بنتِ حواکے تحفظ کا بل2015

پنجاب اسمبلی نے ’خواتین کے تحفظ کا بل 2015‘ منظور کر کے خواتین پر تشدد، بد کلامی، مارپیٹ، معاشی استحصال ، جذباتی اور نفسیاتی تشددنیز سائبر کرائمزجیسے گھناؤنے کرائم کی روک تھام کی عملی کوشش شروع کردی۔ بل میں خواتین کے تحفظ کے لیے شیلٹر ہوم، شکایات کے ازالے کے لیے ٹال فری نمبر قائم کیا جائے گا، جب کہ تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی قائم کی جائے گی، پروٹیکشن آفیسر شکایت ملنے کے بعد متعلقہ شخص کو مطلع کرنے کا پابند ہوگا، بل کے تحت پروٹیکشن آفیسر سے مزاحمت کرنے پر چھ ماہ تک کی سزا اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ جب کہ شکایت یا اطلاع کرنے پر تین ماہ کی سزا اور پچاس ہزارسے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا، غلط شکایت کی صورت میں خاتون کو تین ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی، متاثرہ خاتون کو گھر سے بیدخل نہیں کیا جاسکے گا، اخراجات بھی مرد اٹھائے گا، نان نفقہ ادا کرنے سے انکار پر عدالت تشدد کے مرتکب مرد کی تنخواہ سے کٹوتی کر کے ادا کرسکے گی،بل میں یہ بھی درج ہے کہ خواتین پر تشدد کرنے والے مرد کو دو دن کے لیے گھرنکالا کر دیا جائے گا، تشدد کرنے والے مرد وں کو جی پی ایس ٹریکرسسٹم کی تنصیب کو عدالت کے حکم سے مشروط کیا گیا ہے، جی پی ایس ٹریکر سسٹم والے کڑے (شناختی کڑے) کو بازو سے اتارنے پر ایک سال قید اور پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے، بل میں یہ بھی شامل ہے کہ تشدد کے مرتکب مردوں کو اسلحہ خریدنے اور اسلحہ لائسنس حاصل کرنے سے روکا جاسکے گا،ان کے پاس موجود اسلحے کو بھی عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی جاسکے گی۔اس بل کے تحت پنجاب بھر میں متاثرہ خواتین کے لیے شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے جب کہ شیلٹر ہومز میں متاثرہ خواتین اور ان کے بچوں کو بورڈنگ اور لاجنگ کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی، مصالحت کے لیے بھی سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔تشدد کی تفصیل کا ایک ڈیٹا بیس بھی مرتب کرنے کی بات اس بل میں کی گئی ہے جو کہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی جناب ایک مثبت قدم ہے۔

بل میں بنتِ حوا کو ظالم مردوں سے بچانے اور انہیں تحفظ دینے کی بہت اچھی باتیں ہیں۔ کاش ، کاش اور کاش ان باتوں پر عمل درآمد کرانے والے بل پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد بھی کراسکیں۔ خواتین کو تشدد سے بچانے کے لیے یہ کوئی پہلا قدم نہیں ، اس سے پہلے بھی اس قسم کے اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔حقوق نسواں کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز حکومتوں کی توجہ اس جانب متوجہ کراتی رہی ہیں۔ ماضی میں ملازم پیشہ خواتین کو کام کرنے کی جگہوں پر مختلف طریقوں سے ہراساں کیے جانے کے خلاف اور بنتِ حوا کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے محفوظ رکھنے کا ایکٹ 2010منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون نے کام کرنے کی جگہوں ، بشمول پولیس اسٹیشن ، حوالات ، جیلوں، اسکولوں، جامعات اور پبلک مقامات کو بنتِ حوا کے لیے محفوظ بنایا۔ اس ضابطہ اخلاق کا مقصد کارکن خواتین کو ایک ایسا بہ عزت ماحول فراہم کرنا تھا جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کرسکیں۔ اس قانون پر کس قدر عمل ہوا ۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں اس ضابطہ اخلاق کو قانون پر عمل درآمد کرانے والوں نے تفریحی مقامات پر لوگوں سے نکاح نامے طلب کیے جس سے یہ ضابطہ بہتری لانے کے بجائے پولیس کے لیے ناجائز آمدنی کا ذریعہ بنا ۔ ایسا نہیں کہ اس قانون سے کچھ بہتری نہیں آئی ، کچھ نہ کچھ اچھے اقدامات بھی ہوئے جیسے پشاور اور اسلام آباد میں لیگل سینٹر بنائے گئے اور دیگر اقدامات بھی ہوئے۔ اس ایکٹ کے علاوہ مختلف حکومتیں بنتِ حوا پر تشدد کی روک تھام کے لیے قانونی اقدامات بھی کرتی رہی ہیں۔ ان میں عورت مخالف رسم و رواج کے خاتمے کا قانون، عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی روک تھام کا قانون، نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کو با اختیار بنانے کا قانون، قیدی عورتوں کی فلاح کا قانون جیسے قوانین ماضی میں منظور کیے جاتے رہے ہیں۔ کسی بھی چیز میں بہتری لانے میں دو عوامل بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ان میں سے ایک قانون سازی اور دوسرا جو سب اہم ہے وہ اس قانون پر عمل درآمد ۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ ہم زبانی جمع خرچ خوب کرنا جانتے ہیں، بلنگ بانگ دعوے کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھتے لیکن جب عمل کرنے کی بات آتی ہے تو وہاں ہماری کارکردگی صفر ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں ہمارا پہلا قدم بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ کونسا ایسا جرم ہے جس کے لیے قانون موجود نہیں ، کیا چوری کرنے کی سزا نہیں، قتل کی سزا موجود نہیں ، کسی کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی سزا موجود نہیں، بنتِ حوا کے ساتھ زیادتی کرنے کی سزا موجود نہیں اس کے باوجود قتل ہورہے ہیں، چوریا ں ہورہی ہیں، ڈاکے پڑ رہے ہیں، اسٹریٹ کرائم جاری ہیں، خواتین پر تشدد ہورہا ہے، جائیدادوں پر قبضے ہورہے ہیں، لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس کی وجہ صرف اور صرف قوانین پر عمل درآمد کا نا ہونا ہے۔ جرم کا ارتکاب کرنے والے کو یہ اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ معاملا پولیس اور پھر عدالت میں جائے گا، اگر پولیس سے مک مکا نہ ہوسکاتو عدالت میں معاملا اس قدر طول پکڑے گا کہ دادا مقدمہ کرے گا اور پوتا اس کا فیصلہ سنے گا۔

خواتین پر تشدد کو روکنے کے لیے دنیا کے ہر ملک میں قوانین موجود ہیں۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ وہاں قانون کے ساتھ ساتھ اس پر سختی کے ساتھ عمل بھی ہوتا ہے ۔ سعودی عرب میں گاڑی چلانے والا یا ٹیکسی ڈرائیور ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی صرف اس وجہ سے نہیں کرتا کہ اسے معلوم کہ اس کا جرم قانون سے چھپ نہیں سکے گا اور اسے اپنے جرم کی سزا ہر صورت میں بھگتنا بڑے گی ۔ یہی ڈر اور خوف اسے جرم سے روکے رکھتا ہے۔ ہم اس خوف سے بالکل آزاد ہیں ، ہمارے ذہنوں میں صرف یہ ہوتا ہے کہ جو جرم سرزد ہوا اس سے جھٹکارا حاصل کرنے کے کون کون سے طریقے رائج ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جرم کرنے میں کوئی ڈر و خوف حائل نہیں ہوتا۔ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال یعنی 2015میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی 3265 خواتین معاشرے کی بے حسی کی بھینٹ چڑہیں۔بیرون دنیا کے اخبارات میں یہ تعداد 5401رپورٹ کی گئی ۔ واقعات کی نوعیت اغوا، تیزاب پھینکنے، زنا بالجبراور جنسی تشدد کے واقعات تھے۔ عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ ہے کہ سب سے زیادہ عورت پر تشدد کے واقعات پشاور میں ہوئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے وہ شہر جہاں عورت پر تشدد کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں ان میں لاہور، سرگودھا، اوکاڑہ، ڈی جی خان، پاکپتن، ساہیوال، میر پورخاص، شکار پور اور گھوٹکی شامل ہے۔ عورت فاؤنڈیشن نے عورتوں پر تشدد کے جو اعداد و شمارشائع کیے وہ ہمارے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہیں۔ 1086بنتِ حوا اغوا ہوئیں ،792بنتِ حوا قتل کی گئیں، 435 بنتِ حوا جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں، 379 بنتِ حوا نے خود کشی کی، 346بنتِ حواغیرت کے نام پر قتل ہوئیں، 298بنتِ حوا پر گھریلو تشدد کیا گیا، 50کا جنسی استحصال ہوا، 46کے چہرے تیزاب سے بگاڑ دیے گئے،32بنتِ حوا ایسی تھیں کہ جن کو زندہ جلا دیا گیااور1160بنتِ حوا دیگرتشدد کا شکار ہوئیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان میں 70سے90فیصد خواتین کسی نہ کسی قسم کے گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ غالباً اس تعداد میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہیں ان کے شوہر کسی بھی معمولی بات پر ڈانٹ ڈپٹ کردیتے ہیں وہ بھی گھریلو تشدد کی ایک صورت بنا لی گئی۔

بنتِ حوا پر تشدد کی وجوہات مختلف ہیں حالانکہ اسے تو کائینات کا حسین تحفہ کہاگیا ہے، انسانوں کے باپ حضرت آدم ؑ نے اماں حوا کو اﷲ تبارک و تعالیٰ سے فریاد کر کے مانگا تھا۔ اگر حوا نہ ہوتیں تو یہ کائینات کیسے پھلتی اور پھیلتی۔ حواکا وجود نسل انسانی کے پھلنے پھولنے کا باعث ہے۔ کلام مجید کی سورۃ النساء اولین آیت میں کہا گیا ہے کہ’’ اے لوگواپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے مرد اور عورتیں پھیلائیں‘‘۔اماں حوا کی پیدائش کے بارے میں قرآن مجید کی سورۃ النساء کی اولین آیت میں لفظ ’’نفس‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس معنی ’نفس، جاندار، روح، شخص، پسلی، ہڈی کے لیے گئے ہیں، صحیح بخاری کی حدیث جس کے راوی حضرت ابو حریرہ ہیں۔ آنحضرت محمد ﷺ نے فرمایا ’’میں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ عورتوں کا خیال رکھو، کیوں کہ انہیں بنایا گیا ہے ہڈی (پسلی) سے ، اورپسلی کے سب سے خم دار حصہ جو اس کے اوپر کا حصہ ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے ، یہ ٹوٹ جائے گی، اگر اسے چھوڑ دوگے ،یہ بدستور غم دار رہے گی۔ اس وجہ سے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ عورتوں کا خیال رکھنا‘‘۔بنتِ حوا کے بغیر زندگی ادھوری اور ویران کے مترادف ہے ، اسلام خواتین کے تحفظ کا ضامن ہے تو پھر ہمیں کسی دنیاوی قانون کی کیا ضرورت لیکن ہمارے سماجی رویے اور ہماری خاندانی روایات نے مر د کو عورت پر تشدد پر اکسایا ۔ اس میں بڑی وجہ تعلیم کا عام نہ ہونا اور جہالت ہے جس نے معاشرہ میں عورت کو محض ایک لونڈی ، غلام، نوکرانی سمجھ لیا ہے۔ عورت پر تشدد کا ریشو نکالا جائے تو ان علاقوں میں بہت زیادہ ہے جہاں تعلیم کی کمی ہے، جہالت ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سنجیدگی سے ملک میں تعلیم کو عام کرنے کے اقدامات کیے جائیں ۔ تعلیم عام ہوگی تو بے شمار مسائل اور مشکلات خود بخود حل ہوجائیں گے ۔ ان میں سے ایک بنتِ حوا پر تشدد بھی شامل ہے۔ حکومت نے بل تو منظور کر لیا اب ضرورت ہے کہ اس بل پر سختی سے عمل درآمد بھی کیا جائے۔عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں یہ بل بھی دیگر قوانین کی مانند فائلوں اور کتابوں کی ذینت بن کر رہ جائے گا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1288211 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More