، زندگی بھر کے لئے، نام جپتا اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی بتاتا کہ وہ نوشیرواں کے احسان مند رہیں ، وہ خود ہی بغاوت پر اتر آیا ۔ وہ نوشیرواں کے بتائے اور اس کے ساتھ طے کیئے اصولوں پر کاربند رہنے سے منحرف ہو گیا ۔ اس نے اپنے اسول بنانے شروع کر دیئے اور آہستہ آہستہ بادشاہ سے ناطہ توڑتا اور اپنی من مانیاں کرتا چلاگیا ۔

بادشاہ کی خفیہ تنظیم ان ساری تبدیلیوں کی لمحہ بہ لمحہ خبریں بادشاہ کو پہنچاتی رہی تھی۔ لیکن چونکہ بادشاہ برداشت اور تحمل میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ اسکی ریاست ،کوئی اس سے ،چھین نہیں سکتا۔ کیوں کہ اس کو بہت بڑی فوجوں کی حمایت اور طاقت حاصل تھی،جن کے ہوتے ہوئے وہ نہ کبھی گھبراتا اور نہ جلد بازی کرتا تھا ۔اس نے ان ساری رپورٹوں کے باوجود اپنے دوست کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا کیوں کہ وہ چاہتا تھا کہ ان کی دوستی کا بھرم بنا رہے ۔وہ اپنی دوستی کے رسوا ہونے سے گریزاں تھا اور چاہتاتھا کہ اس کا دوست راہِ راست پر آجائے اور دوستی کا مقدس تعلق ایسے ہی بنا رہے۔

اس کی خفیہ رپورٹیں آہستہ آہستہ زیادہ تلخ اور شدید خبریں دینے لگیں ۔ اس کے بے فیض دوست نے اپنی دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور جلد ہی موقع غنیمت جان کر علمِ بغاوت بلند کر دیا ۔ بادشاہ کو اپنے دوست کی اس مخالفت اور نادانی کا بہت افسوس ہوا۔ اب اس دشمن دوست کو مذید وقت نہیں دیا جا سکتا تھا کیوں کہ وہ ہر حد عبور کر چکا تھا ۔ اب اسے نظر انداز کرنا بادشاہ کے بس میں نہیں رہا تھا۔ اب اس بغاوت کا سدِ باب کرنا ہی اس کا واحد رستہ تھا۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک طاقتور فوج اس باغی کی بیخ کنی اور حراست کے لئے روانہ کر دی۔

باغی نے بھی اپنے تائیں انتظامات کیئے ہوئے تھے لیکن اس کی بہت بڑی غلط فہمی تھی کہ اس نے بادشاہ کی طاقت کو حقیر جانا اور بادشاہ کے اسے مواقع فراہم کرنے کو اپنی دانشمندی گردانا۔ لیکن بادشاہ کوا س کے ہر ہر لمحے کی رپورٹیں جاتی تھیں بادشاہ کے کارندے بہت تیز اور چاک وچوبند تھے۔ لیکن ان باتوں کا اس باغی کو ادراک نہ تھا وہ اپنی عیاشی اور سر کشی میں بد مست رہنے لگا تھا۔

آخر وہی ہوا جو ایسی ریاستوں کا ہوتا ہے۔ بادشاہ کی فوج نے ایک آسان مقابلے کے بعد باغی کو حراست میں لے لیا اس نے فرار کی ممکنہ حد تک کوشش کی اور پھر اس میں ناکامی کے بعد اس نے خود کشی کا ارادہ بھی کیا لیکن بادشاہ کے سپاہی اسے آہنی زنجیروں میں کچھ اس طرح جکڑ چکے تھے کہ اب اس کا اپنے ہاتھ پاؤں پر بھی اختیار نہیں رہ گیا تھا۔

اسے زنجیروں میں جکڑا بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا ۔ لیکن بادشاہ نے اسے دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیا اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے زنداں میں عمر بھر کے لئے ڈال دیا جائے ۔ اس نے کہا کہ اگرچہ ایسے باغیوں کی سزا تو فوراً سر قلم کرنا ہوتی ہے لیکن چونکہ یہ باغی اس کا دوست رہا ہے اس لئے اس کی سزا عمر قید میں بدل دی جاتی ہے۔

وہ باغی بادشاہ کی اس اخیر وقت میں بھی مہربانی کرنے کی عادت اور حسنِ سلوک دیکھ کر نہ صرف ظاہری طور پر شرم سار ہوا بلکہ دلی طور پربھی اپنے اتنے اچھے دوست بادشاہ سے بغاوت کرنے کا شدید صدمہ ہوا۔ اس کی بے مثال اور لا تعداد مہربانیوں کا اتنا گھٹیا اور ذلت آمیز بدلہ دینے پر وہ ہمیشہ کے لئے اپنے دوست بادشاہ کے آگے شرمسار ہو چکا تھا ۔

دراصل وہ بادشاہ خدا کی واحد و احد ذات ہے اور وہ باغی حضرتِ انسان ہے، جسے خدا نہ یہ دنیا اپنی طرف سے حکومت کرنے کے لئے دی ، اور جس میں آ کروہ اپنے مالک کی مرضی کو نظر انداز کر گیا اور اپنی خود سرانہ ہوس کو اس پر نافذ کر دیا، جس کے نتیجے میں یہ دنیا انتشار اور زوال کا شکار ہو گئی۔ آخر انسان کی شکست ہے اور اسے بادشاہ کی طاقتور فوج نے ہتھکڑیاں اوربیڑیاں ڈال کے لے جانا ہے اور وہاں اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہو گا۔ انسان دنیا کی رغبت کم کرے اور اپنے اس خالقِ حقیقی کے ساتھ رشتہ مضبوط کرے جو اس کائنات کا سچا بادشاہ اور رازق وخالق ہے، جس نے اسے سب کچھ عطا فرمایا ہے اور بہت کچھ تو اس کی طلب کے بغیر ہی دیا ہوا ہے۔ انسان کی سرشتی کمزوری ہے کہ وہ بار بار بغاوت کرتا ہے لیکن کبھی تو اسے سمجھ آ جانی چاہیئے کہ اس کا بادشاہ بہت زیادہ طاقتور ہے اور وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ اسے اس کی مخالفت زیب نہیں دیتی، دوسرا یہ کہ اس کے احسانات اتنے ہیں کہ اس کی مخالفت کوئی بے وقوف اوربے فیض ہی کر سکتا ہے ، ایک احسان مند انسان اس کی بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔خدا کو انسان کے ہر ہر لمحے کا علم ہے اس کے فرشتے انسان کی تمام رپورٹیں اس کے حضور پیش کرتے ہیں اور وہ جب تک چاہے انسان کو مہلت دیتا ہے اور جب چاہے انسان کو اپنے دربار میں طلب کر سکتا ہے اسے اپنے کسی کام کے کرنے میں کوئی بھی دشواری پیش نہیں آتی۔ اس کی افواج بے شمار ہیں اور وہ سب اس کے تابع ہیں۔ انسان کی بہت بڑی بھول ہے کہ وہ خدا کی بغاوت میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ وہ خدا جس کی زمینوں اور آسمانوں پر بادشاہی ہے اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ انسان کو اپنی بغاوت پر غور کرنا چاہیئے اور جلد از جلد ، اس سے پیشتر کہ شاہی فوج اسے جکڑ کر بادشاہ کے دربار میں پیش کرے، اسے خود ہی اس سب سے عظیم اور عالی مرتبت کی بار گاہ میں حاضر ہو کر اپنے گناہوں پر نادم ہو کر معافی کا طلبگار ہو جانا چاہیئے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 287099 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More