بھنگی

حقوق کونسے حقوق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسے ہوتے ہیں ،کیا ان کی کوئی شکل و صورت ہے ؟ کیا ان کا کوئی وجود ہے ؟ کیا ان کو تم نے ،میں نے یا کسی نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ جان نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کتاب میں لکھی ہوئی باتیں ہیں ، جو تم نے پڑھی ہے ، میں نے لوگوں کو پڑھا ہے ، ان افسروں کو پڑھا ہے جو اس میونسپل کمیٹی کو چلا رہے ہیں ۔ حقوق ان کے گھر کی باندھی ہیں ،حقوق اس خیرات کی ماند ہیں جو دے دی جائے توثواب نہ دی جائے تو گناہ نہیں ۔اس لیئے یہ بڑے افسر اس خیرات کو دینا پسند نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان ہا تھ میں درخواست پکڑے میونسپل کمیٹی کے چیئر مین کے دفتر کے باہر کھڑا تھا ۔ دفتر کے سامنے بیٹھے چپڑاسی نے اسے اندر جانے کی بجائے یہ کہہ کر باہر ہی روک لیا تھا کہ چیئر مین صاحب میٹنگ میں ہیں ۔ جان دفتر کے باہر رکھے لکڑی کے ا س بینچ پر بیٹھ گیا جو عموماً ہمارے ہر دفتر کے باہر ان لوگوںکے بیٹھنے کیلئے رکھا جاتا ہے جن سے چیئر مین کی طرح کے آفیسرز ملنا نہیں چاہتے ۔ ہمارے ملک کو اس افسر شاہی نے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے ۔ بڑے بڑے دفاتر میں بیٹھے یہ آفیسرز عرف عام میں لوگوں کی مدد اور ان کی داد رسی کیلئے ہیں ،مگر یہ دفاتر میں آئے سائلین کی داد رسی کرنے کی بجائے ان کو ذلیل و خوار کرنے کا فریضہ خوب نبھا رہے ہیں اور شائد نبھاتے چلے جائیں گے ۔ ہمارے دفاتر میں یہ افسر شاہی انگریز کے ان تحائف میں سے ایک تحفہ ہے جو جاتے وقت ہمیں تھما گیا تھا ۔ ہم نے انگریز سے تو جان چھوڑا لی مگر اس کے بنائے ہوئے قانون سے آج تک آزاد نہیں ہوئے ۔ تعلیم ،پولیس ،عدلیہ ،ڈاک ،بنک ،الغرض ہر محکمہ انگریز کے دیئے ہوئے قانون کے مطابق چل رہا ہے ۔ انگریز نے جب نو آبادیاتی نظام قائم کیا تو دفاتر کے باہر چپڑاسی بٹھانے لگا تا کہ عام آدمی ان کے دفاتر میں نہ آ سکے۔عوام پہ حکمرانی کا تصور بھی انگریز ہی کی پیداوار ہے ،وگرنہ اسلام نے تو حکمرانوں کو عوام کے خادم اور اللہ کے سامنے اعمال کا جواب دہ قرار دیا ہے ۔خلفائے راشدین نے اپنے دور حکومت میں دربار بٹھانے سے منع کر رکھا تھا تا کہ براہ راست عوام کے مسائل سن کر ان کا ازالہ کیا جا سکے ۔

” صاحب کب میٹنگ سے فارغ ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟“ جان نے چپڑاسی سے دوبارہ پوچھا ۔ ” بتایا تو ہے ، چیئر مین صاحب میٹنگ میں ہیں ، اب مجھے کیا معلوم کب فارغ ہونگے ، بڑے لوگ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بینچ پر بیٹھ جاﺅ جب صاحب فارغ ہو جائیں گے تو اندر چلے جانا “ چپڑاسی کی بات سنتے ہی جان بینچ پر جا بیٹھا ۔ جان کی عمر بیس کے اوپر تھی ، پچھلے دنوں میونسپل کمیٹی کے ہال میں ہونے والے ان سنیٹری ورکز جنہیں عرف عام میں بھنگی کہا جاتا ہے کیلئے ایک تعزیتی ریفرنس ہوا تھا ۔ مون سون کا موسم آیا اپنے ساتھ بارش کا طوفان لے آیا پشین گوئی سے زیادہ بارش اپنے ساتھ ان بھنگیوں کی موت کا پروانہ بھی لے آئی جن کے ذمہ زیر زمین بچھائی جانے والی پانی کی اس پائپ لائن کی دیکھ بھال تھی جو پاپوش علاقے سے گزرتی تھی ۔ بارش ہوئی پائپ لائن اندر سے بند ہو گئی ،پاپوش علاقوں کو نقصان کے خدشے کے پیش نظر پائپ لائن کو کھولنا ضروری ہو گیا ۔ پانچ بھنگیوں کا ایک گرو مین ہول کے اندر اترا اور اندر ہی رہ گیا ۔ پائب لائن کے اندر زندگی کی جنگ ہار جانے والوں میں جان کا باپ بھی تھا ۔ میونسپل کمیٹی نے ہلاک ہو جانے والے ان پانچ بھنگیوں کیلئے کمیٹی کے ہال میں ایک تعزیتی ریفرنس رکھا ،جس میں شہرکے معززین ،شہریوں اور میڈیا نمائندگان کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ تعزیتی ریفرنس میں میونسپل کمیٹی کے اعلیٰ آفیسرز نے ان بھنگیوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے لمبی چھوڑی تقاریر کیں ۔ہلاک ہونے والے بھنگیوں کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی کیا ۔میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویو دیئے اور اس وعدے کے ساتھ کے ہال سے چلے گئے کہ کمیٹی ہلاک ہو جانے والوں کے اہلخانہ کو غم کی اس گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑے گی ۔ان کی مالی مدد کی جائے گی اور ان کے اولادوں کو میونسپل کمیٹی میں ملازمت ۔

جان اسی وعدے کی تکمیل کیلئے ہاتھ میں عرضی پکڑے کئی دنوں سے چیئر مین صاحب کے دفتر کے چکر کاٹ رہا تھا مگر ہر روز اسے ایک ہی جواب سننے کو ملتا ” چیئر مین صاحب میٹنگ میں ہیں ، جب میٹنگ ختم ہو گی اسے صاحب سے ملوا دیا جائے گا “ جان بینچ پہ بیٹھا ماضی کی وادی میں اترتا چلا گیا ۔ اسے اپنے باپ کی باتیں یاد آنے لگیں ۔ اپنے باپ کے ساتھ گزارے لمحے ستانے لگے ۔ ایک روز جب جان کا باپ سڑک کنارے جھاڑو لگا رہا تھا وہ اسے دوپہر کی روٹی دینے آیا تھا ۔اس نے اپنے باپ کو پسینے میں شرابور دیکھا ،قمیض پسینے سے تر ہو چکی دوپہر کا وقت تھا سورج جیسے سوا نیزے پر آ گیا تھا ،سڑک تانبے کی ماند تپ رہی تھی ،سڑک پر جہاں تک نظر جاتی تھی ہو ا گرمی کی شدت سے تھرا رہی تھی ، باقی سارے بھنگی سائے میں آرام کرنے چلے گئے تھے جب کہ اس کا باپ اب بھی سڑک کنارے پڑے کوڑے کو جھاڑو سے صاف کر رہا تھا ۔ جان نے اپنے باپ کو سائے میں دو گھڑی آرام کرنے کو کہا اور باپ کو سڑک کنارے لگے پیپل کے درخت کے سائے میں لے جا کر بیٹھایا ۔ جان نے اپنے باپ سے اتنی دھوپ میں کام کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا تھا کہ آج یہاں سے ایک بہت بڑے آفسر نے گزر کر جانا ہے یہ سب صفائی ستھرائی اس لیئے ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔ بیٹا ، اگر تم کہو تو میں اس افسر سے تیری نوکری کی بات کروں ، مجھے امید ہے تری تعلیم کو دیکھ کر افسر تجھے فور مین بھرتی کر لے گا ، وہ دیکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فور مین گھنے سائے میں کیسے آرام سے بیٹھا ہے اور ہم بھنگی جھاڑو لگا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو بھی اگر فور مین لگ گیا تو ایسے ہی سائے میں بیٹھا کرے گا “ ” نہیں ابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں کرنی فور مین کی نوکری، میں پڑھ لکھ کر بڑا افسر لگوں گا ، بڑا افسر بننا ہم بھنگیوں کے مقدر میں نہیں ہے ،ہم نے انہیں سڑکوں اور گلیوں کی خاک چھاننی ہے بیٹا ۔ تو جتنا مرضی لکھ پڑھ جا رہے گا ایک بھنگی کا ہی بیٹا اور بھنگی کا بیٹا کبھی افسر بن سکتا ہے کیا ِ“ کیوں ابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں بن سکتا ، ہم بھی تو اسی ملک کے شہری ہیں ،ہم کو بھی کو وہی حقوق حاصل ہیں جو دوسروں کو ۔۔۔۔۔“ جان کے باپ نے نوالہ توڑ کر منہ میں ڈالا اور چبانے لگا ۔ ” حقوق کونسے حقوق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسے ہوتے ہیں ،کیا ان کی کوئی شکل و صورت ہے ؟ کیا ان کا کوئی وجود ہے ؟ کیا ان کو تم نے ،میں نے یا کسی نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ جان نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کتاب میں لکھی ہوئی باتیں ہیں ، جو تم نے پڑھی ہے ، میں نے لوگوں کو پڑھا ہے ، ان افسروں کو پڑھا ہے جو اس میونسپل کمیٹی کو چلا رہے ہیں ۔ حقوق ان کے گھر کی باندھی ہیں ،حقوق اس خیرات کی ماند ہیں جو دے دی جائے توثواب نہ دی جائے تو گناہ نہیں ۔اس لیئے یہ بڑے افسر اس خیرات کو دینا پسند نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ایک دن جب جان اپنے باپ کو دوپہر کا کھانا دینے آیا تو اپنے باپ کو گٹر کی صفائی کرتے دیکھا ” ابا ۔۔۔! مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے ،جب آپ کو اس طرح گٹر میں کام کرتے دیکھتا ہوں ۔ کیا دنیا میں اس سے گھٹیا کام بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟“ کام کوئی بھی گھٹیا یا معمولی نہیں ہوتا ، گھٹیا انسان کی سوچ ہوتی ہے ، جو کام کو گھٹیا قرار دیتے ہیں ۔میرے دادا ایک انگریز جو برطانیہ سرکار کے ایک بہت بڑے افسر تھے ، کے گھر کام کرتے تھے ۔وہ ان کا بول براز ٹوکری میں سرپر اٹھا کر شہر سے دور پھینک آتے تھے ۔ انگریز افسر نے اس خدمت کے صلہ میں جاگیر کا کہا تو تمھارے دادا نے انکار کر دیا ورنہ آج میں اس گٹر سے لوگوں کا بول براز نہ نکال رہاہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔“ ” ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں ملازمت کرنے لگوں گا تو آپ کو یہ کام نہیں کرنے دوں گا “ جان اپنے باپ کو تسلی دیتا جواب میں باپ بیٹے کے گال تھپکاتا اور دونوں باپ بیٹا سائے میں چلے جاتے ۔

بینچ پر بیٹھے جان کی نظر دور گراﺅنڈ میں صفائی کرتے کچھ بھنگیوں پر پڑی جو چند دن پہلے اس کے باپ کے ساتھ مل کر کام کیا کرتے تھے ۔وہ آہستہ آہستہ چلتے ان کے پاس جا پہنچا سب نے جان کو پہچان لیا اور جھاڑو بغل میں دبائے جان کے پاس آ گئے جان نے سب کو سلام کیا ۔جان ان میں سے اکثر کو پہچانتا تھا ،جب وہ اپنے باپ کو دوپہر کا کھانا دینے آتا تھاتو وہ اس کے باپ کے ساتھ کام کرتے نظر آتے تھے ۔ وہ سب جان سے اس کی باپ کی باتیں کرنے لگے ۔ سب نے جان کے باپ کی کھلے دل سے تعریف کی ۔ ان میں سے ایک بھنگی جان سے کہنے لگا ” بیٹا تمھارے باپ جیسا انسان روز پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کی موت میونسپل کمیٹی کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سب ملازموں کے ساتھ ہمیشہ نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ سب کو ایمانداری سے کام کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ہر وقت اپنے کام میں لگے رہتے تھے ، بلا وجہ میں نے ان کو کبھی بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ سب باتیں کر رہے تھے اور جان سن رہا تھا ۔کہتے ہیں انسان کی اچھائی لوگوں کی زبان سے پتا چل جاتی ہے ۔ لوگوں کی زبان برے اور اچھے کا سرٹیفیکیٹ ہوتی ہے ۔ جان کا باپ کیسا تھا آج اسے سرٹیفیکیٹ مل گیا تھا ۔ لیکن اسے انتظار تھا چیئر مین کی طرف سے باپ کی خدمات کے صلے میں ملازمت کے ملنے کا۔ جس کیلئے وہ کئی دنوں سے تگو دو کر رہا تھا ۔

جان دوبارہ چیئر مین کے دفتر کے باہر کھڑا تھا ۔ چپڑاسی نے اسے بتایا کہ میٹنگ ختم ہو گئی ہے ۔ چپڑاسی اند ر گیا ، واپس آیا تو جان کے اندر جانے کے احکامات لے آیا ۔ جان کا بجھا چہرہ ترو تازہ ہو گیا ۔ اسے یقین سا ہونے لگا کہ چیئر مین اسے مایوس نہیں کریں گے ۔جان نے چیئر مین کے سامنے درخواست رکھ دی۔ چیئر مین صاحب نے ایک نظر درخواست کو دیکھا اور جان سے مخاطب ہوا ” تمھارے باپ کی میونسپل کمیٹی کیلئے خدمات قابل قدر ہیں، اس بات کو میں ہی نہیں ،کمیٹی کا ہر افسر ااور ملازم مانتا ہے کہ وہ ایک دیانت دار شخص تھے ، میں نے ان کو اپنے بنگلے پر کام کرتے دیکھا ہے ۔ انتہائی جان فشانی اور لگن سے کام کرتے تھے ۔ میں نے فناس آفیسر سے بات کی تھی ،بقول ان کے کمیٹی کے بجٹ پر پہلے ہی اضافی ملازموں کا بوجھ ہے اور کمیٹی مزید ملازم رکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ لیکن میں نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ،اس امید کے ساتھ تم کو ملازمت دینے کا اپنا وعدہ پورا کر رہا ہوں کہ تم اپنے باپ کی طرح میونسپل کمیٹی کی خدمت کرو گے اور اپنے باپ کے ادھورے مشن کو مکمل کرو گے “

میونسپل کمیٹی کے مونو گرام والی شرٹ تن پہ سجائے ہاتھ میں جھاڑو پکڑے صبح سویرے جان باقی بھنگیوں کے سات لائن میں کھڑا تھا اور فور مین حاضری لینے کے بعد ان کو کام سمجھا رہا تھا ۔ جان کے دماغ میں اپنے باپ کے یہ الفاظ گونج ” جان افسر بننے کے خواب دیکھنا چھوڑ دے تو ایک بھنگی کا بیٹا ہے ،بھنگیوں والا کام سیکھ لے زندگی میں ایک دن کام آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
Muhammad Nawaz
About the Author: Muhammad Nawaz Read More Articles by Muhammad Nawaz: 16 Articles with 14173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.